قرآن اور سیرتِ طیبہؐ کی عالم گیریت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ:
’’ جس نے میرے طریقے کو میری امت کے بگاڑ کے وقت مضبوطی سے
تھامے رکھا اسے شہید کا ثواب ملے گا‘‘۔(طبرانی، ترغیب)

قرآن حکیم خاتم النّبیین محمد رسولؐ اللہ پر اللہ نے نازل فرمایا، اس کی تعلیمات عالم گیر اور آفاقی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع انسان کے لیے آخری پیغام ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

’’ اے محمدؐ یہ وہ (مبارک) کتاب ہے جس کو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں، اُن کے رب کی توفیق سے، اُس پرورگارِ عالم کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے اور زمین و آسمانوں کی ساری موجودات کا مالک ہے‘‘۔ (ابراہیم:1)

اس آیہ مبارکہ میں کئی نکات ہیں:
-1 یہ کتاب خاتم النّبیین ؐ پر نازل کی گئی ہے، اگر انسانیت کے نام رب کا آخری پیغام ہے تو رسولؐ اللہ پر رسالت بھی ختم ہے۔

-2 لفظ نور قرآن حکیم میں مفرد استعمال ہوا کیونکہ ’’روشنی‘‘ وہ خطِ مستقیم ہے جو سیدھا رب کریم کی طرف جاتا ہے، جبکہ ’’ظلمات‘‘ اندھیرے مختلف قسم کے ہیں جن میں سے شرک، کفر، جہالت، ظلم وغیرہ جو انسان کو مختلف گمراہیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔

-3 ’’الناس‘‘ نسلِ انسانیت کی طرف یہ پیغام ہے، کسی خاص ملک اور خطہ زمین کی طرف نہیں ہے۔

-4 حمید کا لفظ اگرچہ محمود ہی کا ہم معنی ہے، مگر دونوں الفاظ میں ایک لطیف فرق ہے، محمود کسی ذات کو اُس وقت کہیں گے جبکہ اس کی تعریف کی گئی ہو یا کی جاتی ہو، مگر ’’حمید‘‘ آپ سے آپ حمد کا مستحق ہے۔ خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ کائنات میں صرف اور صرف وہی رب العزت تعریف کے لائق ہے۔ رسولؐ اللہ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا(الاعراف:158)

جس طرح قرآنِ حکیم نسلِ انسانی کے لیے رب کا آخری پیغام ہے، اسی طرح رسولؐ اللہ کی حیاتِ طیبہ نسلِ انسانی کے لیے اسوۂ حسنہ ہے، اور نسل ِانسانی کے لیے فوز و فلاح صرف آپؐ کی اتباع میں ہے۔ قرآن حکیم کے بارے میں یہ پیغام ہے:

’’بہت بابرکت ہے وہ اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے (محمدؐ) پر فرقان (حق و باطل، توحید اور شرک، عدل و ظلم، نیکی اور بدی میں فرق کرنے والا) اتارا، تاکہ وہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تمام لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والے بن جائیں‘‘۔ (الفرقان:1)

رسولؐ اللہ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
’’(رب کریم کا فرمان ہے) اے (نبیؐ) ہم نے آپؐ کو جہان والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے‘‘۔ (الانبیا: 107)

آپؐ کی حیات ِطیبہ، آپؐ کی تعلیمات پوری انسانیت کے لیے رحمت کا پیغام ہے، جو شخص صدقِ دل سے آپؐ کی تعلیمات کو اس زندنگی میں جاری و ساری کرے گا، اسے دنیا و آخرت میں مژدۂ فوز و فلاح ہے۔ اب کارِ نبوت کا یہ فریضہ امتِ مسلمہ کے ذمہ ہے کہ وہ نسلِ انسانی تک اسے پہنچائے، ارشاد ہوتا ہے:

’’(اے امتِ مسلمہ!) اب دنیا میں بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے، تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور بدیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر (خود بھی) مضبوطی سے ایمان رکھتے ہو‘‘۔ (آل عمران: 110)
اس میں بھی کئی نکات ہیں: (1) ختمِ نبوت کا فریضہ امتِ مسلمہ ادا کرے گی۔ (2)امۃ کا معنی دنیا بھر کے مسلمانوںکا وہ گروہ جو ایک لڑی میں منسلک ہو اور اس میں کوئی تفریق نہ ہو۔ (3) یہ امت نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو مٹانے کی ذمہ دار ہے، (4) یہ خود بھی یعنی اس کا ہر ہر فرد ایمان و اسلام پر قائم ہو۔