ہمارے معاشی جادوگر، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت ملکی معیشت کی بہتری کے لیے جو اقدامات کررہی ہے وہ نتیجہ خیز ثابت ہورہے ہیں اور معیشت کا مثبت سمت میں سفر اور استحکام جاری ہے، مہنگائی اور شرحِ سود کم ہوئی ہے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ ہماری معاشی جادوگری کے کمالات پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے حکام محض مطمئن ہی نہیں بلکہ حیران و سرگرداں بھی ہیں کہ صرف چودہ ماہ کے مختصر عرصے میں ہم نے پاکستان کی دیوالیہ کے قریب پہنچی معیشت کو کس طرح سنبھالا دے دیا۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران جناب محمد اورنگزیب نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ حکومت تمام شعبوں میں اصلاحات کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ واشنگٹن میں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ وفود کی سطح پر اور عالمی رہنمائوں سے دو طرفہ ملاقاتوں میں حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے پر تبادلہ خیال ہوا جس کے دوران آئی ایم ایف حکام اور دیگر اداروں کے ذمہ داران نے پاکستان کی معاشی کارکردگی میں بہتری کا اعتراف کیا اور پاکستان پر اپنے اعتماد میں اضافے کا عندیہ دیا۔ وفاقی وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ ملکی بہتری اور مسائل کے حل کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا، ملک کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بہت سے اقدامات کو یقینی بنایا جا رہا ہے، ہم ٹیکس نیٹ کو وسیع کررہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ’منشورِ معیشت‘ کے ساتھ ساتھ قوم کو ’منشورِ ماحولیات‘ پر بھی متحد اور متفق ہوکر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ توقع ہے کہ وزیراعظم محمد شہبازشریف جلد قومی معاشی لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ نے جس طرح کی طفل تسلیاں دینے کی کوشش کی ہے، عوام اب ایسی باتوں سے مطمئن ہونے پر آمادہ نہیں ہیں، کیونکہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے حکمرانوں کی جانب سے اس طرح کے سبز باغ دکھانے کا سلسلہ اب ایک ناقابلِ یقین و اعتماد روایت کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ عام آدمی کو ایسی دور افتادہ اصلاحات سے کوئی سروکار ہے، نہ ہی وہ ان باتوں کو سننے، سمجھنے میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے۔ اُسے شرحِ سود میں کمی بیشی کے فوائد و نقصان سے غرض ہے نہ وہ زرمبادلہ کے ذخائر کے اوپر نیچے جانے کے سود و زیاں سے آگاہی کا خواہاں ہے۔ عام آدمی کو تو صرف ان زمینی حقائق سے غرض ہے جن سے اس کی زندگی براہِ راست متاثر ہوتی ہے، اور جن کے سبب اسے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا، اُن کے لباس، تعلیم، صحت اور دیگر روزمرہ ضروریات پوری کرنا محال ہورہا ہے۔ وہ تو یہ جاننا چاہتا ہے کہ حکومت نے بجلی، گیس، پیٹرول، اشیائے خور و نوش، لباس و پوشاک اور بچوں کی کتب وغیرہ، حتیٰ کہ ادویہ تک پر ٹیکس در ٹیکس کے نفاذ کے ذریعے انہیں عام شہری کی پہنچ سے جس قدر دور کردیا ہے اور ان کی قیمتیں دو، چار یا دس فیصد نہیں کئی سو فیصد تک بڑھا دی ہیں، کیا اس بلاجواز اور ناقابلِ برداشت مہنگائی کے خاتمے کی کوئی تدبیر بھی حکومت کی طرف سے کی جاتی ہے یا خالی خولی باتوں ہی سے غریبوںکے دل بہلانے کا سامان کیا جاتا ہے؟ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق وطنِ عزیز میں غربت کی شرح 38.6 فیصد سے بڑھ کر 39.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے، اور عالمی بینک کے جائزے کے مطابق 2026ء کے مالی سال میں یہ شرح چالیس فیصد تک جا پہنچے گی۔ جب کہ ملک میں بے روزگاری کی صورتِ حال اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ گزشتہ مالی سال جو اقتصادی جائزہ حکومت نے جاری کیا ہے اُس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد ہے جب کہ پندرہ سے چوبیس برس کی عمر کے نوجوانوں میں یہ شرح اس سے بھی کہیں زیادہ 11 فیصد کو چھو رہی ہے، اور یہ کیفیت اس کے باوجود ہے کہ گزشتہ برس کے دوران سولہ لاکھ پاکستانیوں نے ترکِ وطن کرکے بیرونِ ملک جانے کو ترجیح دی۔ حیران کن امر یہ بھی ہے کہ ترکِ وطن کرنے والوں میں پاکستانی سرفہرست ہیں۔ بھارت کی آبادی اگرچہ پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے اور وہاں اقلیتوں کے لیے مسائل بھی پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہیں، مگر ناقابلِ یقین اعداد و شمار کے مطابق ترکِ وطن کرنے والے بھارتیوں کی تعداد صرف پونے دس لاکھ بتائی گئی ہے۔ پاکستان میں حالات سے مایوسی کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ غیر قانونی راستوں سے بیرونِ ملک جانے کا رجحان بھی تیزی سے فروغ پارہا ہے، حالانکہ اس میں ناقابلِ تصور مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں بلکہ آئے روز ایسے غیر قانونی تارکینِ وطن کے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کی اطلاعات بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں، مگر بے روزگاری کے ستائے اور اندرونِ ملک حالات سے پریشان نوجوان لاکھوں روپے قرض اٹھاکر پیشگی ادا کرکے اذیت ناک سفر کی تکلیفیں برداشت کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے مایوس کن حالات کی درست عکاسی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی اصولوں اور قوانین کو پسِ پشت ڈالنے کی وجہ سے ملک میں غربت و افلاس کی شرح بڑھ رہی ہے، وقت آگیا ہے کہ چوروں اور لٹیروں سے قوم کی جان چھڑانے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کی جائے۔ نوجوانوں کو مایوس ہوکر ملک چھوڑنے کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور قومی خزانے پر سانپ بن کر بیٹھی دو فیصد اشرافیہ سے نجات دلاکر ملک و قوم کا مستقل تابناک بنانے کی خاطر مخلص قیادت کی رہنمائی میں آ گے بڑھنا ہو گا کہ بقاء، ترقی اور خوشحالی کا راستہ یہی ہے (حامد ریاض ڈوگر)