کینسر کا علاج سدھو کے دعوے

کیا کینسر کا علاج قدرتی اور دیسی طریقوں سے ممکن ہے؟
فارماسیوٹیکل انڈسٹری اور قدرتی علاج کے درمیان کیا منافع رکاوٹ ہے؟

کینسر دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والا ایسا مرض ہے جو ہر سال لاکھوں اموات کا باعث بنتا ہے۔ یہ ایک ایسی خطرناک بیماری ہے جو دنیا بھر میں روزانہ جانیں لے رہی ہے۔ کینسر جدیدیت کا تحفہ ہے جس کی تکلیف اب بڑھتی جارہی ہے۔ اس مرض کے بارے میں مختلف نظریات، علاج کے طریقے، اور غذائی ٹوٹکے عوامی اور سائنسی حلقوں میں زیر بحث رہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بھارتی کرکٹر اور سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو کے دعوے سامنے آئے کہ اُن کی اہلیہ نوجوت کور سدھو نے اپنی خوراک میں تبدیلیوں کی مدد سے اسٹیج فور کینسر پر قابو پایا۔ سدھو کے ان دعووں نے سوشل میڈیا اور طبی ماہرین کے درمیان ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

نوجوت سنگھ سدھو نے اپنی اہلیہ کی صحت یابی کے بارے میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان کی اہلیہ نے نہ صرف کیموتھراپی اور ریڈی ایشن علاج کروایا بلکہ مخصوص غذائی اجزاء کے استعمال سے اپنی بیماری پر قابو پایا۔ سدھو کے مطابق ان کی اہلیہ کی غذا میں لیموں کا رس، کچی ہلدی، سیب کا سرکہ، نیم کے پتے، تُلسی، انار، آملہ، چقندر اور اخروٹ شامل تھے۔

سدھو نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کی خوراک سے چینی، گندم کا آٹا، ریفائنڈ میدہ، کاربوہائیڈریٹس، اور دودھ جیسی اشیاء نکال دیں، جو اُن کے بقول کینسر کے خلیوں کی افزائش میں کردار ادا کرتی ہیں۔ سدھو نے سوشل میڈیا پر اس بات کو اجاگر کیا کہ ایک صحت بخش اور دیسی خوراک بیماری سے لڑنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

سدھو کے دعوے کو سائنسی حقائق کی روشنی میں پرکھا جائے تو کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ انڈیا کے ٹاٹا میموریل اسپتال کے ماہرین اور دنیا بھر کے دیگر کینسر اسپیشلسٹس کا کہنا ہے کہ کینسر کے علاج میں جڑی بوٹیوں یا غذائی اجزاء کے استعمال کو طبی علاج کا متبادل نہیں سمجھا جا سکتا۔ ٹاٹا میموریل اسپتال کے ماہرین نے واضح کیا کہ سدھو کے دعووں کی تائید کے لیے کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں۔

ڈاکٹر کنوپریا بھاٹیہ، جو آنکولوجسٹ ہیں، کا کہنا ہے کہ سماجی میڈیا پر موجود معلومات اکثر گمراہ کن ہوتی ہیں، اور مریضوں کو ان پر عمل کرنے کے بجائے فوری طور پر مستند ڈاکٹرز سے رجوع کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ غذائی اجزاء جسمانی علامات کو بہتر کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، لیکن یہ مکمل علاج نہیں ہیں۔

اس وقت جدید طبی دنیا میں کینسر کے علاج کو چار بنیادی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:

(1)سرجری
(2)کیموتھراپی
(3)ریڈی ایشن تھراپی
(4)امیونو تھراپی

یہ تمام علاج کئی عشروں کی تحقیق کا نتیجہ ہیں اور ان کا مقصد مریض کے جسم سے کینسر کے خلیات کو ختم کرنا یا ان کی نشوونما کو روکنا ہے۔ لیکن طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کینسر کے علاج میں جلد تشخیص اور معیاری طبی امداد کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

صحت مند غذا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ متوازن غذا نہ صرف بیماریوں سے بچاؤ میں مددگار ہے بلکہ یہ مجموعی صحت کو بھی بہتر بناتی ہے۔ تاہم ماہرین (چاہے اس کی کوئی بھی وجہ ہو) سمجھاتے ہیں کہ کینسر جیسی بیماریوں کا علاج صرف خوراک اور طرزِ زندگی میں تبدیلی سے ممکن نہیں۔ اور ہم چاہیں یا نہ چاہیں اُن کے اس کہے کو ماننے پر مجبور ہیں۔

اس ضمن میں بی بی سی کی ایک رپورٹ میں ڈاکٹر جسبیر اولکھ کے حوالے سے لکھا ہے کہ پرانے زمانے میں لوگ قدرتی اور سادہ خوراک کھاتے تھے، جو مجموعی صحت کے لیے فائدہ مند تھی۔ لیکن یہ کہنا کہ صرف خوراک کینسر کا علاج کرسکتی ہے، گمراہ کن ہے۔

سدھوکے دعوے عوام کو امید دے سکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ سدھو نے اپنی اہلیہ کے لاعلاج مرض، یا یہ کہہ لیں کہ ڈاکٹروں نے تو جواب دے ہی دیا تھا، کا علاج کرکے دکھایا ہے۔ کیا اس کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ اسی پس منظر میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی سے منسلک آنکولوجسٹ ڈاکٹر محمد طاہر بشیر کا کہنا ہے کہ بظاہر سدھو کے دعوے کہانیوں پر مبنی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ درست ہے کہ صحت مند زندگی گزارنے اور صحت بخش غذائیں کھانے سے کینسر سے بچا جا سکتا ہے‘‘۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’’لیکن کسی کو کینسر کی تشخیص کے بعد اس کا علاج شروع کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اور نہ کوئی اور متبادل طریقہ علاج آزمانا چاہیے۔‘‘

ان کے مطابق ’’جڑی بوٹیوں، بیجوں یا دیگر قدرتی اجزا کا استعمال مریضوں کی علامت کو بہتر کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے، لیکن یہاں یہ ثابت کرنے کے لیے سائنسی شواہد کی کمی ہے جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یہ اجزا کسی میڈیکل طریقۂ علاج کا متبادل ہوسکتے ہیں۔‘‘

انھوں نے تنبیہ کی کہ ’’سائنسی طبی امداد سے انکار کرنا یا آنکولوجسٹ کی ہدایات کو نظرانداز کرنا مریضوں کی جان کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔‘‘

اس ضمن میں کینسر جیسی پیچیدہ بیماری کے علاج کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا صرف وہی علاج مؤثر اور معتبر ہوسکتا ہے جس کی پشت پر سائنسی شواہد موجود ہوں؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں، کیونکہ جدید طبی نظام اور روایتی یا متبادل طریقہ علاج کے مابین کئی اخلاقی، تجارتی اور سائنسی تنازعات موجود ہیں۔

سائنسی شواہد کسی بھی علاج کو قبولیت دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شواہد اکثر مغربی طبی ماڈل کے تحت فراہم کیے جاتے ہیں، جو فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے مفادات سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان کمپنیوں کا کاروبار اربوں ڈالرز پر مشتمل ہے، اور وہ اپنے مالی فوائد کو یقینی بنانے کے لیے مخصوص علاج کو فروغ دیتی ہیں۔

متبادل علاج جو قدرتی جڑی بوٹیوں یا غیر مروجہ تکنیکوں پر مبنی ہو، اکثر ان شواہد سے محروم ہوتا ہے کیونکہ انہیں فارماسیوٹیکل کمپنیاں تحقیق کے قابل نہیں سمجھتی ہیں۔

بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے لیے کینسر جیسے امراض کا علاج ایک منافع بخش صنعت ہے۔ ایک عالمی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کینسر کے علاج پر سالانہ اربوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر پیٹر گوٹشے جو ایک معروف طبی محقق ہیں، کا کہنا ہے کہ کئی ادویہ صرف علامات کو دبانے کے لیے بنائی جاتی ہیں، جبکہ بیماری کی جڑ تک پہنچنے کے بجائے ان ادویہ کا مقصد مریضوں کو طویل عرصے تک انحصار میں رکھنا ہوتا ہے۔

بعض ماہرین یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ موجودہ علاج، جیسے کہ کیموتھراپی اور ریڈی ایشن خود کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ کیموتھراپی کے دوران مریض کے جسم میں زہریلے کیمیکل داخل کیے جاتے ہیں، جو نہ صرف کینسر کے خلیات کو ختم کرتے ہیں بلکہ صحت مند خلیات کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔

ڈاکٹر کرسٹوفر ریڈ، جو ایک نیچروپیتھک معالج ہیں، کا کہنا ہے کہ کیموتھراپی بعض صورتوں میں بیماری کے دوبارہ لوٹنے کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ علاج جسم کو اتنا کمزور کر دیتا ہے کہ بیماری کے خلاف قدرتی مدافعت ختم ہوجاتی ہے۔

یہ سوال اپنی جگہ پھر موجود ہے کہ قدرتی علاج کیوں نظرانداز کیا جاتاہے؟کیا واقعی فارماسیوٹیکل کمپنیاں قدرتی علاج کو اکثر نظرانداز کرتی ہیں؟کیونکہ ان میں ایسا منافع نہیں ہوتا جیسا مصنوعی ادویہ میں ہوتا ہے؟

ڈاکٹر ڈیوڈ سروان شریبر، جنہوں نے کینسر پر کتاب ’’اینٹی کینسر: اے نیو وے آف لائف‘‘ لکھی ہے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قدرتی خوراک، متوازن طرزِ زندگی، اور ذہنی سکون بیماری کے خلاف جسم کے دفاعی نظام کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ لیکن ایسی تحقیق کو فارماسیوٹیکل انڈسٹری سے حمایت نہیں ملی کیونکہ یہ ان کے مالی مفادات کے خلاف ہے۔

جدید میڈیکل سائنس میں بیماری کی تشخیص کے لیے جو مہنگے ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں، ان پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔

ڈاکٹر ریمنڈ فرانسس صحت کے ایک معروف ماہر، بایوکیمسٹ، اور مصنف ہیں، جو متبادل صحت اور بیماریوں سے بچاؤ کے موضوعات پر اپنی تحقیق اور خیالات پر الگ شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے بایوکیمسٹری میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی ہے اور کئی دہائیوں تک صحت کے میدان میں کام کیا ہے۔لیکن شاید وہ قدرتی طریقوں سے بیماریوں کو سمجھنے اور ان کے علاج کے اب پورے حامی ہیں، خاص طور وہ یہ کہتے ہیں کہ جدید طرزِ زندگی اور خوراک بیماریوں کا بنیادی سبب ہے۔

ان کے مطابق کئی ٹیسٹ غیر ضروری ہیں اور ان کا مقصد مریضوں کو مزید علاج کی طرف دھکیلنا ہوتا ہے، جو کہ اکثر مہنگے اور خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صحت مند زندگی کے لیے خوراک، ماحولیاتی عوامل، اور ذہنی سکون کا متوازن ہونا ضروری ہے۔

اس سارے پس منظر میں یہ بھی اہم سوال ہے اور کم از کم اس پرسوچنا ضرور چاہیے کہ کیا جدید میڈیکل انڈسٹری کا مقصد واقعی بیمار کی صحت کو بحال کرنا ہے، یا صرف کاروبار پہلا مقصد ہے؟

اسی طرح ڈاکٹر اندریو ویل ممتاز امریکی ڈاکٹر، مصنف، اور متبادل طبی علاج کے حامی ہیں،جوروایتی طبی تعلیم کے ساتھ ساتھ قدرتی اور متبادل علاج کے طریقوں کو یکجا کرنے پر زور دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ طب کو اب ایک صنعت کے طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں مریض ایک صارف کی حیثیت رکھتا ہے اور صحت ایک پروڈکٹ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے نظام میں قدرتی علاج کو تسلیم کرنا ممکن نہیں، کیونکہ وہ منافع کا ذریعہ نہیں ہوتے۔

اگرچہ اپنے خیالات پر انہیں بعض اوقات تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ صحت مند خوراک، طرزِِ زندگی میں مثبت تبدیلی، اور بیماری سے بچاؤ پر زور دینے کی ان کی تعلیمات لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لائی ہیں۔ ہم ان سطور میں کوئی حتمی بات نہیں کررہے لیکن کم از کم اہلِ علم کو اس پرغور ضرور کرنا چاہیے۔

اسلام میں بیماری اور علاج کے حوالے سے ایک جامع اور متوازن نقطہ نظر موجود ہے، جو روحانی، جسمانی اور اخلاقی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ بیماری اور شفا دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اور انسان کو نہ صرف علاج کا حکم دیا گیا ہے بلکہ بیماری کے دوران صبر اور دعا پر بھی زور دیا گیا ہے۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’اللہ نے کوئی بیماری نہیں پیدا کی، مگر اس کا علاج بھی پیدا کیا ہے۔‘‘(بخاری)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیماریوں کا علاج تلاش کرنے کا حکم دیا اور ان وسائل کو استعمال کرنے کی اجازت دی جو اس کی فطرت کے مطابق ہوں۔ اس نقطہ نظر کے تحت اسلام انسان کی مکمل بھلائی کے لیے ایک جامع اور ہم آہنگ نظامِ حیات پیش کرتا ہے۔