چولستان منصوبہ اور سندھ کا کیس

معروف سینئر کالم نگار محمد خان ابڑو نے بروز اتوار 24 نومبر 2024ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر اپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔ اربابِ اختیار کو سندھ کے اہلِ دانش و بینش کے چولستان کو آباد کرنے کے مجوزہ منصوبے سے متعلق خدشات اور تحفظات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

’’میرے سامنے 22 نومبر کا اخبار دھرا ہے، جس میں وفاقی حکومت کی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی جانب سے جاری کردہ وڈیو بیان کی تفصیل بھی ہے اور نواز لیگ سندھ کے صدر بشیر میمن کا بیان بھی نظر سے گزرا ہے۔ اگرچہ بلاول بھٹو اور بشیر میمن کا سیاسی قدکاٹھ الگ الگ ہے لیکن یہاں دونوں کے بیانات کا موازنہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف پی پی کی قیادت کی سوچ، پالیسی اور سندھ سے اس کا رویہ ہے، تو دوسری جانب نواز لیگ کی روایتی سندھ دشمن سوچ اور تربیت کا اثر ہے جو بشیر میمن کے بیان سے جھلکتا ہے۔ ذرا سوچیے بشیرمیمن اگر ایم این اے منتخب ہوجاتے اور وفاقی حکومت میںکسی اہم عہدے پر بھی فائز ہوچکے ہوتے تو اس صورت میں اُن کی سوچ اور سندھ کے لیے اُن کا رویہ کس طرح کا ہوتا؟

اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بظاہر اقتدار سے باہر ہوتے ہوئے بھی نواز لیگ کی زبان بولتے ہوئے کہتے ہیںکہ پنجاب اپنے حصے کے پانی پر کینال تعمیر کررہا ہے، اور کینال صوبوں کی مرضی سے بنائے جارہی ہیں۔ اور تو اور موصوف یہ بھی فرما رہے ہیں کہ پی پی کو کینال کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

بشیر میمن صاحب آئین کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ارسا ایکٹ کے تحت ہر صوبے کو اپنے حصے کا پانی ملتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات یا نئی معلومات اس لیے بھی نہیں ہے کہ ارسا ایکٹ کے مطابق تحریر تو بالکل یہی ہے لیکن بتانے کی ضرورت یہ ہے کہ اس کے برعکس ہوتا کیا ہے؟ نواز لیگ سندھ کے صدر بشیر میمن کہتے ہیں کہ ارسا ایکٹ کے تحت ہر صوبے کو اپنے حصے کا پانی ملتا ہے۔ پنجاب اپنے حصے کا پانی استعمال کرنے کے لیے کینالوں کی تعمیر کرے گا اور اپنی زمینوں کو آباد کرے گا۔ اس طرح سے سندھ میں 2 کینال اور کے پی کے میں بھی کینالوں کی تعمیر ہورہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بشیر میمن اپنے قائدین کی زبان بولتے ہوئے اہلِ سندھ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک تو یہ کہ پنجاب دریائے سندھ سے کینال نکال کر کسی سے بھی کوئی ناانصافی نہیں کررہا ہے، دوسرا یہ کہ سندھ میں پہلے ہی سے کینال موجود ہیں جن میں پانی کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ لکھ چکا تو بشیر میمن اور بلاول بھٹو کی سوچ اور سیاست میں موازنہ کرنا مناسب نہیں لگ رہا ہے، لیکن کیوں کہ بشیر میمن کی بولی سے نواز لیگ کی قیادت کی سوچ اور سندھ سے ان کے رویّے کی جھلک نظر آتی ہے اس لیے اہلِ سندھ کو بلاول کے بیان کو بھی غور سے سننا اور سمجھنا چاہیے جو وفاقی حکومت سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ دریائے سندھ سے چولستان سمیت 6 نئی کینال نکالنے کا یک طرفہ منصوبہ واپس لیا جائے اور سندھ کے ٹیل (Tail) کے آخری علاقوں تک پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ معیشت کو بہتر بنایا جاسکے۔ بلاول نے کسی بھی طرح سے چولستان منصوبے کی حمایت کرنے کے بجائے ریاست کو خبردار کیا ہے کہ اگر یہ منصوبہ واقعتاً ملک کے مفاد میں ہے تب بھی سندھ اور بلوچستان کے اعتراضات نہ سنے گئے تو اس صورت میں یہ منصوبہ بھی کالا باغ ڈیم کے منصوبے کی طرح ہی سے متنازع بن کر رہ جائے گا۔ بلاول نے دعویٰ کیا ہے کہ ہمارے پاس برطانوی دور سے جاری فلڈ ایریگیشن موسمیاتی تبدیلیوں کے دور میں اب ازکارِ رفتہ ہو کر رہ گیا ہے لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ ہم فیزوں میں جدید اسمارٹ ایریگیشن پر توجہ دیں اور اس کے ذریعے سے کم پانی استعمال کرکے ہاریوں (کسانوں)کو فائدہ پہنچائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ زبردستی اگر آپ نے اپنی رائے مسلط کی تو اس کے ہماری سیاست، معیشت، سیاسی استحکام اور وفاقی ہم آہنگی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان یا اپنا گرین سندھ انیشیٹو ہو اور وہ کامیاب ہو۔

بلاول نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ہمیں ارسا کی جانب سے 1991ء کے معاہدے کے تحت اپنے حصے کا پانی نہیں دیا جارہا ہے، اس لیے ہماری کوشش ہے کہ اِس وقت جتنا بھی پانی مل رہا ہے اسے بہتر طریقے سے استعمال کریں۔ بلاول کے بیان کے بعد سندھ اور بلوچستان حکومتوں کی جانب سے دریائے سندھ سے 6 نئی کینال (نہریں) نکالنے کے معاملے کا کیس رکھنے کے لیے مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کے لیے الگ الگ خط لکھنے پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔ یہ ساری کہانی بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف سندھ کے قوم پرست روڈوں، راستوں پر دریائے سندھ پر پڑنے والے ڈاکے کے خلاف احتجاج کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف پی پی کی قیادت بھی سندھ کے ایشوز کے حوالے سے غافل نہیں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ امکانی طور پر دسمبر میں منعقدہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں نہروں (کینالوں) کی تعمیر اور سندھ کی رائلٹی کے معاملے کا کیس رکھیں گے۔ اہلِ سندھ بہ خوبی سمجھتے ہیں کہ سندھ کے وجود کو مٹانے کے لیے دریائے سندھ کا پانی چرانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، لیکن اہلِ سندھ نے کبھی بھی دریائے سندھ کے خلاف اور ماحولیات دشمن منصوبے قبول نہیں کیے ہیں اور نہ ہی کبھی قبول کریں گے۔ اس وقت بھی سندھ کے عام افراد روڈوں، راستوں پر نکلے ہوئے ہیں اور دریائے سندھ کو بچانے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ سندھ کے دیگر حلقوں کو بھی اس حوالے سے آگے آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری یہ کالم نگاری، علم، ادب، زبان اور شاعری بھی اسی صورت میں زندہ رہے گی جب تک دریائے سندھ سے ہماری زندگی اور ہمارا مستقبل وابستہ ہے۔ اس لیے دریائے سندھ پر اگر ڈاکہ ڈالا گیا تو پھر کوئی بھی خاموش ہرگزنہیں رہے گا۔ اس وقت سندھ کے سبھی لوگ احتجاج کرکے یہ واضح کرچکے ہیں کہ دریائے سندھ سے 6 کینال تو کجا ایک کیوسک پانی کی چوری کے خلاف بھی مزاحمت کی جائے گی۔

وفاق اور ریاست کو سمجھنا چاہیے کہ سندھ پہلے ہی سے خشک ہورہا ہے اس پر طرہ یہ کہ وفاق کی جانب سے نئی کینال بنائی جارہی ہیں۔ نہریں نکالنے کے جو منصوبے بنائے جارہے ہیں اُن کے لیے آخر کہاں سے بچاکر پانی ان کینالوں میں چھوڑا جائے گا؟ چولستان کینال جو 4 ہزارکیوسک کی ہے، وہ 6 ہزار ایکڑ زمین کو آباد کرے گی۔ سندھ جو پہلے ہی سے پانی کی قلت کا شکار ہے اس سے اور زیادہ بری طرح سے متاثر ہوگا۔ نئی کینال بنانے کی آخر انہیں کیا ضرورت پیش آئی ہے؟ کیا یہ پنجاب کو آباد کرنے کے لیے دوسرے صوبوں کا استحصال کریں گے؟ وفاق بتائے کہ کون سی کینالوں میں سے پانی کو بچا کر اسے چولستان کینال میں چھوڑا جائے گا؟ یہاں تو پہلے ہی سے ڈائون اسٹریم میں پانی نہ چھوڑے جانے کی وجہ سے سمندر سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمین کو ہڑپ کر چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک تیزی سے جاری ہے۔ فروری 2024ء کے ایکنک کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے کے مطابق پانی کے معاملے پر اگر کسی بھی صوبے کو کوئی اعتراض ہوگا تو اس صورت میں اسے مشترکہ مفادات کی کونسل میں رکھا جائے گا۔ اگر سندھ کے تمام تر اعتراضات کے باوجود وفاق اسی طرح سے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو اس صورت میں میرا پی پی قیادت کو یہ مشورہ ہوگا کہ وہ اہلِ سندھ کے احتجاج میں اسی طرح سے شامل ہوجائے جس طرح پہلے ماضی میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کالا باغ ڈیم کے خلاف دھرنے میں شریک ہوئی تھیں۔ یہی بات سندھ سے منتخب کردہ پی پی کے ایم این ایز، ایم پی ایز، وزرا وغیرہ کو بھی سوچنی چاہیے کہ ان کی وزارتیں اور عہدے بھی سندھ ہی سے وابستہ ہیں۔ دریائے سندھ سے نئے کینال نکالنے کی صورت میں سندھ کی زراعت یکسر تباہ ہوکر رہ جائے گی اور سندھ جو پہلے ہی سے پانی کی شدید قلت سے دوچار ہے، دریائے سندھ خشک ہوجانے کی صورت میں عوام اور خواص سب کی زمینیں برباد ہوجائیں گی۔ اس وقت نصف سندھ میں دو کے بجائے صرف ایک ہی فصل کاشت ہورہی ہے، اس پر مستزاد دریائے سندھ پر نیا اور بڑا ڈاکہ ڈالنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ دریائے سندھ پر ہی درحقیقت ہماری بقا کا انحصار ہے۔ دریائے سندھ خشک ہوجانے کی صورت میں ہم سب کی زندگی ہی ختم ہوجائے گی۔‘‘