ٹرمپ کی کامیابی کے بعد اسرائیلی سفاکی میں شدت

اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مرتکب نہیں ہورہا۔ امریکی وزارتِ خارجہ
اسرائیلی وزیراعظم کی نجی رہائش گاہ پر برقِ بلا کوند گئی
ہالینڈ اور فرانس میں غزہ نسل کشی کے خلاف پُرعزم مظاہرے
اسرائیلی خفیہ ایجنسی میرے والد کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔ فرزندِ اول کا الزام
اسرائیلی عوام غارت گری سے اکتا گئے

انتخابی مہم کے دوران جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ مزاحمت کاروں کو دھمکی دی تھی کہ اگر میرے اقتدار سنبھالنے سے پہلے قیدی رہا نہ ہوئے تو ان کا انجام بہت برا ہوگا۔ بدھ 13 نومبر کو صدر بائیڈن کی دعوت پر نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ، قصر ابیض تشریف لائے۔ اس موقع پر، اور موضوعات کے علاوہ بائیڈن کے مشیر قومی سلامتی جان سولیون نے جناب ٹرمپ کو غزہ اور لبنان کی صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ ملاقات کے بعد جناب ٹرمپ نے اپنی دھمکی دہرائی کہ ’’اگر میرے عہدہ سنبھالنے تک امریکی قیدی رہا نہ ہوئے تو ذمہ داروں کو بھاری قیمت ادا کرنی ہوگی۔‘‘

ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد سے غزہ اور لبنان میں اسرائیلی جارحیت شدت اختیار کر گئی ہے۔ کلسٹر اور بنکر بسٹر بموں کی بارش کے ساتھ نفسیاتی دبائو کی مہم بھی عروج پر ہے۔ اسرائیلی فوج عام لبنانیوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے بمباری کی دہشت انگیز تصاویر جاری کررہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بصری تراشا بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا جس میں ایک خوفناک بم جنوبی لبنان کی ایک کئی منزلہ عمارت سے ٹکراتا دکھائی دیا جس کے بعد ایک خوفناک دھماکہ ہوا اور شعلوں میں لپٹی عمارت دیکھتے ہی دیکھتے زمیں بوس ہوگئی۔ ان تراشوں اور تصاویر کا مقصد خوف پیدا کرکے مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔ لیکن اس مہم کے جواب میں جنوبی لبنان سے اعلامیہ جاری ہوا کہ ’’ہم جارحیت کے خلاف غیر معینہ مدت تک مزاحمت جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے صلاحیت، اسلحہ اور سینہ و سر کی کوئی کمی نہیں‘‘۔

جوابِ آں غزل کے طور پر16 نومبر کی رات فیشن ایبل ساحلی شہر قیصریہ (Caesarea) میں اسرائیلی وزیراعظم کی ذاتی رہائش گاہ پر شعلہ (Flare) داغ دیا گیا جس سے سارا محلہ سرخ ہوگیا۔ یہ برقِ بلا میزائل، ڈرون یا راکٹ سے نہیں پھوٹی بلکہ کسی بانکے کی رائفل نے شعلے اگلے۔ محل پر گزشتہ ماہ ہونے والے میزائل حملے کے بعد سے بی بی اور اُن کی بیوی اپنے پُرتعیش گھر کو تالا لگاکر زیرزمین بنکر میں پناہ گزین ہیں، لیکن وزیراعظم کی رہائش گاہ پر کوندنے والی اس برقِ بلا نے سارے اسرائیل کو خوف زدہ کردیا ہے۔

جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی ان کی پہلی ترجیح ہوگی، چنانچہ جلدازجلد فیصلہ کن فتح کے لیے انھوں نے حلف برداری کے فوراً بعد اسرائیل کو فوجی سازوسامان اور گولہ بارود کی فراہمی پر عائد تمام پابندیاں اور تاخیر ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ دوسری طرف غزہ و لبنان قتلِ عام میں سہولت کاری کے لیے صدر بائیڈن بھی پُرعزم ہیں۔گزشتہ ماہ امریکہ نے اسرائیل کو متنبہ کیا تھا کہ اگر ایک ماہ کے دوران غزہ میں اقوام متحدہ اور نجی اداروں کی جانب سے بھیجی جانے والی انسانی ضروریات کی اشیا کی ترسیل پر عائد قدغنیں ختم نہ کی گئیں تو اسرائیل کو اسلحہ اور دوسری امداد کی فراہمی معطل کردی جائے گی۔ یہ مہلت 12 نومبر کو پوری ہوگئی اور اقوام متحدہ کی رپورٹ میں صاف صاف کہا گیا کہ امداد کی نقل و حمل پر پابندی نہ صرف برقرار، بلکہ غزہ میں قحط کی صورتِ حال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ اُس روز ایک طرف اقوام متحدہ میں امریکی سفیر بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کررہی تھیں تو عین اُسی وقت واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی حکومت کے ترجمان ویدانت پٹیل نے کہا کہ ’’اسرائیل غزہ کی امداد روک کر امریکی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب نہیں ہوا، نہ اسے نسل کُشی قرار دیا جاسکتا ہے، اس لیے فوجی امداد جاری رہے گی۔‘‘

غزہ نسل کُشی بند کرانے کا وعدہ کرکے مسلمان ووٹوں سے جیتنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کے لیے اب تک جتنے افراد کو نامزد کیا ہے وہ سب کے سب فلسطین دشمن، مسلم مخالف اور اسرائیل و ہندوستان نواز ہیں۔ اقوام متحدہ کے لیے مجوزہ سفیر محترمہ ایلس اسٹیفانک (Else Stefanic)کا ذکر ہم گزشتہ نشست میں کرچکے ہیں۔ اسرائیل میں امریکی سفارت کاری کا منصب آرکنساس (Arkansas)کے سابق گورنر مائک ہکابی (Mike Huckabee) کو سونپا جارہا ہے۔ ہکابی صاحب کا خیال ہے کہ ’’اسرائیل سے باہر کسی قطعہ ارض پر فلسطینی ریاست قائم کردی جائے۔ اسرائیل حضرت ابراہیم ؑ کے وقت سے یہودیوں کا وطن ہے‘‘۔ اپنی نامزدگی کے بعد انھوں نے کہا کہ وہ غربِ اردن کو ’’سلطنتِ سلیمانؑ‘‘ کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہوئے اسے یہودالسامرہ کہتے ہیں۔

مشیر قومی سلامتی کے لیے قرعہ فال فلوریڈا سے رکن کانگریس مائیکل والٹز کے نام نکلا ہے۔ پچاس سالہ مائیکل طویل عرصہ امریکی فوج کے چھاپہ مار دستے Green Barretسے منسلک رہے۔ موصوف نے اسلامی انتہا پسندی، کمیونزم، چینی طرزِ حکومت جیسے نظریاتی معاملات پر خاصا کام کیا ہے، اسی بنا پر انھیں عسکری دانشور کہا جاتا ہے۔ جناب والٹز ہندوستان کے پُرجوش حامی اور کانگریس کے ہندنواز پارلیمانی گروپ India Caucusکے سربراہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اصل جنگ نظریات سے لڑی جاتی ہے۔ نظریاتی تطہیر کا کام وقت طلب اور صبر آزما ہے، اس کے مقابلے میں دشمن کے ٹینک کو بم سے اڑانا کچھ مشکل نہیں۔ مشیر قومی سلامتی کی حیثیت سے فلسطین اور ایران میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے سفارتی، سیاسی، عسکری و اقتصادی دبائو کے ساتھ نظریاتی تطہیر ان کی تزویراتی (اسٹرے ٹیجک) حکمتِ عملی کا حصہ ہوگی۔

کیوبن نژاد 53 سالہ سینیٹر مارکو روبیو (Marco Rubio)وزیرخارجہ نامزد کیے جارہے ہیں۔ وزیرخارجہ تعینات ہونے کی صورت میں ان کی خالی ہونے والی سینیٹ نشست پر نومنتخب صدر کی بہو لارا ٹرمپ قسمت آزمائی کریں گی۔ مارکو روبیو اسرائیل اور ہندوستان کے پُرجوش حامی ہیں۔ موصوف بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہہ چکے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کریں گے۔ ان کا خیال ہے کہ ’’مزاحمت کار شیطانی درندے ہیں اور اسرائیل ان وحشیوں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتا، انھیں ہر قیمت پرختم کرنا ہوگا۔‘‘

ریاست ہوائی (Hawaii) سے سابق رکن کانگریس لیٖفٹیننٹ کرنل (ر) تلسی گیبرڈ ڈائریکٹر نیشنل انٹیلی جنس نامزد کی گئی ہیں۔ تلسی صاحبہ کی والدہ ہندو ہوگئی تھیں، ان کی تبلیغ سے شوہر نے ہندومت قبول کرلیا اور تلسی سمیت تمام بچے بھی ہندو ہوگئے۔ تلسی گیبرڈ 2012ء میں رکن کانگریس منتخب ہوئیں اور گیتا پر حلف اٹھایا۔ نریندرا مودی کے دورۂ امریکہ پر انھوں نے ہندوستانی وزیراعظم کو یہ کہہ کر گیتا کا تحفہ پیش کیا کہ انفرادی و اجتماعی طور پر زندگی گزارنے کا اس سے بہتر طریقہ کوئی اور نہیں۔ تلسی صاحبہ کا اصرار ہے کہ ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی نام لے کر مذمت کی جائے۔ محترمہ کے خیال میں امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی جمہوریتوں کو اسلامی انتہا پسندی سے سخت خطرہ لاحق ہے۔ غزہ نسل کُشی کے معاملے میں وہ اسرائیل کی دامے، درمے، قدمے، سخنے مکمل حمایت پر یقین رکھتی ہیں۔

گوانتا ناموبے عقوبت کدے کے سابق جیلر اور فاکس نیوز کے میزبان پیٹ ہیگسیتھ(Pete Hegseth) ٹرمپ انتظامیہ کے وزیردفاع ہوں گے۔ ان کے دور میں گوانتانامو تشدد کا مرکز تھا جہاں لب کشائی اور اعترافِ جرم کے لیے واٹربورڈنگ کا انسانیت سوز طریقہ استعمال کیا گیا، جس کا شکار ہوکر کئی قیدی دماغی توازن کھو بیٹھے۔ پلاٹون کمانڈر کی حیثیت سے انھوں نے تشدد کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ’’وحشی اسی سلوک کے مستحق ہیں، دنیا میں کہیں بھی دہشت گردوں کو پیار نہیں کیا جاتا۔‘‘

سفیروں، انٹیلی جنس، قومی سلامتی اور وزیرخارجہ کے لیے ان نامزدگیوں سے مشرق وسطیٰ امن کے بارے میں نومنتخب صدر کے اخلاص پر امریکی مسلمان شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔

دلچسپ بات کہ ظالم محبوب بھی ڈونلڈ ٹرمپ سے خوش نہیں۔ فلوریڈا سے رکن کانگریس میتھیو گیٹس (Matt Gaetz)کی بطور مختار اعلیٰ (اٹارنی جنرل) نامزدگی پر اسرائیل سخت برہم ہے۔ جناب گیٹس پر الزام ہے کہ انھوں نے صدر ٹرمپ کے State of the Union خطاب میں ’’مُنکرِ ہولوکاسٹ (Holocaust Denier)‘‘ چارلس جانسن کو اپنے ذاتی مہمان کے طور پر کانگریس مدعو کیا تھا۔ چارلس جانسن سمجھتے ہیں کہ ہولوکاسٹ کے دوران 60 لاکھ افراد کا قتل مبالغہ آرائی ہے، بیماری کی وجہ سے ڈھائی لاکھ اموات ہوئی تھیں۔ کئی اسرائیل نواز ریپبلکن سینیٹرز نے کہا ہے کہ وہ جناب گیٹس کی توثیق کے لیے ہونے والی رائے شماری کے دوران مخالفت میں ہاتھ اٹھائیں گے۔

غزہ و لبنان کے حوالے سے دنیا بھر میں عوامی جذبات کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ جمعہ ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم میں اسرائیلی اور مقامی ٹیم کے درمیان فٹ بال میچ کے بعد اسرائیلی شائقین نے غزہ نسل کُشی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ولندیزی نوجوانوں پر پتھرائو کیا۔ جوابی کارروائی نے تصادم کی شکل اختیار کرلی اور پولیس نے غزہ کے حامیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ تین دن بعد ایسے ہی ایک واقعے کے دوران مقامی ریل (ٹرام) کا ایک ڈبہ جلادیا گیا۔ جلتی پر تیل ڈالنے کے لیے انتہاپسند رہنما اور پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت فریڈم پارٹی کے سربراہ گیرٹ وائلڈرز نے الزام عائد کیا کہ کچھ لوگ یہودی سرطان کے نعرے لگارہے تھے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ مظاہرے میں حصہ لینے والے مراکش نژاد باشندوں کو ملک بدر کیا جائے۔

اس کے دودن بعد 13 نومبر کو فرانس کے قدامت پسندوں نے Israel Foreverکے نام سے پیرس میں میلہ منعقد کیا جس سے حاصل ہونے والی آمدنی اسرائیلی فوجیوں کی فلاح و بہبود کے لیے عطیہ کی جانی تھی۔ تقریب میں شرکت کے لیے قبضہ گردوں کے روحِ رواں اور اسرائیلی وزیرخزانہ مسٹر بیزلل اسموترچ کو خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ اس موقع پر نسل کشی کے مخالفین نے زبردست مظاہرہ کیا۔ میلے کے اخراجات ادا کرنے والے مشہور تجارتی ادارے CAREFOURکے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا گیا۔ مظاہرین میں جنگ مخالف یہودی بھی شامل تھے۔ شدید مخالفت کی بنا پر اسرائیلی وزیرخزانہ نے شرکت سے معذرت کرلی۔ یہ تقریب ایسے وقت منعقد ہوئی جب دوسرے دن فرانس اور اسرائیل کے درمیان ایک دوستانہ فٹ بال میچ کھیلا جانا تھا، جس کی حفاظت کے لیے خودکار اسلحے سے لیس پولیس کے ہزاروں سپاہی پیرس میں گشت کررہے تھے۔صدر میکراں، سابق صدور سارکوزی، ہولاندے اور وزیراعظم سمیت فرانس کی قیادت اسرائیل سے یکجہتی کے لیے میدان میں موجود رہی۔ ان اکابرین کے آنے پر آزاد فلسطین کے فلک شگاف نعرے لگائے گئے۔

نیتن یاہو اور ان کے اتحادیوں کے جنگی جنون کے علی الرغم 69 فیصد اسرائیلیوں خیال ہے کہ قیدیوں کی رہائی انتہائی ضروری ہے جس کے لیے (اہلِ غزہ کی شرائط پر) جنگ بندی میں کوئی برائی نہیں۔ دلچسپ بات کہ جنگجو لیکڈ پارٹی میں بھی جنگ سے اکتاہٹ بڑھ رہی ہے اور اس کے 46 فیصد حامی اب جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں۔ (حوالہ: اسرائیلی ٹیلی ویژن 12)

گفتگو کا اختتام ایک دلچسپ خبر پر:
اسرائیل کے فرزندِ اوّل یار نیتن یاہو نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی شاباک(Shin Bet) ان کے والد کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتی ہے اور عسکری راز افشا کرنے کے خودساختہ الزام میں گرفتار ہونے والے چار فوجی افسر شاباک کے عقوبت کدے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنائے جارہے ہیں۔

(حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔