ایک ضروری کام کے لیے اپنے دوست حامد کو فون کیا۔ صبح آٹھ بجے کا وقت تھا۔ میرا خیال تھا سو رہا ہوگا اور میری بات سننے سے پہلے میری شان میں نازیبا کلمات کہے گا کہ جگا کیوں دیا؟ مگر فون کا جواب بھابھی نے دیا۔ کہنے لگیں ”حامد پوتے اور پوتی کو اسکول چھوڑنے گئے ہیں اور فون ساتھ نہیں لے کر گئے“۔ دوپہر تک میں اپنے مسائل میں الجھا رہا۔ ظہر کے بعد پھر حامد کو فون کیا۔ پوچھا ”کہاں ہو؟“ کہنے لگا ”یار! پوتے پوتی کو اسکول سے لینے جا رہا ہوں“۔ میں ہنسا اور کہا ”ریٹائرمنٹ کے بعد یہ نئی ڈیوٹی سنبھال لی ہے کیا؟“ کہنے لگا ”یار! بیٹا اور بہو دونوں صبح ساڑھے سات بجے اپنے اپنے کام پر چلے جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ بچوں کے لیے وین لگوائیں، میں خود ہی انہیں چھوڑنے اور لینے جاتا ہوں۔ وقت اچھا گزر جاتا ہے ان کے پاس۔ بیگم کو اور مجھے کھلونے مل گئے ہیں۔ ورنہ یہ لوگ ملک سے باہر تھے تو ہم سارا دن گھر میں بور ہوتے رہتے تھے۔“
شام کو ایک قریبی عزیز ملنے آ گئے۔ بہت پریشان تھے اور مشورہ چاہتے تھے۔ اُن کی بیگم اور بہو کی آپس میں بن نہیں رہی تھی۔ روز روز کی چخ چخ سے تنگ آگئے تھے۔ بہو زبان سے نہیں کہتی تھی مگر چاہتی تھی کہ الگ مکان لے کر میاں اور بچوں کے ساتھ رہے۔ بیٹا مانتا نہیں تھا۔ انہیں مشورہ دیا کہ بیٹے کو سمجھائیں الگ مکان لے لے اور کہیں نزدیک لے تاکہ آپ کے پاس بھی آتا جاتا رہے۔ یہ بھی سمجھایا کہ اس کے سوا کوئی حل نہیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ کہنے لگے ”عجیب بات ہے، اب ہم میاں بیوی جاتے ہیں تو بہو بہت اچھی طرح پیش آتی ہے۔ الگ گھر لے کر خوش ہے اور بالکل بدل گئی ہے۔“
غور کیجیے۔ اوپر کی سطور میں آپ نے دو قسم کی صورتِ حال دیکھی ہے۔ پہلی صورتِ حال میں جوائنٹ فیملی سسٹم ایک نعمت سے کم نہیں۔ میاں بیوی دونوں ملازمت پر جاتے ہیں۔ ان کے بچوں کی دیکھ بھال سارا دن، ماں باپ کی غیر حاضری میں، دادا دادی کرتے ہیں۔ یہ صرف دیکھ بھال نہیں، اس دیکھ بھال میں دادا دادی کی والہانہ محبت، شفقت، بے پناہ خلوص اور بے غرضی بھی شامل ہے۔ ظاہر ہے ایسی دیکھ بھال کوئی آیا، کوئی نینی، کوئی ملازمہ نہیں کرسکتی۔ دوسری صورتِ حال میں یہی جوائنٹ فیملی سسٹم ایک مصیبت بن کر رہ گیا ہے۔ یہاں بہو ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسرے لفظوں میں مشترکہ خاندانی نظام اچھا بھی ہوسکتا ہے اور خراب بھی۔ ہم کُلّی طور پر (in absolute sense) نہیں کہہ سکتے کہ یہ نظام خراب ہے۔ اسی طرح کُلّی طور پر اسے اچھا بھی نہیں کہہ سکتے۔ ایک معروف اور محترم واعظ کے ایک بیان کا آج کل بہت شہرہ ہے کہ ”میاں بیوی کا خوبصورت رشتہ جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے تباہ و برباد ہوگیا‘‘۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کلی طور پر جوائنٹ فیملی سسٹم کو مطعون کرنا غیر منطقی ہے اور غیر معقول بھی۔ یہ محترم واعظ کا ذاتی خیال یا ذاتی تجربہ تو ہوسکتا ہے مگر یہ ایسی بات نہیں جس کی بنیاد تحقیق پر ہو یا اعداد وشمار سے ثابت ہورہی ہو۔ کوئی ایسا سروے بھی ہمارے علم میں نہیں جس سے میاں بیوی کے رشتے کی تباہی کی ساری ذمہ داری جوائنٹ فیملی سسٹم پر ڈالی جا سکے۔ کئی دیگر وجوہ بھی تباہی کی ذمہ دار ہوسکتی ہیں۔ غربت بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔ ہمارا معاشرہ عورتوں کی ملازمت کے حوالے سے بھی ایک خاص مائنڈ سیٹ رکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی جوڑے علیحدہ ہورہے ہیں۔ مرد جب دیکھتا ہے کہ ایک ہاؤس وائف کے مقابلے میں ملازمت کرنے والی بیوی زیادہ خودمختار، زیادہ بااعتماد اور زیادہ معترض ہے تو وہ اس خودمختار رویّے کو قبول نہیں کرتا۔ جہیز کی لالچ اور سسرال کا مسلسل مالی استحصال بھی عورت ایک حد تک ہی برداشت کرتی ہے اور جلد یا بدیر، میاں سے جان چھڑا لیتی ہے۔ دوسری شادی بھی گھر ٹوٹنے کا باعث بن جاتی ہے۔ سب سے بڑی وجہ مرد کی بے وفائی اور اِدھر اُدھر منہ مارنے کی عادت ہے۔ ایک وجہ تشدد بھی ہے۔ نرینہ اولاد کا نہ ہونا بھی طلاق کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے خیال میں میاں بیوی کے الگ رہنے میں مرد کو تشدد کے مواقع زیادہ ملتے ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم میں مرد کے لیے بے وفائی کا چانس بھی نسبتاً کم ہوگا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں میں جوائنٹ فیملی سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے۔ پھر بھی ان ملکوں میں طلاق کی شرح پاکستان جیسے ملکوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ اگر میاں بیوی کے رشتے کی ”تباہی‘‘ کا سبب جوائنٹ فیملی سسٹم ہے تو مغربی ملکوں میں طلاق کی شرح زیادہ کیوں ہے؟ امریکہ میں طلاق کی شرح پچاس فیصد ہے۔ برطانیہ میں اکتالیس فیصد ہے۔ فیصد کے حساب سے پاکستان کے اعداد وشمار میسر نہیں، مگر یقیناً مغربی ملکوں سے بہت کم ہے۔
اس تحریر کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ لکھنے والا جوائنٹ فیملی سسٹم کا علَم بردار ہے یا اس کا مخالف! مقصد صرف اور صرف یہ واضح کرنا ہے کہ بغیر کسی تحقیق کے اور بغیر اعداد و شمار کے، گھر ٹوٹنے کی ذمہ داری کلیتاً جوائنٹ فیملی سسٹم پر ڈالنا درست نہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم دو قسم کا ہے۔ ایک وہ ہے جس میں کئی شادی شدہ جوڑے ساتھ رہتے ہیں۔ جیسے والدین کے علاوہ دو یا تین، یا زیادہ شادی شدہ بھائیوں کا اکٹھا رہنا۔ ان سب کا ایک ہی کچن ہونا۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کی یہ قسم حد درجہ تکلیف دہ اور غیر فطری ہے۔ دوسری قسم اس سسٹم کی وہ ہے جس میں میاں بیوی کے ساتھ صرف مرد کے ماں باپ رہتے ہیں۔ اگر ماں باپ ضعیف ہیں اور محتاج (dependent) تو کہاں جائیں؟ کیا ہمارے محترم واعظ ایسے والدین کے لیے ملک بھر میں اولڈ ہومز بنوا دیں گے؟ انہیں یہ کام کرنا ہوگا۔ کیونکہ اگر آپ ایک نظام کو ”کلیتاً“ تباہی کا سبب گردانتے ہیں تو آپ کا اخلاقی فرض ہے کہ اس کا متبادل بھی دکھائیے۔ چلیے مان لیا آئیڈیل صورتِ حال یہی ہے کہ ہر شادی شدہ جوڑا اپنے گھر میں الگ رہے، مگر اس غریب معاشرے میں کیا یہ ممکن ہے؟ کیا ہر مرد اپنے ماں باپ کے لیے الگ گھر کا بندوبست کرنے کی استطاعت رکھتا ہے؟ ایک ڈرائیور، ایک کلرک، ایک مزدور، ایک چھوٹا دکاندار مشکل سے ایک گھر کرائے پر لے سکتا ہے۔ اس کے ماں باپ بھی اس کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ وہ مشکل سے اس ایک گھر کے اخراجات برداشت کرتا ہے۔ دوسرے گھر کے اخراجات کیسے برداشت کرے گا؟ لازم نہیں کہ ہر بوڑھے کی پنشن آتی ہو! رہی یہ بات کہ میاں بیوی کے رشتے کی ”اہمیت والدین اور اولاد سے بھی زیادہ ہے‘‘ تو یہ بات کوئی عام آدمی کہتا تو اب تک اس کے خلاف فتوے آچکے ہوتے۔ محترم واعظ ہم سے کہیں زیادہ علم رکھتے ہیں۔ ہم تو کچھ بھی نہیں، محض طالب علم ہیں۔ انہوں نے یہ ارشادِ نبوی ضرور پڑھا اور سنا ہوگا کہ ”تُو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے‘‘۔
یہ معلوم نہیں کہ حضرت نے یہ بیان کس سیاق وسباق میں جاری کیا۔ گمانِ غالب یہ ہے کہ ڈسکہ میں ایک ساس نے جو ظلم اپنی بہو پر کیا اور جس ظالمانہ طریقے سے اسے قتل کیا، اس بیان کا سبب بنا ہوگا۔ اسی ظالم عورت نے پہلے اپنی بیٹی کو بھی قتل کیا تھا۔ اس کی بہو جوائنٹ فیملی سسٹم میں نہیں رہتی تھی۔ وہ اپنے میاں کے ساتھ ملک سے باہر رہتی تھی اور اب باپ کے گھر میں تھی۔ اس کی ساس نے قتل کرنے کے ارادے سے اسے باقاعدہ بلایا تھا!
(محمد اظہار الحق۔ روزنامہ دنیا۔ 25نومبر2024ء)