وی پی این کے استعمال سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کے بعد ہم ایک بار پھر اسی جگہ آن کھڑے ہوئے ہیں جہاں یہ بحث علمی مجالس میں گفتگو کا مرکز تھی کہ لاؤڈ اسپیکر اور پریس مشین کا استعمال حرام ہے یا حلال؟ رواں ہفتے جمعہ کی نماز میں پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد کے خطیب مولانا احمد الرحمٰن نے بھی اس نکتے پر بالواسطہ گفتگو کی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، تاہم کسی بھی معاملے پر اس کی رائے کی حتمی منظوری یا توثیق کا اختیار آئین نے پارلیمنٹ کو ہی دے رکھا ہے، سو جب تک پارلیمنٹ اسلامی نظریاتی کونسل کی کسی بھی رائے کی توثیق نہ کردے، اس کی کوئی بھی رائے قانونی یا آئینی قرار نہیں پائے گی۔ بہرحال وی پی این سے متعلق اس نے رائے دی ہے، لہٰذا اس رائے کا تجزیہ بہت ضروری ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کے الفاظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی رائے کے الفاظ پر غور کیے بغیر سیاسی جماعتوں نے اس رائے پر بہت سخت ردعمل دیا ہے۔ سب سے سخت ردعمل خود حکومت نے دیا۔ آئین پر عمل کرنا ہر حکومت اور ہر پاکستانی شہری کی ذمہ داری ہے، اور ریاست کا وفادار رہنا بھی حکومت اور ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔
لیکن یہاں ایک نہایت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو وفاق میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ میں رہیں، انہوں نے کبھی ملک میں آئین کے اُن تمام آرٹیکلز پر عمل درآمد کی کوشش نہیں کی جنہوں نے ہر وفاقی حکومت کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ ملک میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے گی کہ ہر مسلمان دینِ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے روشناس ہوجائے اور دین کی روح اور اساس کے مطابق زندگی بسر کرے۔ یہ کام جمہوری حکومتوں نے کیا اور نہ طاقت کے بل بوتے پر اقتدار پر قبضہ جمانے والی غیر جمہوری قوتوں نے کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ٹیکس چوری سے لے کر بجلی چوری تک عام آدمی سے زیادہ اس ملک کی اشرافیہ اور خواص ہی ملوث ہیں اور رہے ہیں، اور یہی لوگ پیسے، پولیس اور حکومتی اداروں کی سرپرستی اور بالواسطہ خاموش حمایت اور تعاون سے پارلیمنٹ کا حصہ بنتے چلے آرہے ہیں، یہ کیوں ایسی قانون سازی ہونے دیں گے جس سے ان کے مفادات پر زد پڑتی ہو؟ یہ بات درست ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ملکی ترقی، تعلیم کے فروغ اور معیشت کے استحکام کے لیے ضروری سمجھا جارہا ہے، لیکن اس کا غلط اور ناجائز استعمال روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سیاست اور تاریخ کے فلاسفر ہنری ڈیوڈ تھورو کہتے ہیں کہ وہ حکومت بہترین ہے جو کم سے کم حکمرانی کرتی ہے۔ لیکن یہاں ہر حکومت آئین کی روح پر عمل کرنے کے بجائے اس مسئلے کو ایک ’’سیاسی حریف کی طاقت‘‘ کچلنے کے نام پر حل کرنے کی کوشش میں رہی ہے، اور وی پی این سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ VPN (ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک) ایک ایسی سروس یا خدمت ہے جو آپ کے ڈیٹا کو دوسروں سے چھپاکر خفیہ کرتی ہے اور آپ کے آلے اور ریموٹ سرور کے درمیان ایک محفوظ کنکشن بنانے کے لیے آپ کے IP ایڈریس کو بھی خفیہ رکھ سکتی ہے۔ یہ عمل کسی کو بھی نجی اور گمنام طور پر انٹرنیٹ براؤز کرنے کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے، اور ایسے مواد تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جو آپ کے علاقے میں محدود ہوسکتا ہے۔
پی ٹی اے نے غیر رجسٹرڈ وی پی این کو 2 ہفتے کی مزید مہلت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یکم دسمبر سے غیر رجسٹرڈ وی پی این کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جائے گا۔ وی پی این کی بندش کے حوالے سے ایک ٹرائل کامیابی سے مکمل کرلیا گیا ہے، دوسرا ٹرائل آئندہ دنوں میں کیا جائے گا۔ غیر رجسٹرڈ وی پی این سیکورٹی رسک ہیں، ان سے حساس ڈیٹا تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے، اسی لیے اسلامی نظریاتی کونسل نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این)کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی استعمال کو غیر شرعی قرار دیا ہے۔ کونسل کے چیئرمین علامہ راغب نعیمی کے بیان کے مطابق حکومت کو شرعی لحاظ سے اختیار ہے کہ وہ برائی اور برائی تک رسائی کا انسداد کرے۔ غیر اخلاقی اور توہین آمیز مواد تک رسائی کو روکنے یا محدود کرنے کے لیے اقدامات کرنا شریعت سے ہم آہنگ ہے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کے حوالے سے سفارشات پیش کی تھیں جن پر عمل درآمد احسن اقدام ہے، وی پی این کا استعمال اس نیت سے کہ غیر قانونی مواد یا بلاک ویب سائٹ تک رسائی حاصل کی جائے‘ شرعاً ناجائز ہے، حکومت کا فرض ہے کہ ایسے ذرائع کے استعمال پر پابندی عائد کرے جو معاشرتی اقدار اور قانون کی پاس داری کو متاثر کرتے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی اس رائے کو سیاست کی نذر کرنے کی کوشش سے آئین کے وہ تمام آرٹیکلز جن میں پاکستان کے معاشرے کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے ہر حکومت پر ایک آئینی ذمہ داری عائد کی جارہی ہے‘ اس جانب سے حکومت کا انحراف نظر آتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا غلط استعمال روکنے کے بجائے حکومت خود اسے ایک سیاسی مسئلہ بنارہی ہے۔ یہ طرزِعمل آئینی ذمہ داریوں سے انحراف اور پہلوتہی کے مترادف ہے۔
حال ہی میں ایک خبر شائع ہوئی کہ پاکستان سے فحش ویب سائٹس تک رسائی کے لیے ایک سال میں دو کروڑ بار کوششیں کی گئی ہیں۔ کیا کسی مسلم معاشرے سے ایسی توقع کی جاسکتی ہے؟ اگر یہ کام کہیں ہورہا ہے تو اسے روکنا حکومت کا قانونی اور آئینی فرض ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہر حکومت نے اپوزیشن کو دبائے رکھنا ہی آئینی اور قانونی عمل اور ذمہ داری سمجھ رکھا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی اس رائے پر آئین کے مطابق پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث ہونی چاہیے، اس کے بعد پارلیمنٹ اپنی رائے دے کر کوئی فیصلہ کرے۔ پارلیمنٹ کے پاس اگرچہ آئین سازی اور قانون سازی کا اختیار ہے لیکن وہ ملک میں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون منظور نہیں کرسکتی۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی رائے دے کر گیند پارلیمنٹ کے کورٹ میں پھینک دی ہے، اب پارلیمنٹ کا فرض ہے کہ اس پر بحث کرے اور کسی حتمی نتیجے اور فیصلے تک پہنچے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کو رد کرے، اس میں ترمیم لائے یا اس رائے کو کلی طور پر تسلیم کرے، اس کے سوا پارلیمنٹ کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے غلط رائے دی ہے تو وہ اس پر اپنی حتمی رائے دے کر کونسل کی ہر ٹیڑھی کل کو سیدھا کردے، کیونکہ آئین کے تحت حتمی فیصلہ تو پارلیمنٹ کا ہی تسلیم کیا جائے گا۔
اسلامی نظریاتی کونسل ایک اعلیٰ آئینی ادارہ ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کونسل نے بھی اپنی آئینی ذمہ داری کم ہی پوری کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس کی رائے کو سیاست کی نذر کیا جارہا ہے، حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کو پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے اسلامی یک جہتی کونسل، یا کل جماعتی کانفرنس کے ملکی سطح پر فورم میں زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔ جب بھی یہ نکتہ زیر بحث آئے تو یہ پہلو بھی غور طلب رہے کہ ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کا غلط استعمال کس خوفناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ تعلیمی اداروں، نوجوان نسل اور معاشرے کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے بد اثرات سے بچانا اب بہت ضروری ہوگیا ہے۔ اسے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا لڑائی کے تناظر میں ہرگز ہرگز نہ دیکھا جائے۔ اس میں سب سے زیادہ ذمہ داری میڈیا کے اداروں اور اُن سے وابستہ افراد کی ہے جو رائے عامہ کی تشکیل کا کام کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ انتہا پسندی پر مبنی کسی رائے کے بجائے ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں اور معقول رائے دیں۔ ایک طبقہ ہے جو مسلسل یہی بات کررہا ہے کہ حکومتِ وقت کو یہ سمجھ نہیں آرہا کہ ملک کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے، وہ عوام کے فون سننے اور ریکارڈ کرنے سے حل نہیں ہوں گے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے اس قانون کی حمایت کرنے والے حکومتی ارکان یا مشیران میں سے کسی کو ذرہ برابر بھی یہ خیال نہیں آیا کہ دنیا بھر میں ’پرائیویسی‘ کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس قانون کی حمایت کرنے والوں کی بھی کوئی نہ کوئی ویڈیو شاید ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ کے پاس ہوگی، تبھی انہیں پرائیویسی کا مطلب بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ صاف طور پر نظر آرہا ہے کہ حکومت کسی طور بھی اپنے خلاف کسی بھی سیاسی جماعت، بشمول پی ٹی آئی کے ڈیجیٹل میڈیا پر، حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف کسی بھی قسم کے پروپیگنڈے کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ اور برداشت کرے بھی کیوں؟ موبائل فون کمپنیوں کے سسٹم میں فائروال کی تنصیب اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ سرکار مخالف سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ونگ اس قدر تگڑا ہے کہ کسی اور سیاسی جماعت کی سوچ سے بھی باہر ہے۔ اب تو ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ بھی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ حکومت اور ریاستی ادارے بار بار کوئی نہ کوئی ایسا قدم اٹھاتے ہیں جس سے پی ٹی آئی اور عمران خان کی مقبولیت اور شہرت بڑھ جاتی ہے۔ جب عمران خان اپریل 2022ء میں اپنی مقبولیت کی نچلی ترین سطح پر تھے اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت سے ان کی حکومت ختم کی گئی تو وہ زیرو سے ’ہیرو‘ بن گئے۔ اس کا نتیجہ ہم نے 2024ء کے انتخابات میں دیکھا کہ جب تمام حربے استعمال کرنے کے بعد بھی ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ کو اپنی من پسند حکومت بنانے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے۔ ان حکومتی اقدامات کا بھی کہیں ایسا ہی نتیجہ نہ نکل آئے۔ صاف ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ سے اس لڑائی میں حکومت عسکری اداروں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ عوام خوب سمجھ رہے ہیں کہ حکومت کے یہ اقدامات بھی مخصوص سیاسی جماعت کی عوامی مقبولیت کم کرنے کے منصوبے ہیں۔ لیکن اقتدار پر بیٹھے ہوئے لوگ اور اُن کے ساتھی ماضی سے سبق حاصل کریں اور سوچیں کہ کسی سیاسی پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کے نتائج اکثر الٹے ہی نکلتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا چیمپئن ہے۔ وہ عوام تک پہنچنے کا کوئی اور طریقہ نکال لیں گے۔ آپ کہاں کہاں اُن کا راستہ روکیں گے؟ لیکن دو ہاتھیوں کی اس لڑائی میں عوام کا کیا قصور ہے؟ وہ تو بری طرح پس رہے ہیں۔
ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا پر پابندیوں کا آغاز تو سابقہ ادوار میں ہی ہوچکا تھا۔ پاکستان الیکٹرونک کرائمز ایکٹ 2002ء کے بعد سے پاکستان ایک ایسے سخت قانون میں جکڑ ا ہوا ہے جسے ’پیکا لا‘ کہا جاتا ہے۔ اس قانون کی خاص بات یہ ہے کہ اسے ضرورت پڑنے پر مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ اسی تناظر میں ’’سائبر کرائم ڈیجیٹل ونگ‘‘ علیحدہ قائم کیا جائے گا۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر بندش کی ایک تاریخ ہے۔ یوٹیوب کئی بار بند ہوچکا ہے۔ ٹک ٹاک بھی بندشوں سے گزرا ہے۔ اور اب بہت عرصے سے
ایکس (X) بھی نشانے پر ہے۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے کوئی انکار کر ہی نہیں سکتا۔ اب اگر کسی کو دنیا کے حالات کے بارے میں پتا کرنا ہو تو وہ ڈیجیٹل ذرائع استعمال کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ پلیٹ فارم بہت سے لوگوں کے روزگار کی وجہ بھی بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی اس قدغن سے پاکستان کے وہ لاکھوں خاندان بھی متاثر ہوں گے جو سوشل میڈیا کے توسط سے کاروبار کررہے ہیں۔ پاکستانی معیشت تو پہلے ہی سست روی کا شکار رہی ہے، اب اس نئی صورتِ حال میں مزید مشکلات کا سامنا کرتے پاکستانیوں کے کاروبار مزید دقتوں میں گھر گئے ہیں۔ کیونکہ صارفین کو سست انٹرنیٹ کی وجہ سے سوشل میڈیا تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کا نتیجہ مزید بے روزگاری اور غربت میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ انٹرنیٹ کمپنیاں بھی ان حالات میں بے بس نظر آتی ہیں۔ جس کمپنی سے بھی بات کی گئی اس کا جواب یہ تھا ’’اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے احکامات کی پاس داری ضروری ہے، اس لیے نیٹ کی رفتار کم ہوئی ہے‘‘۔ حکومت کو چاہیے کہ سوشل میڈیا، انٹرنیٹ کی بندش اور خطرناک سائبر قوانین کے بجائے غربت، بے روزگاری، کمر توڑ مہنگائی کم کرنے اور حقیقی عوامی مسائل کے حل پر توجہ دے۔ ڈیجیٹل انتہا پسندی خود بہ خود ختم ہو جائے گی۔ ورنہ جب بھی انتخابات ہوئے، عمران خان کو دو تہائی اکثریت سے دوبارہ اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکے گا، اور یہ کسی المیے سے کم نہ ہوگا۔ کیا اس صورت حال میں ڈیجیٹل دنیا میں کیے جانے والے ان ’’انقلابی‘ اقدامات سے پاکستانی معاشرے اور گرتی ہوئی معیشت کوکوئی فائدہ ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔ کالیں سننے اور ریکارڈ کرنے سے حالات ٹھیک ہونے والے نہیں۔