کیا سود سے چھٹکارا نہیں مل سکتا؟

اگر کوئی مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ سود ایک ناگزیر شے ہے اور موجودہ زمانے میں اس کے بغیر کوئی کام ہی نہیں چل سکتا،تو اس کا یہ خیال بالکل باطل ہے۔ یہ خیال نہ صرف اصولاً غلط ہے بلکہ یہ اس خدا کے بارے میں سوء ظن ہے جس کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ اس نے کسی ایسی چیز سے ہمیں نہیں روکا ہے جو انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہو اور جس کے بغیر دنیوی کاروبار نہ چل ہی سکتا ہو۔ لیکن میں صرف اتنا ہی جواب دینے پر اکتفا نہیں کروں گا بلکہ یہ عرض کروں گا کہ خود موجودہ دور میں معاشی اصول ونظریات بھی اس طرف جارہے ہیں کہ سود کی شرح کو کم سے کم حتیٰ کہ صفر کی حد تک پہنچا کر اسے ختم کردیا جائے۔چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اکثر ممالک میں شرح سود تیز رفتاری سے گر رہی ہے اور دنیا اس مقام کے قریب تر پہنچنے کی کوشش کررہی ہے جہاں سود سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔مجھے یہاں اس بارے میں تفصیلی بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ میں اپنی کتاب”سود“ میں ا س موضوع پر مفصل بحث کرچکا ہوں۔

سود کے حوالے سے مولانا مودودی ؒ نے دورِ جدید کے اس عظیم چیلنج کا جواب دلیل وبرہان کے ساتھ اپنی کتاب ”سود“ میں دیا ہے۔ ۔اس کتاب کو پی ڈی ایف میں پڑھنے کے لیے لفظ سود پر کلک کریں البتہ میں یہاں مختصراً یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ایک اسلامی حکومت اس مسئلے کو عملاً کیسے حل کرسکتی ہے۔ میرے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ملک کے اندر سودکو بند کردیا جائے۔اس کے بعد دوسرے قدم کے طور پر بیرونی تجارت میں سود ختم کرنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ملک کے اندر حکومت سودی لین دین کو قانوناً ناجائز قرار دے اور خود بھی سود کا لینا اور دینا ترک کردے۔کوئی عدالت سود کی ڈگری نہ دے۔کوئی شخص اگر سودی کاروبار کرے تو اسے فوج داری جرم کا مجرم گردانا جائے۔ جب تک آغاز ہی میں ایسے فیصلہ کن اقدامات نہیں کیے جائیں گے، اس امر کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں پیدا ہوسکے گا کہ کوئی ایسا مالیاتی نظام قائم ہوجو سود سے خالی ہو۔ اس حقیقت کو مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک حکومت اگر ایک طرف ریل کے سفر کے لیے ٹکٹ کو ضروری قرار دے دے اور دوسری طرف بغیر ٹکٹ کے سفر کے لیے بھی گنجایش باقی رہنے دے تو ٹکٹ لینے والے مسافر تھوڑے ہی نکلیں گے۔ لیکن اگر بلا ٹکٹ کا سفر فوج داری جرم ہو تو کوئی آدمی جو ٹکٹ نہیں لیتا،ریل میں جانے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔ اسی طرح جب تک ہمارے ملک میں سود قانوناًحلال ہے،جب تک سودی لین دین کی اجازت ہے،جب تک ہماری حکومت خود سود لیتی اور دیتی ہے،جب تک ہماری عدالتیں سود کی ڈگریاں نافذ کرتی ہیں،اس وقت تک اس بات کا قطعاً کوئی امکان نہیں ہے کہ حکومت یا کوئی دوسرا ادارہ کوئی ایسا بینکنگ سسٹم چلانے میں کامیاب ہو جو سود خواری کے بجائے حصہ داری کے اصولوں پر قائم کیا گیا ہو۔ البتہ اگر سودی بنک کاری کو پہلے قانوناًحرام قرار کردیا جائے تو ہمیں پوری توقع ہے کہ حصہ داری کے اصول پر ایسا سسٹم نشوونما پا سکتا ہے۔ حصہ داری سے ہماری مراد یہ ہے کہ نفع ونقصان میں تمام حصے دار برابر کے شریک ہوں۔داخلی طور پر سودی بندش کے بعد خارجی لین دین میں بھی اس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ان شاء اللہ کسی لڑائی جھگڑے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ دوستانہ طریق پر تجارتی تعلقات قائم رکھتے ہوئے بھی دوسرے ممالک کو اس پر رضا مند کیا جا سکتا ہے۔

اگر ہم ایک سیدھے سادھے مسلمان کے نقطہئ نظر سے اس مسئلے کو دیکھیں تو بداہتاً یہ بات ہماری سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا کام دین واخلاق اور تمدن وتہذیب کے ان اصولوں کی علم برداری کرنا ہے جنہیں خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت میں حق کہا گیا ہے‘ اور دنیا سے ان خیالات اور طریقوں کو مٹانے کی کوشش کرنا ہے جنہیں قرآن اور سنت نے باطل ٹھہرایا ہے۔ جس سرزمین میں باطل کاغلبہ ہو اور احکام کفر جاری ہورہے ہوں،وہاں ہمارا کام باطل طریقوں کو اختیار کرلینا نہیں ہے، بلکہ ہمارا اصلی منصب یہ ہے کہ ہم وہاں رہ کر قرآن کے قانونِ حیات کی تبلیغ کریں اور نظام کفر کی جگہ نظام اسلامی قائم کرنے کے لیے ساعی ہوں۔ اب غور کیجیے کہ اگر ہم خود سود کھائیں گے تو کفار کی سودخواری کے خلاف آواز کس منہ سے اُٹھائیں گے؟کفار اگر ناجائز طریقوں سے ہمارے اموال لے رہے ہیں یا حکومت کفر ہمارے اموال سے اگر بلااستحقاق(یعنی خدا کی سند پر مبنی حق کے بغیر)کوئی حصہ لے اڑتی ہے تو ہمارے لیے یہ کیسے روا ہوسکتا ہے کہ ہم ان اموال کو واپس لینے کے لیے ویسی ہی ناجائز کارروائیاں کرنے لگیں اورکسب حرام کو اپنا حق واپس لینے کا ذریعہ بنائیں؟اس طرح تو سود خواری کے ساتھ شراب نوشی،مزامیر سازی،فحش فلم بنانا،عصمت فروشی،کاروبار رقص وسرود، بت تراشی، فحش نگاری، سٹہ بازی، جوئے بازی اور سارے ہی حرام کاموں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ پھر یہ فرمائیے کہ ہم میں اور کفار میں وہ کون سا اخلاقی فرق باقی رہ جاتا ہے جس کے بل پر ہم دارالکفر کو دارالالسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کر سکیں؟

اصل میں مسئلے کی صورت یہ ہے کہ حکومت کفر کے آئین کی رُو سے آپ پر یہ سب حرام ہیں۔اگر آپ شریعت اسلام کے پیروکار ہیں تو آپ حکومت کفر کے آئین کی ڈھیل سے فائدہ اٹھانے کا حق نہیں رکھتے اور اگر آپ ایک طرف دنیا کو شریعتِ اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور دوسری طرف کچھ فائدوں کے لیے یا کچھ نقصانات سے بچنے کے لیے حرام خوری کی ان گنجایشوں سے بھی فائدہ اُٹھاتے ہیں جو آئین کفر نے دی ہیں مگر آئین اسلام نے جن کی سخت مذمت کی ہے تو چاہے فقیہ شہر آپ کے اس طرزِ عمل کے جواز کا فتویٰ بھی دے دے،لیکن عام انسانی رائے اتنی بے وقوف نہیں ہے کہ پھر بھی وہ آپ کی تبلیغ کا کوئی اخلاقی اثر قبول کرے گی۔

حقیقتاً اس طرز فکر کو فقہ اسلامی میں استعمال کرنا ہی غلط ہے کہ مسلمانوں کو فلاں تکلیف اور فلاں نقصان جو حکومتِ کفر کے تحت رہتے ہوئے پہنچ رہا ہے،اسے روکنے کے لیے نظامِ باطل ہی کے اندر کچھ شرعی وسائل پیدا کیے جائیں۔یہ طریقِ فکر مسلمانوں کو بدلنے کے بجائے اسلام کو بدلتا ہے، یعنی تجدید دین کی جگہ تجدد کا دروازہ کھولتا ہے جو نظام دینی کے لیے حد درجے تباہ کن ہے،اور افسوس یہ ہے کہ غلب? کفر کے زمانے میں فتویٰ نویسی کچھ اسی راہ پر چلتی رہی ہے۔ اس طریقے نے مسلمانوں کو نظام باطل کے اندر راضی اور مطمئن زندگی بسر کرنے کا خوگر بنادیا ہے، حالاں کہ یہ دین حق کے عین منشا ہی کے خلاف ہے۔ ہم اس طرز فکر کو ہرگز گوارا نہیں کرسکتے،خواہ کیسے ہی بڑے بڑے علما اس کے حامی ہوں۔نظام باطل کے تحت مسلمانوں کے لیے تکلیف اورنقصان کے سوا اور ہو ہی کیا سکتا ہے؟اس تکلیف اور نقصان کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ مسلمان اس نظام کو بدلنے کے لیے جدوجہدکریں،نہ یہ کہ کفر کے زیر سایہ کسی قدر سہولت سے جینے کے لیے شریعت کو موافق حال بنائیں۔

مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے رسائل ومسائل میں سود سے متعلق کئی سوالوں کے جوابات دیے ہیں۔ ایسے ہی اوپر دیے گئے سوال کا جواب” رسائل ومسائل“ کے باب معاشیات اور فصل چہارم سے لیا گیا ہے۔

حوالہ: مولانا مودودیؒ، رسائل ومسائل،باب:معاشیات، فصلِ چہارم:سود، صفحہ نمبر 708

وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے!
وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے!