وفات : مورخہ 9 نومبر2003ء
ہم نیکی کے جانباز سپاہی نیکی کو پھیلائیں گے
ہم مومن ہیں ہم مسلم ہیں ہم نیکی پر مرتے ہیں
’’ہماری کتاب‘‘ میں شامل یہ ترانہ تو جامعہ اسلامیہ کے بچے بچے کی زبان پر تھا، لیکن مولانا شہباز اصلاحی کی بھٹکل آمد کے دو سال بعد ہاسن میں منعقدہ اجتماعِ جماعت اسلامی ہند کے حوالے سے اخبارات میں مولانا کا نام شہباز ہندی کے طور پر شائع ہوا تو ہم نیازمندوں کو پتا چلا کہ اس مقبولِ عام ترانے کے خالق کوئی اور نہیں ہمارے مولانا صاحب ہیں۔
نام و نمود، شہرت و ناموری سے کوسوں دور، ٹھوس خدمت کو اپنا شعار بنانے والی یہ عظیم شخصیت 2؍رمضان المبارک 1423ھ کی شام عمر کی پچھتر بہاریں اس دارِفانی میں گزار کر لکھنؤ کے ایک اسپتال میں اپنے مالک ِحقیقی سے جاملی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا بہار کے شہرسیوان سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے ہی میں حاصل کی اور شعور کی عمر میں مدرسۃ الا صلاح سرائے میر میں داخلہ لیا،جہاں آپ کو مفسرِ قرآن مولانا حمید الدین فراہی کے جانشین مولانااختر حسن اصلاحی کی شاگردی ورفاقت نصیب ہوئی،یہاں پر آپ اپنے پیر و مرشد کی خلوت و جلوت کے امین بن گئے۔
فراغت کے بعد آپ یہیں پر تدریس کی ذمہ داری سے وابستہ ہوگئے۔ جماعت اسلامی سے آپ کا تعلق مدرستہ الاصلاح میں داخلے سے قبل ہی ہو گیا تھا۔ پیرو مرشد کی صحبت نے اس میں پختگی اور توازن پیدا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جماعت کے نظم سے وابستگی کے باوجود جماعتی تعصب، گروہ بندی اور شخصیت پرستی سے ہمیشہ فاصلے پر رہے۔ ان حصاروں سے بلند ہوکر ہمیشہ انصاف کی بات کہی۔ ذاتی وابستگی اور روابط سے اٹھ کر دوٹوک بات کہنے کی ایسی مثالیں اب خال خال ہی نظر آتی ہیں۔
الاصلاح میں دورانِ قیام ہی مولانا شاہ وصی اللہ رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانوی سے رشتہ بیعت و ارادت استوار ہوا۔ بانی جماعت اسلامی سے عقیدت اور وارفتگی اس تعلق میں آڑے نہیں آئی، نہ ہی آخر عمر تک آپ سے محبت میں سر مو فرق آیا۔
مولانا اختر احسن اصلاحی کی رحلت کے بعد مدرسۃ الاصلاح میں جب جماعت اسلامی سے وابستہ اساتذہ پر برا وقت آیا تو مولانا جلیل احسن ندویؒ اور حبیب اللہ محورانچویؒ کے ساتھ چترپور میں قائم ایک شخصی دینی مدرسے سے منسلک ہوگئے، یہاں تک کہ جامعۃ الفلاح بلریا گنج ایک چھوٹے مکتب سے دارالعلوم بننے کی راہ پر رواں دواں ہوا تو مولانا اس ادارے سے وابستہ ہوگئے۔
مولانا شاہ وصی اللہ الٰہ آبادیؒ خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ کی رحلت کے بعد بیعت و ارادت کا تعلق مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے قائم ہوا جو آخر تک قائم رہا۔ جماعت اسلامی کے نظم سے بھی آپ کا تعلق 1977ء تک قائم رہا۔ یہ تعلق بھی ایسا تھا کہ آپ کو قریب سے دیکھنے والے اور جماعت کے دیرینہ کارکن مولانا عبدالقدیر اصلاحی (ہاسن) نے ہم سے فرمایا کہ اپنی خدمات و صلاحیت کی بنیاد پر مولانا ابواللیث اصلاحیؒ کے بعد آپ بجا طور پر امارتِ جماعت کے اہل تھے۔ کبھی کبھار ہم جیسے کور عقلوں کو جماعت اور بیعت کے سنگم پر حیرت بھی ہوتی تھی، مولانا سے ہم نے پوچھا بھی کہ کیا جماعت کے نظم سے وابستگی کو ان بزرگوں نے دل و جان سے قبول کیا؟ تو مولانا کا کہنا تھا کہ ان اکابر کو اختلافات سے سروکار نہیں تھا، ویسے بھی بانی جماعت کے افکار و خیالات کے بارے میں علمائے ہند نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے اُن کا اطلاق جماعت اسلامی ہند پر کرنا درست نہیں، مولانا عبدالماجد دریابادی جیسی شخصیت جن کی بانی جماعت پر نشترزنی مشہور ہے، جماعت اسلامی ہند کی کارکردگی کے تعلق سے ہمیشہ کلمہ خیر کہتے تھے۔
مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی نظر کرم ابتدا سے جامعہ اسلامیہ بھٹکل پر رہی۔ 1967ء میں جامعہ کے اولین مہتمم مولانا عبدالحمید ندویؒ کی سبک دوشی کے بعد جامعہ کی رفتار گویا رک سی گئی تھی، 1974ء میں نئی بستی جامعہ آباد میں اس کی منتقلی عمل میں آئی۔ ایک نئے حوصلے کے ساتھ یہاں سے جامعہ کی اٹھان کے لیے سرپرست جامعہ کی نگاہ اپنے مریدِ باصفا مولانا شہباز اصلاحی پر پڑی، اور جامعہ نے جامعہ آباد منتقلی سے تھوڑا عرصہ پہلے اپنے نئے مہتمم کے ساتھ تعمیر و ترقی کے عہدِنو کا آغاز کیا، جو کہ 1977ء تک جاری و ساری رہا۔ یہ جامعہ کا عہدِ زریں تھا، تعلیمی و تربیتی نقطہ نظر سے ایسی بہار دوبارہ نہیں آئی۔ اس بہار سے لطف اندوز ہونے کا اس بندئہ ناتراش کو بھی موقع نصیب ہوا، جب مولانا نے ’’مدرسہ جمالیہ‘‘ مدراس سے فراغت کے فوراً بعد بحیثیت مدرس جامعہ میں میری تقرری کردی۔ اس طرح دورانِ تعلیم جو نقص رہ گیا تھا مولانا کی سرپرستی میں اس کی بھرپائی کا موقع مل گیا، اس دوران ہم نے وہ کچھ سیکھا، طالب علمی کے پُرہیجان ماحول میں جس سے محرومی رہی تھی۔
جامعہ آباد کی نئی آبادی میں جب جامعہ اسلامیہ منتقل ہوئی اُس وقت یہ ایک ویرانہ تھا۔ شہر کی قناتیں ابھی اس کی سرحدوں سے آکر نہیں ملی تھیں، تین چار کلومیٹر کی دوری تک آبادی کا کوئی نام ونشان نہیں تھا، بس دور دور تک لمبی لمبی گھانس اگی نظر آتی۔ سورج جب بحر عرب کے پانیوں میں چھپ جاتا تو چاروں طرف ہُو کا عالم ہوتا۔ گیدڑوں اور انواع و اقسام کے جنگلی جانوروں کی آوازیں چاروں طرف سے بلند ہونے لگتیں، تپتی دھوپ میں زمین سے حرارت اٹھنے لگتی تو سانپ بچھو بلوں سے نکل کر اِدھر اُدھر رینگتے نظر آتے۔ یہاں سے گزرنے والے گنوار، دیہاتی راہ گیر جن میں بڑی تعداد غیر مسلم محنت کشوں اور مچھیروں کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ جامعہ آباد میں شام ڈھلے ارواحِ خبیثہ کی چیخیں سنائی دیتی تھیں، اذان کی تکبیروں نے ان صداؤں کو اب خاموش کردیا ہے۔ مولانا نے اس ویرانے کو آباد کیا تھا۔ جامعہ میں مولانا کی شخصیت ایک مشفق باپ کی تھی جس کا سایہ تپتی دھوپ میں ٹھنڈک دیتا ہے، مولانا کی سرپرستی میں نہ صرف طلبہ نے بلکہ اساتذئہ جامعہ نے بھی بہت کچھ سیکھا۔ مولانا علم کا اتھاہ سمندر تھے جس کی سطح زیادہ گہرائی کی وجہ سے پُرسکون رہتی ہے، اس کی تہ میں جاکر اپنے مقدور بھر ہر کوئی موتی چن کر لا سکتا ہے۔
مولانا جس دور میں جامعہ کے مہتمم بنے تھے خوش نصیبی سے یہی دور انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج میں ڈاکٹر سید انور علی کا دورِ پرنسپلی تھا۔ ڈاکٹر صاحب بھی جماعت اسلامی کے رکن تھے اور مولانا کے بڑے ہی قدردان۔ آپ کی ایما پر مولانا نے کالج میں ہر جمعہ کو بعد نماز عصر درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جس میں کالج کا اسٹاف اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ اچھی خاصی تعداد میں شریک ہوتا، حالانکہ مولانا کوئی جاذب نظر واعظ و خطیب نہیں تھے۔ نہ ہی وضع قطع میں کوئی رکھ رکھاؤ تھا، نہ الفاظ میں پیچ و خم کی عادت۔۔۔۔ سیدھی سادی زبان میں بس بے لاگ و لپیٹ دل کی بات کہتے، اس میں رنگ و روغن سے مبرا علمی، دعوتی و تربیتی مواد ہوتا۔ باوجود اس کے مولانا کے سامعین کو بعد میں یہی کہتے سنا کہ پھر ایسا درس ہمیں سننے کو نہیں ملا۔
مولانا شاہ وصی اللہ الٰہ آبادیؒ کے رسائل کا مجموعہ جب پہلے پہل چھپ کر آیا تو مولانا نے اس کا تعارف کالج کے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں کرایا۔ ہم نے خود کالج کے پرنسپل کو ان کا مطالعہ کرتے اور ان رسائل کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے دیکھا ہے۔ یہ مولانا کی خوبی تھی کہ جماعت اسلامی سے وابستہ اپنے معاصرین کو مولانا شاہ وصی اللہؒ سے متعارف کرایا، اور علماء کے حلقے کو اپنے استاد مولانا اختر حسن اصلاحیؒ کے اوصافِ حمیدہ سے۔ آپ سے ہم نے کہتے سنا کہ جب مولانا محمدمنظور نعمانیؒ نے مولانا اختر حسن اصلاحیؒ کے حالات و کوائف سنے تو بڑا افسوس کیا کہ ایسے اہل اللہ سے زندگی میں ملاقات نہ ہوسکی۔ اس طرح آپ نے یہ باور کرانے میں کسر نہ چھوڑی کہ اچھے لوگ کسی ایک جماعت یا گروہ کی جاگیر نہیں ہوا کرتے، متقی اور پرہیزگاروں سے یہ دنیا خالی نہیں ہے۔
جامعہ میں مولانا نے اساتذہ کی رہنمائی و تربیت کا خاص خیال رکھا۔ مصنوعی اور تکلفانہ طرزِ زندگی سے انہیں دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ ابتدائی درجات کے بچوں پر ان کی خاص توجہ تھی، وہ ہر ہفتہ چھوٹے درجات میں تعلیمی رفتار کو دیکھنے ضرور آتے، مولانا کے نظامِ تعلیم و تربیت میں استاد کو کلیدی اہمیت حاصل تھی، وہ بچوں کے سنورنے اور بگڑنے میں استاد کو زیادہ ذمہ دار ٹھیراتے تھے۔ انہوں نے اساتذہ کو شفقت کرنا سکھایا، انہیں انتقامی جذبات سے دور رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
مولانا کی عادت تھی کہ سہ ماہی اور ششماہی امتحانات کے بعد تمام اساتذہ کو یکجا کرتے۔ وہ نتائج کا گہرا مطالعہ کرکے آتے، انہیں معلوم ہوتا تھا کہ کون سا استاد طلبہ پر محنت کرنے کے باوجود نمبر دینے میں بخل سے کام لے رہا ہے۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے کہ بچوں کی تربیت کے اصل ذمہ دار اساتذہ ہیں، اگر والدین بچوں کی تعلیم و تربیت کرسکتے تو اساتذہ کے پاس کیوں بھیجتے؟ انہوں نے جب اساتذہ پر اعتماد کیا ہے تو اساتذہ کو اُن کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچانی چاہیے۔ وہ طلبہ کے والدین سے بھی ان کی تعلیم و تربیت کے تعلق سے ربط رکھتے تھے۔ وہ اساتذہ کی مجلسوں میں اس طرح مسائل کا احاطہ کرتے کہ بات عمومی ہونے کے باوجود ہر ایک کو آئینے میں اپنا چہرہ نظر آتا۔
مولانا کا اہم وصف کسی بھی شخصیت سے ان کی عدم مرعوبیت تھی۔ انہوں نے اپنے سے وابستہ افراد میں کسی کی اندھی عقیدت اور شخصیت پرستی پیدا ہونے نہیں دی۔ آپ سے کوئی بے تکلف شخص آپ سے کسی شخصیت کا بے پناہ احترام دیکھ کر یہ امید رکھتا کہ مولانا کے سامنے اس شخصیت کے گن گاکر اور اس شخص کی زبرست مدافعت کرکے مولانا کی خوشنودی حاصل کرے گا، تو عموماً یہ اس کی خام خیالی ثابت ہوتی۔ مولانا بت شکن تھے، وہ احترام و عزت کے تو پیکر تھے، لیکن اندھے عقیدت مند کسی کے نہیں تھے۔
ایمرجنسی کا واقعہ ہے، جماعت اسلامی کے تمام اراکین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا، مولانا آخر سنتِ یوسفی سے کیسے بچتے! آپ پر بھی مقدمہ چلا۔ آنے جانے کا آٹھ آٹھ دن کا سفر طے کرکے بھاگل پور پیشی کے لیے جاتے۔ اُس وقت عام طور پر جماعت کے تئیں مسلمانانِ ہند کے جذبات ہمدردانہ تھے۔ مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالحسن ندویؒ نے حکومت کے اس ظلم سے دل برداشتہ ہوکر سرکاری ایوارڈ واپس کردیا تھا، اور آپ نے کئی ایک گرفتار شدگان کی کفالت بھی کی تھی۔ اس وقت بازار میں ایک کتاب آئی، عنوان تھا ’’فتنہ مودودیت‘‘۔ یہ کتاب دراصل مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے استادِ تفسیر مولانا محمد زکریا قدوسی ؒ کے نام شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کا مراسلہ تھا، جس میں بانی جماعت اسلامی کے افکار و خیالات پر اعتراضات تھے۔ ہوا یوں کہ ہمارے دوست پروفیسر عمر حیات خان غوری نے آپ کے رسائل کے مجموعے ’’اسلام کا تصورِ زندگی‘‘ کی ایک عبارت مجھے پڑھنے کو دی۔ پھر اس میں سے قابلِ گرفت عبارت کی نشاندہی کرنے کو کہا، کیا پدّی کیا پدّی کا شوربہ۔۔۔ میری اُس وقت کیا بساط کہ بانی جماعت کی عبارت کی خامیاں تلاش کروں! پھر انہوں نے ”فتنہ مودودیت“ میں منقولہ یہی عبارت دکھائی، وہ عبارت ہمیں مکمل نظر نہیں آئی، اُس وقت مجلس اصلاح و تنظیم کی صدیق لائبریری میں ترجمان القرآن کی مکمل فائل موجود تھی۔ وہ میں نے اپنے نام نکالی اور ”فتنہ مودودیت“ سے منقولہ عبارتوں کا موازنہ شروع کیا۔ پھر مولانا سے ناقص عبارتوں کی نقل کے تعلق سے حسبِ عادت اعتراض جڑ دیا۔ یہ حالات ایسے تھے کہ اگر مولانا اس کتاب پر اعتراض جڑتے اور اپنی سخت ناراضی کا اظہار کرتے تو کچھ بعید نہ تھا۔ مولانا نے ہماری فکر کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا، فرمانے لگے کہ اس کتاب میں ایک بات تو یہ ہے کہ ایک ہی مدرسے کے دو بڑے اساتذہ ایک شیخ التفسیر اور دوسرے شیخ الحدیث کی 1951ء میں ہوئی ذاتی مراسلت ہے، اس درجے کے دو رفیق اپنی مراسلت میں دوسروں کے صفحے کے صفحے اور پوری عبارتیں تھوڑی نقل کریں گے، بلکہ سامنے والے کے معیار کو دیکھ کر اشاروں میں اکتفا کرلیں گے، شیخ الحدیث نے بھی اپنے خط میں اشارے دے دیے ہیں تاکہ ان کا دوست ضرورت ہو تو اصل کتابیں دیکھ لے۔ یہ خط تھا، کوئی تحقیقی کتاب تھوڑی تھی۔
دوسرے یہ کہ بانی جماعت کی عبارتیں ٹائیفائڈ کی گولی کی طرح ہیں، جس میں بخار، سردرد، پیٹ درد سبھی بیماریوں کا علاج ہے، لیکن بخار یا سر درد کے علاج کا مادہ گولی سے الگ کرنے کو کہا جائے تو یہ ممکن نہیں۔ مولانا مودودیؒ ایک ماہر صاحبِ قلم ہیں، ان کی عبارتوں سے قابلِ اعتراض عبارتوں کو الگ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کی کتاب ”خطبات“ سے ایک ایک عبارت کاٹ کر اعتراض کرنا ممکن نہیں، لیکن مولانا نے اس کتاب میں عبادت کا جو وسیع مفہوم لیا ہے وہ درست نہیں۔ خطبات کی عبارتوں سے یہ ثابت کرنا کہ مولانا مودودی کے نزدیک عبادت مقصود نہیں وسیلہ ہے، آسان نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حقیقتِ جہاد پڑھنے کے بعد قاری یہ احساس لے کر اٹھتا ہے کہ ارکان خمسہ جہاد قائم کرنے کے لیے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نماز قائم کرنے کے لیے جہاد کیا جاتا ہے۔ نہ کہ جہاد کے لیے نماز۔ ممکن ہے شیخ الحدیث قدیم طرز کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اردو میں اپنی بات نئے اسلوب سے واضح طور پر بیان نہ کرپائے ہوں، لیکن عبادتوں میں نماز کے رمز ہونے کی جو حیثیت آپ نے متعین کی ہے وہی درست ہے۔ مولانا کا خیال تھا کہ مولانا مودودیؒ نے عبادت کے مفہوم کو جو وسعت دی ہے اس کے نتیجے میں جماعت کے وابستگان میں بدنی عبادات، فرائض و سنن کی پابندی، تہجد و اذکار کا وہ اہتمام نہیں پیدا ہوسکا جیسا کہ اللہ سے لگاؤ ہونے کے لیے ضروری ہے۔
مولانا پر تعریفی کلمات کچھ زیادہ اثرانداز نہیں ہوتے تھے، اگر ان تعریفی کلمات کی چھینٹیں آپ پر پڑی ہوں تو ان کی اہمیت کم کرنے کا مولانا کا مخصوص انداز سامنے آتا تھا جو آپ کے وابستگان کو بڑا لطف دیتا۔ مولانا کے دوران اہتمام جامعہ کے ایک اور سرپرست مولانا سید ابرار الحق صاحبؒ خلیفہ حضرت تھانوی سمیت کئی اکابر کی بھٹکل آمد ہوئی، مولانا فطری انداز میں ان کے آرام و راحت کا خیال رکھتے، آپ کے دور میں 1976ء میں حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیبؒ سابق مہتمم درالعلوم دیوبند کی بھی آمد ہوئی۔ آپ نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ طلبہ اور اساتذہ کی سادگی اور نمائشی اندازوں سے بے نیازی بلکہ بیزاری جو علم کا پہلا اثر ہے اس جامعہ کے لیے نیک فال اور علومِ نبوت کی نشرو اشاعت کی اعلیٰ مثال ہے۔
اپنے دور کی برصغیر میں عظیم ترین ملّی شخصیت کے یہ الفاظ ہم لوگوں کے لیے تمغہ امتیاز سے کیا کم تھے! مولانا کے سامنے ہم لوگوں نے زبردست خوشی کا اظہار کیا۔ مولانا بھانپ گئے کہ خودستائی ہمیں مسحور کررہی ہے، فرمانے لگے: قاری صاحب تو ہمارے مہمان تھے، وہ بھی بامروّت انسان۔۔۔ ایسا مہمان کیا کبھی اپنے میزبانوں کی مذمت کرسکتا ہے؟ لہٰذا مہمانوں کی تعریف کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے، مدارس کے تعارف ناموں میں یہ علمائے کرام کی جو تصدیقیں ہوتی ہیں یہ بھی اسی خانے میں آتی ہیں، ان تعریفوں کا درست ہونا ضروری نہیں۔
مولانا جب جامعہ آئے اُس وقت یہاں پر درسگاہ اسلامی رامپور کا نصاب ساتویں جماعت تک رائج تھا، وہی ہماری کتاب، آسان ریاضی، عام معلومات، سچادین، ہماری دنیا اور مارٹن کی انگریزی کتابیں وغیرہ۔ مولانا کا خیال تھا کہ دینی رجحان رکھنے والے مسلم ادارے جب پرائیویٹ کورس تیار کرتے ہیں تو دو تین سال تک بچوں کی نفسیات کا خیال رکھتے ہیں، پھر ان کا معیار بگڑ جاتا ہے، ”ہماری کتاب“ کے بارے میں آپ کی رائے تھی کہ قاعدہ اول دوم کا معیار بہت ہی اچھا ہے، لیکن بعد کے اجزاء میں اتنی محنت نہیں کی گئی۔ اسی طرح آسان ریاضی اور عام معلومات کو اپ ڈیٹ نہ کرتے رہنے کی آپ کو شکایت تھی، لہٰذا مولانا نے ”ہماری کتاب“ تو باقی رکھی، لیکن دیگر علوم میں سرکاری نصاب کو جاری کیا۔ فنِ تعلیم و تربیت پر لکھی گئی کتابوں کے بارے میں آپ یہ رائے ظاہر کرتے تھے کہ ان میں زیادہ تر نظریاتی امور سے بحث ہوتی ہے، عملی و تجرباتی دنیا سے ان کا زیادہ سروکار نہیں ہوتا، یہ مصنفین اپنے سے بڑے عالم کے لیے یہ کتابیں تیار کرتے ہیں، فنِ تعلیم و تربیت میں جناب افضل حسین مرحوم نے جو باتیں لکھی ہیں ان میں سے بیشتر مرکزی درسگاہ اسلامی رامپور میں لاگو نہیں کی گئی ہیں، جب کہ یہ درسگاہ اسلامی تعلیم و تربیت کے لیے ایک تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتی تھی۔
دیگر درسی کتابوں کے تعلق سے بھی مولانا سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا۔ فقہ شافعی کی ایک کتاب ہے فتح المعین شرح قرۃالعین، اسے ایک ملباری عالم زین الدین معبری نے لکھا ہے، اس کا شمار اس فن کی مشکل کتابوں میں ہوتا ہے، اس میں مندرج بعض مسائل کے تعلق سے خود مولانا کو بڑا اشکال تھا، چند اساتذہ اس کتاب کو شاملِ درس رکھنے کے خلاف تھے۔ لیکن مولانا اس کتاب کو نصاب میں رکھنے کے حامی تھے۔ آپ کی رائے تھی کہ مشکل کتابیں داخلِ درس رہنی چاہئیں، ان سے طلبہ کو فکرو تدبر کی عادت پڑتی ہے، مشکل عبارتوں کو سمجھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ طلبہ میں صرف لیکچر نوٹ کرنے اور آسان کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی جائے تو پھر وہ مشکل کتابیں حل ہی نہیں کرپاتے، ان میں گتھیاں سلجھانے کی صلاحیت ہی مفقود ہوجاتی ہے۔ لیکن بچوں کو مشکل عبارتیں رٹوانے، یا آٹھ دس سال کے بچے کو تقریری مقابلے میں علامہ شبلی کی ”سیرت النبی“ کا دیباچہ ’’چمنستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں، چرخ نادرہ کونین نے وہ وہ رعنائیاں دکھائیں کہ تار ے خیرہ ہو کر رہ گئے وغیرہ‘‘ یاد کروانے کے وہ حق میں نہ تھے۔ بغیر تدبر کے رٹوانا ان کے کسی خانے میں نہیں تھا، لہٰذا انہوں نے عوامی دلچسپی کے لیے طلبہ کے جلسہ جلوس کی تعداد بہت ہی کم کردی۔
انہیں سنجیدہ طرز خطابت ہی پسند تھی۔ وہ کہتے: نہرو اور بھٹو کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ساتھ ساتھ تقریریں ہوا کرتی تھیں، بھٹو کی تقریریں جذباتی اور ایکشن سے بھرپور ہوتی تھیں اور نہرو کی دھیمے لب و لہجے میں، لیکن عالمی قائدین نے کبھی بھی نہرو کے مقابلے میں بھٹو کی تقاریر کو اہمیت نہیں دی۔ معاصرین میں انہیں مولانا حبیب اللہ محو رانچوی اور مولانا بدرالدین اصلاحی مرحوم کی تقاریر پسند تھیں۔
مولانا کی سخن فہمی بہت بلند تھی، معاصرین میں حفیظ میرٹھی بڑے پسندیدہ شاعر تھے۔ ایمرجنسی کے دوران قید میں شہادت سے قبل لکھی ہوئی مولانا حبیب اللہ محورانچوی کی یہ نظم بہت پڑھا کرتے تھے:
یاد ان کی تسلی دیتی ہے
جب نائو بھنور میں ہوتی ہے
دل ان کا سہارا ہوتا ہے
اور دور کنارا ہوتا ہے
آپ علامہ اقبال کی شاعری کے بڑے معترف تھے، سلاست و فصاحتِ لسانی میں وہ اقبال کو غالب سے کم نہیں مانتے تھے، اِس کی اُن کے پاس دلیلیں بھی تھیں، وہ اس کے شواہد میں اقبال کے اشعار کی تشریح بڑی باریک بینی سے کرتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تحفظات کے بغیر اقبال کے افکار کو قبول کرتے ہوں، ایک مرتبہ میں نے اقبال کے عقیدئہ آخرت کے سلسلے میں مشہور مصری محقق ڈاکٹر محمد البھی کے اعتراضات کا ذکر کیا تو فرمایا کہ اقبال کی شاعری پڑھنے کی چیز ہے، نثر نہیں۔ اسی طرح میں نے اس بات پر رنج کا اظہار کیا کہ اقبال نے آخری عمر میں تشکیل الہیاتِ جدیدہ کا جو پروگرام شروع کیا تھا اس کی تکمیل کا موقع انہیں ملتا تو بہت بڑا کارنامہ ہوتا، کہنے لگے کہ اللہ کی ذات بڑی حکمت والی ہے، وہ علامہ اقبال اور مولانا ابوالکلام آزاد کے اچھے کاموں کی عزت باقی رکھنا چاہتے تھے، ان دونوں شخصیات کا امتِ اسلامیہ میں جو مقام تھا اس کی وجہ سے اقبال کا تشکیل الہیاتِ جدیدہ کا پروجیکٹ اور مولانا آزاد کی ترجمان القرآن مکمل ہوجاتے تو ان میں جو فکری انحراف پایا جاتا ہے وہ مستند ٹھیرتا اور عام ہوجاتا، یہ دونوں مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ان میں موجود افکار پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی اور ان دونوں سے خیر ہی خیر پھیلا۔
مولانا کی یاد آتی ہے تو جامعہ آباد کے ابتدائی در و بام کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے، ہاسٹل کی عمارت ابھی آدھی کھڑی ہے، کُل دو کمرے، ایک آفس اور مطبخ۔ ہاسٹل کی خالی بنیادوں پر جھاڑ پھونس کے بنے چند درجات، ایک مختصر سی مسجد، سامنے چار کمرے وہ بھی نامکمل۔ ایک ملبہ نما پرانا گھر، آٹھ ایکڑ پر پھیلے جامعہ آباد کی یہی کُل کائنات تھی۔ ابھی شہر تک پختہ سڑک کہاں بنی تھی۔ بس اور رکشہ کا آنا جانا کیسے شروع ہوتا! جمعہ کے روز علی الصبح مولانا کبھی تنہا، کبھی ایک دو مقیم اساتذہ کے ساتھ تیار ہوکر بھٹکل کے لیے نکلتے۔ نماز جمعہ اور عصر درسِ قرآن کے بعد نور مسجد کے پاس آتے،یہاں کبھی شکاکائی کے گھنیرے درختوں کے زیر سایہ سستانے کے لیے منڈیریں بنی ہوئی تھیں۔ طلبہ جامعہ جمعرات کی شب اپنے گھروں میں گزار کر عصر کے بعد یہاں جمع ہونا شروع ہوجاتے۔ یہاں سے مولانا کی قیادت میں پیدل قافلہ جامعہ آباد کے لیے روانہ ہوتا، نوائط کالونی مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی جاتی، پھر قافلہ چل پڑتا۔ جامعہ آباد پہنچ کر عشا کی نماز باجماعت ادا کی جاتی۔ اسکوٹروں، کاروں اور وینوں کی ریل پیل میں وہ دن اب خواب ہوکر رہ گئے۔
مولانا کا معمول تھا کہ جب جامعہ آباد آغوش خواب میں گم ہوجاتا تو رات کی تنہائی میں مسجد میں عبادتوں میں مگن ہوجاتے۔ جب مولانا اچانک جامعہ سے جدا ہوگئے تو ایسے مناظر بار بار دیکھنے میں آتے تھے کہ آپ کے کسی چہیتے شاگرد یا ساتھی کا رات کی تنہائی میں مسجد کے پاس سے گزر ہوتا تو عجیب رقت اور حسرت و یاس طاری ہوجاتی اور ماحول افسردہ ہوجاتا۔
1977ء میں مولانا دارالعلوم ندوۃ العلماء سے وابستہ ہوئے، بھٹکل سے جانے کے بعد مولانا کا جماعت اسلامی کے نظم سے بھی تعلق ختم ہوگیا۔ مولانا نے بھٹکل چھوڑنے کے بعد ربع صدی گزرنے کے باوجود کبھی یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ وہ بھٹکل کو بھول گئے ہوں، یا جامعہ کے فارغین سے محبت میں کوئی کمی آئی ہو۔ وہ ہمیشہ زائرینِ بھٹکل پر اپنی محبتیں نچھاور کرتے رہے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مسجد کے سامنے کنویں کی منڈیر عصر کے بعد آپ کی ملاقاتوں کا مرکز تھی۔ اب ندوہ میں نہ وہ کنواں رہا، نہ جامعہ میں وہ قدیم چھوٹی سی مسجد۔ اب تو جامعہ آباد بھی شہر بھٹکل کا ایک محلہ بن رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کے باوجود مولانا کے چاہنے والوں کے دل میں جو جگہ تھی وہ تو آنکھ بند ہونے تک باقی رہے گی۔
ہم خوش قسمت تھے کہ زندگی کے اس مختصر پڑاؤ میں ایسی عظیم شخصیت کی رہنمائی میسر آئی جس نے آنکھوں سے نام و نمود اور خودستائی کی اہمیت گرا دی۔ آپ میں جو خداداد صلاحیتیں، تدبر و باریک بینی کا ملکہ پوشیدہ تھا، ان سے کم تر صلاحیتوں کے مالک شہرت و ناموری کے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ آپ کی تحریر میں بلا کی شگفتگی و بانکپن تھا۔ آپ کے خطوط ادبِ عالیہ کا بہترین نمونہ بن سکتے ہیں، لیکن اپنے پیر و مرشد مولانا اختر حسن اصلاحی کی طرح آپ بھی وہ مقام اِس دنیا میں نہ پاسکے جس کے بجا طور پر آپ مستحق تھے۔ لیکن شہرت و ناموری تو حقیقی کامیابی نہیں، آپ نے جو چراغ جلائے تھے ان کی لو ابھی روشن ہے۔ میدان کارزار میں فتح تو دراصل گمنام سپاہی ہی دلاتا ہے۔