دنیا بھر میں ماحول کے ڈھانچے کی خرابی سے موسموں میں شدت پیدا ہوچکی ہے جس سے پہنچنے والا نقصان بہت زیادہ ہے۔ سائنس دان اپنے حصے کا کام کرکے تجاویز دے رہے ہیں۔ اب حکومتوں کو اپنا کام کرنا ہے تاکہ دنیا کو مزید خرابی سے بچایا جاسکے
دنیا بھر میں موسم تیزی سے محض شدت ہی نہیں بلکہ غیر یقینی بھی اختیار کرتا جارہا ہے۔ کہیں اچانک بہت زیادہ گرمی پڑنے لگتی ہے اور کہیں اچانک سردی اِتنی بڑھ جاتی ہے کہ برف باری ہونے لگتی ہے۔ کہیں زیادہ بارشوں کے نتیجے میں سیلاب آرہے ہیں اور کہیں اِس قدر خشک سالی واقع ہورہی ہے کہ لوگوں کے لیے فوڈ سیکورٹی کا معاملہ سنگین شکل اختیار کررہا ہے۔
حکومتیں پریشان ہیں کہ موسموں کی شدت سے کیسے نپٹیں۔ بعض معاملات تو بالکل سمجھ میں نہیں آرہے۔ پاکستان اور بھارت میں اسموگ کا معاملہ انتہائی شکل اختیار کرچکا ہے۔ پاکستانی پنجاب سے بھارتی پنجاب، ہریانہ، راجستھان، ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش سے ہوتے ہوئے دہلی تک دھویں اور دُھند نے عذاب کی شکل اختیار کرلی ہے۔ دھویں اور دُھند کے ملاپ سے پیدا ہونے والے اسموگ نے کم و بیش 10 کروڑ افراد کو شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔
دنیا بھر میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ماحول کو خرابی سے کس طور بچایا جائے؟ قدرت نے ہمیں زندہ رہنے کے لیے جو ماحول عطا کیا ہے اُسے ہم فطرت کہتے ہیں اور انگریزی میں اس کے لیے ایکو سسٹم کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ایکو سسٹم یعنی وہ بنیادی ڈھانچا جو موسموں کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ماحول کے حوالے سے تحقیق کا بازار گرم ہے۔ یہ لازم ہوچکا ہے۔ ماحول میں پیدا ہونے والی گراوٹ ہی موسموں کی شدت کا باعث بنتی ہے۔ آئیے، چند سوالات کی شکل میں ماحول کو سمجھنے کی طرف بڑھتے ہیں:
٭ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ماحول کی گراوٹ یا بحران ہی شدید تر موسم کا ذمے دار ہے؟
ماحول میں رونما ہونے والی بنیادی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے جو تحقیق کی جاتی ہے اُسے کلائمیٹ ایٹریبیوشن کہا جاتا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسم کی شدت میں کلیدی کردار عالمی سطح پر بڑھے والی حدت ادا کررہی ہے۔
یہ بنیادی سوال ہے: کیا ماحول کی گراوٹ دنیا بھر میں موسموں کی شدت کی ذمے دار ہے؟ یہ شدت کروڑوں گھرانوں کو متاثر کررہی ہے۔ خیر، یہ کوئی آسان سوال نہیں کہ ہم سوچیں اور جواب مل جائے۔ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ موسموں کی شدت کس حد تک روایتی نوعیت کی ہے اور کس حد تک ماحول کی گراوٹ کا نتیجہ۔
اچھی خبر یہ ہے کہ ماحول کو سمجھنے کی کوششیں اب مربوط ہوچکی ہیں۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے تحقیق بڑھ رہی ہے۔ بُری خبر البتہ یہ ہے کہ انسان نے ماحول کو اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ اِس کا گمان تک نہیں کیا گیا تھا۔ انسان نے پیٹرولیم مصنوعات اِس قدر استعمال کی ہیں کہ ماحول کی گراوٹ نے ہیٹ ویوز، سیلابوں اور طوفانوں کی راہ ہموار کی ہے اور اس کے نتیجے میں محض روزمرہ زندگی ہی کو نہیں بلکہ انسانی تہذیب کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
٭ ایٹریبیوشن اسٹڈیز کیا ہیں؟
ماحول کو سمجھنے کے حوالے سے تین طرح کی سوچ کام کررہی ہے۔ تینوں طریقے موجودہ زمانے کا ماضی سے تقابل کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ماحول کی گراوٹ اور خرابی کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ گزرے ہوئے زمانوں کے مقابلے میں موسموں کی شدت اب کتنی زیادہ ہے۔ گزرے ہوئے قدرے ٹھنڈے یا معتعدل زمانوں کا ڈیٹا ہمیں بتاتا ہے کہ آج کے انسان کو موسم کی شدت کس حد تک برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔
صنعتی انقلاب سے پہلے کا زمانہ آج کی اصطلاح کے مطابق بہت ’’کُول‘‘ تھا، یعنی ماحول میں شدت نہیں تھی۔ کلائمیٹ ماڈلز کی مدد سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اب کس حد تک گراوٹ واقع ہوچکی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال بڑھتا گیا ہے۔ یہ استعمال اب انتہائی شکل میں ہے۔
٭ایٹریبیوشن اسٹڈیز سے کیا ملا ہے؟
اب ہم ہیٹ ویوز کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ یہ عالمگیر حدت کا منطقی نتیجہ ہیں۔ ماضی میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہ ایک نئی حقیقت کا درجہ رکھتی ہیں۔ ماحول کے حوالے سے ماضی میں جتنے بھی نمونے یا ماڈل پائے جاتے ہیں اُن میں ہیٹ ویوز نہیں تھیں۔ ماضی میں بھی بہت گرمی پڑتی رہی ہے مگر ایک باضابطہ موسم کے تحت، یعنی اچانک گرمی کی لہر اٹھنے کے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے۔ حالیہ چند برسوں کے دوران مشرقی و جنوبی ایشیا، افریقہ، شمالی امریکہ اور یورپ میں دو درجن سے زیادہ انتہائی خطرناک ہیٹ ویوز واقع ہوچکی ہیں۔
٭دیگر معاملات کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟
عالمگیر حدت نے ہیٹ ویوز کے علاوہ بھی کئی ایونٹس کو انتہائی شکل دی ہے۔ شدید گرمی کی لہر اٹھنے سے بارشوں کا پیٹرن بدل گیا ہے۔ کہیں انتہائی گرم ہوائیں زیادہ چلنے لگی ہیں۔ ’’کاربن بریف‘‘ نامی گروپ کی تیار کردہ ڈیٹا بیس میں ماحول سے متعلق 744 اسٹڈیز میں سے تین چوتھائی میں یہ بات سامنے آئی کہ کسی بھی موسم کو شدید تر بنانے میں کلیدی کردار عالمگیر حدت نے ادا کیا ہے۔
٭شدید تر موسم کے کون سے واقعات ماحول کے بحران کے ہاتھوں انتہائی نوعیت کے ہوچکے ہیں؟
شدید موسم کے جن واقعات کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے اُن میں ہیٹ ویوز بہت نمایاں ہیں۔ اب تک جن 200 شدید موسمی واقعات یعنی ہیٹ ویوز کا جائزہ لیا گیا ہے اُن میں سے 95 فیصد کا معاملہ یہ تھا کہ جس بات کا خدشہ تھا وہی بات ہوئی۔
٭سیلاب اور خشک سالی کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟
بارشوں کے پیٹرن میں رونما ہونے والی تھوڑی بہت تبدیلی کو سمجھنا مشکل نہیں، تاہم سیلاب کی تباہ کاری کو سمجھنا انتہائی پیچیدہ عمل ہے، کیونکہ انسان کی بنائی ہوئی دفاعی لائن کے باعث سیلابی کیفیت زیادہ خطرناک ہوجاتی ہے اور زمین کی ساخت کے باعث بھی۔ بارش کے 177 معاملات کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ 60 معاملات میں خرابی عالمگیر حدت کی پیدا کردہ تھی۔ خشک سالی کے 106 واقعات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا کہ 70 فیصد معاملات میں عالمگیر حدت نے کلیدی کردار ادا کیا۔
٭کیا ماحول کے مطالعے میں اموات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے؟
دنیا بھر میں شدید موسم کے ہاتھوں اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اِن اموات کو طبعی قرار دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مکمل طبعی نہیں ہوتیں اور ان میں عالمگیر حدت کا اچھا خاصا کردار ہوتا ہے۔ تحقیق و تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں موسم کی شدت کے ہاتھوں ہونے والی اموات کے 33 فیصد کیسز میں سے 91 فیصد میں عالمگیر حدت نے کلیدی کردار ادا کیا۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بعض ممالک میں ہر تین میں سے ایک نومولود کی موت عالمگیر حدت کے باعث پیدا ہونے والے حالات کے ہاتھوں واقع ہوئی۔ ایک اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد اموات عالمگیر حدت کا بلا واسطہ نتیجہ ہوتی ہیں۔
تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ امریکہ میں سمندری طوفان ہاروے نے املاک کو جو نقصان پہنچایا اُس کا 30 تا 50 فیصد روکا جاسکتا تھا اگر عالمگیر حدت پر قابو پالیا گیا ہوتا۔ برطانیہ میں چار بار سیلاب سے 18 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ سب کچھ عالمگیر حدت کے ہاتھوں رونما ہوا۔
پس ماندہ ممالک میں جو لوگ اپنے پرانے علاقوں میں رہتے ہیں اور سیلاب وغیرہ سے معقول بچاؤ کا اہتمام نہیں کرتے انہیں زیادہ جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
٭اور برف باری یا منجمد کرنے والی کیفیت؟
دنیا بھر میں سخت سردی بھی پڑ رہی ہے۔ ایسے 60 معاملات کی چھان بین سے معلوم ہوا ہے کہ عالمگیر حدت ہی ایسی شدت کی راہ ہموار کررہی ہے۔
٭کیا ماحول کے مطالعے کے حوالے سے آلودگی پیدا کرنے والوں کو موردِ الزام ٹھیرایا جاسکتا ہے؟
دنیا بھر میں ماحول کی خرابی میں آلودگی پیدا کرنے والے عناصر کو موردِ الزام ٹھیرایا جارہا ہے۔ گاڑیوں کا دھواں اس سلسلے میں بہت نمایاں ہے۔ پاکستان اور بھارت میں نئی فصلوں کی بُوائی کے لیے پچھلی فصل کے کچرے کو جلانے کا رواج سا چل پڑا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہر سال ڈیڑھ سے دو ماہ تک ماحول شدید آلودہ ہوجاتا ہے، اور اس کے نتیجے میں لوگوں کو غیر معمولی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دنیا بھر میں ایسی تحقیق پروان چڑھ رہی ہے جس میں ماحول کو بگاڑنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ صنعتی عمل سے آلودگی بڑھتی ہے۔ اگر معقول اور معیاری طریقے اختیار نہ کیے جائیں تو صنعتی عمل سے ماحول کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور بہت سی کمیونٹیز نشانے پر ہوتی ہیں۔ بعض علاقوں میں بارش اور سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے لیے آلودگی پھیلانے والوں کو ذمے دار قرار دے کر اُن سے ہرجانہ بھی طلب کیا گیا ہے۔
سائنس دان اپنے حصے کا کام کررہے ہیں۔ موسم کی شدت کے حوالے سے غیر معمولی نوعیت کی اور بہت بڑے پیمانے پر تحقیق کی جارہی ہے۔ اب ایسے سائنسی طریقے بھی وضع کیے جاچکے ہیں جن کی مدد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی حدت کے ہاتھوں موسم میں کس حد تک شدت پیدا ہوتی ہے۔ یورپ، ایشیا، وسطی و مشرقی امریکہ، جنوبی امریکہ، افریقہ ور آسٹریلیا میں غیر معمولی بارشیں ہورہی ہیں۔ یہ سب کچھ بہت حد تک عالمگیر حدت ہی کا نتیجہ ہے۔ زیادہ بارشوں کے نتیجے میں سیلاب بھی بہت آرہے ہیں۔ ساحلی علاقوں میں بھی سیلابی
کیفیت بڑھتی جارہی ہے کیونکہ عالمگیر حدت سے سمندروں کا درجہ حرارت بھی بلند ہورہا ہے اور اِس کے نتیجے میں سمندروں کی سطح بھی بلند ہورہی ہے۔ بہت سے مقامات پر خشک سالی اور جنگل میں آگ لگنے کے واقعات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔
ماحول کے ڈھانچے اور اندرونی کارکردگی کے حوالے سے تحقیق بڑھتی جارہی ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہورہا ہے کہ موسموں کی کیفیت پر کتنا اثر مرتب ہوچکا ہے۔ اب تک یہ بات تو بالکل واضح ہوچکی ہے کہ ماحول کا بحران واقع ہوچکا ہے اور اِس کے نتیجے میں ہمیں بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ماہرین ایک خاص حد تک ہی ماحول کا جائزہ لے کر کوئی رائے دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں حکومتوں کو کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ اگر وہ دلچسپی نہ لیں تو ماحول کو درست کرنے کی کوششیں لاحاصل رہتی ہیں۔ دنیا بھر میں ماہرین دستیاب مواد کی بنیاد پر تحقیق کرکے تجاویز مرتب کرتے ہیں۔ متاثر ہونے والوں کی تعداد اور نقصان کا تخمینہ لگاکر حکومتوں کو مشوروں سے نوازا جاتا ہے۔ اگر حکومتیں دلچسپی لیں تو بہتری کی صورت نکلتی ہے ورنہ نہیں۔