پولیس کپتان اصغر خاں صاحب ان چند دنوں میں بہت ہی بے تکلف دوست بن گئے تھے۔ کبھی تھانے کی کینٹین یا میس کے بجائے اپنے گھر سے خصوصی طور پر چائے بھی منگواتے اور باصرار پلاتے۔ میں حیران تھا کہ جس پولیس افسر کے بارے میں لوگوں کو ازحد شکایات ہیں وہ اس قدر شریف النفس اور اتنا اچھا آدمی ہے! چند ہی دنوں میں ایک ’’ملزم‘‘ سے یوں بے تکلفی بڑے تعجب کی بات تھی۔ برسبیلِ تذکرہ موصوف ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی خاندانی روایات کے مطابق سیاسی میدان میں داخل ہوئے تو اپنے علاقے بھکر سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس علاقے سے ہمیشہ نوانی خاندان کے افراد ہی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ اُس وقت تک پرانی گپ شپ کو بہت عرصہ بیت چکا تھا۔
میں کئی سال بیرونِ ملک رہنے کے بعد پاکستان آیا اور جماعت اسلامی کے مرکز میں ذمہ داری ادا کررہا تھا کہ موصوف سے اس عرصے میں دو مرتبہ ملاقات ہوئی۔ ایک بار وہ محترم قاضی حسین احمدؒ صاحب سے ملنے کے لیے منصورہ تشریف لائے تھے اور دوسری مرتبہ کہیں اور کسی محفل میں ملاقات ہوئی تھی۔ پرانی باتیں ان کو بھی خوب یاد تھیں اور مجھے بھی! دونوں ملاقاتوں میں بڑا لطف آیا۔ محترم قاضی حسین احمدؒ صاحب کو اس دور کے واقعات خان صاحب نے سنائے تو قاضی صاحب مرحوم بھی بہت خوش ہوئے۔ اللہ مرحومین کی مغفرت فرمائے۔
میری گرفتاری کے اگلے ہی روز اور بھی کئی طلبہ گرفتار ہوکر تھانہ سول لائنز میں آنے لگے۔ جہانگیر بدر اور اُن کے ساتھی بھی گرفتار ہوکر آچکے تھے۔ وہ کسی دوسرے حوالاتی کمرے میں بند تھے۔ ہمارے ساتھیوں میں سے حفیظ خان، افتخار فیروز، تنویر تابش اور جمعیت کے اکثر ارکان گرفتار ہوکر آگئے۔ ایک دوست نے بتایا کہ حسین پراچہ صاحب گرفتاری کے خوف سے بہت پریشان تھے اور فوراً سرگودھا کو سدھار گئے ہیں۔ مجھے یقین نہ آیا کہ مولانا گلزار احمد مظاہریؒ صاحب جیسی دبنگ شخصیت کا بیٹا اتنا خوف زدہ ہوگیا ہو، مگر بعد میں اس کی تصدیق ہوگئی۔ ہمیں ایک بڑے ہال نما کمرے میں منتقل کردیا گیا۔ اب تو یہاں مستقل طور پر ایک محفل سی لگ گئی تھی۔ شعر و شاعری، لطیفے، چٹکلے، اقامت، نمازیں، تلاوتِ قرآن، درس و تدریس، ملاقاتیوں کا ہجوم، تحفے تحائف… غرض عجیب سماں تھا۔
زاہد بخاری اور نسیم انصاری نے یہاں مجھے بتایا کہ پولیس افسر چودھری صدیق صاحب کو ان کے تھانے سے خصوصی طور پر بلوایا گیا اور پولیس نے ان کی وساطت سے معلوم کرنا چاہا کہ حافظ ادریس کہاں ہے؟ کچھ دیر تو زاہد نے ٹال مٹول کی، مگر پھر اسے پولیس کی موجودگی میں اس کے استادِ محترم پروفیسر عثمان غنی صاحب نے کہا کہ اگر صدیق صاحب کی موجودگی میں حافظ ادریس کو گرفتار نہ کیا گیا تو ممکن ہے گرفتاری کے وقت پولیس کے اہل کار اسے تشدد کا نشانہ بنائیں۔ بہرحال یہ منطق زاہد کو متاثر کر گئی اور وہ اپنے ناظم کو ’’تشدد‘‘ سے بچانے کے لیے اس رات شاہدرہ پہنچ گیا۔
میں نے اس کی بات سنی تو خوب ہنسا اور گرفتار شدگان میں سے جس جس گرفتار ساتھی نے بھی یہ روداد سنی، خوب محظوظ ہوا۔ میرے گاؤں میں تو عجیب سنسنی اور مضحکہ خیز خبریں بھی پہنچیں۔ یہاں تک لوگوں کو بتایا گیا کہ اس شب مجھے حوالۂ پولیس نہ کردیا جاتا تو خدشہ تھا کہ پولیس مجھے گولی مار دیتی۔ خیر جو ہوا سو ہوا۔ ہمارے خلاف مسلسل اخبارات میں بیانات آرہے تھے۔ میں نے ملاقات کے لیے آئے ہوئے ساتھی خلیق ارشد اشرفی چیئرمین ڈی وائی ایف (ڈیموکریٹک یوتھ فورس) کو ایک بیان لکھ کر دیا کہ وہ ان نکات کی روشنی میں اپنی طرف سے پریس کانفرنس کریں یا ایک بیان اخبارات کو جاری کردیں۔ خلیق ارشد اور ڈی وائی ایف کے دیگر ساتھی جمعیتی احباب کے ہمراہ ہر روز دن میں کئی کئی بار ملنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ خلیق ارشد کا وہ بیان اگلے روز کتربیونت کے بعد اخبارات میں چھپا تھا۔
میری گرفتاری کے غالباً دوسرے یا تیسرے روز بارک اللہ خان بھی گرفتار ہوکر آگئے۔ بے چارے خان صاحب کا اس پورے واقعے سے بالکل کوئی تعلق نہ تھا، ان کی ایکشن کمیٹی نے بالواسطہ طور پر تو ممکن ہے اس حادثے میں کچھ کام کیا ہو، مگر ڈائریکٹ ان کا کوئی حصہ نہ تھا۔ مجھے ان کی گرفتاری پر دلی افسوس ہوا۔ دونوں گروپوں کے لوگ مسلسل گرفتار ہوکر آرہے تھے۔ ایک تفتیشی پولیس افسر (غالباً نام محمد رمضان تھا) نے مجھے ایک تہ خانے میں لے جاکر میرا بیان نوٹ کیا، وہ مجھ سے تقریباً دو گھنٹے کی تفتیش کے دوران مختلف قسم کے سوالات بہت مہذبانہ انداز میں پوچھتے رہے۔ میں نے کئی سوالوں کے جواب دیے اور کئی سوالوں کے جواب دینے سے معذوری ظاہر کی۔
بارک اللہ خان صاحب کے بارے میں، مَیں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ اُن کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں جن کا اس واقعے سے تعلق ہے؟ اس پر میں نے جواب دیا ’’میں صرف اپنے بارے میں جانتا ہوں کہ میں وہاں موجود تھا، اور کسی کے بارے میں مَیں کچھ نہیں کہوں گا۔‘‘ ایسے ہی ایک سوال پر میں نے عدالت میں بھی یہی جواب دیا تھا جس پر کرنل نوشاد شنواری نے کہا تھا ’’اچاشیر کا باچہ سارا بوجھ خود ہی اٹائے (اٹھائے) گا۔‘‘
اصغر خان صاحب نے ایک روز عصر کے قریب مجھے اپنے دفتر میں بلایا۔ گرم چائے اور خستہ بسکٹوں سے تواضع کرتے ہوئے کہنے لگے ’’حافظ صاحب! ہم آج طاہرہ مصطفیٰ کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ طاہرہ مصطفیٰ وہی طالبہ رہنما تھیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے کہ وہ ساری جامعہ میں اپنی مخصوص صفات کی وجہ سے ’’معروف‘‘ اور اپنی مثال آپ تھیں۔ جمعیت اور خود میرے خلاف بہت زہر افشانی کرتی تھیں۔ میں اصغر خان صاحب کی یہ بات سن کر سوچ میں پڑ گیا۔ مجھے اُن کا ارادہ اچھا نہ لگا۔ میں نے اُن سے کہا ’’یہ درست ہے کہ طاہرہ ہماری سخت مخالف ہے اور اُس نے ہمارے خلاف خاصا اودھم مچائے رکھا ہے اور ہر طرح کے جھوٹے الزامات کا طومار اب بھی اُس کا خاصہ ہے، مگر میں ذاتی طور پر آپ سے اسلام، انسانیت اور شرافت کے نام پر درخواست کروں گا کہ اُسے گرفتار نہ کیا جائے۔‘‘
اصغر خان صاحب نے مسکرا کر مجھ سے پوچھا ’’کیوں، آپ کی اس رائے کی وجہ کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’پہلی وجہ تو یہ ہے کہ وہ مخالف ہونے کے باوجود جامعہ کی طالبہ اور قوم کی بیٹی ہے۔ میں طلبہ سیاست کے ایک ذمہ دار اور یونین کے منتخب صدر کی حیثیت سے اُس کا بطور طالبہ احترام کرتا ہوں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ کی پولیس فورس جتنی ’’نیک نام‘‘ ہے وہ مجھ سے زیادہ آپ کے علم میں ہے، ابھی خانم کیس کے زخم لوگوں کے دلوں میں بالکل تازہ ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ خانم (پورا نام ذہن میں محفوظ نہیں، نام کے ساتھ خانم لگتا تھا) میرے گاؤں کے قریب کے ایک گاؤں کی لڑکی تھی۔ اُسے کسی کیس میں (جس کی تفصیل مجھے یاد نہیں)کھاریاں پولیس نے پکڑا تھا اور پولیس کسٹوڈی میں اس کے ساتھ پولیس کے کتوں نے ایسا بہیمانہ سلوک کیا تھا کہ بے چاری جان کھو بیٹھی تھی۔ یہ کیس انہی دنوں کا تھا اور اس کی بڑی تفصیلات شہ سرخیوں کے ساتھ ایک سے زیادہ مرتبہ اخبارات میں چھپ چکی تھیں۔
اصغر خان صاحب میری اس بات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انھوں نے میرے دیگر دوستوں اور اپنے ماتحت پولیس افسروں سے بھی تحسین کے انداز میں اس کا ذکر کیا۔ اس گفتگو کے بعد تو وہ مجھ سے اور بھی زیادہ قریب ہوگئے۔ اب چند دنوں میں اُن کے ساتھ کئی مرتبہ نشستیں ہوئیں جن میں وہ مجھ سے یوں گھل مل کر بات کرتے جیسے مدتوں کا دوستانہ ہو، حالاں کہ یہ تو ایسے ہی تھا جیسے سرِراہ کوئی ملاقات ہوتی ہے۔ اب اُن کے ماتحت پولیس کارندوں کے لیے بھی یہ باعثِ تعجب تھا کہ وہ ایک ’’ملزم‘‘ کے ساتھ اتنے بے تکلف ہوگئے ہیں، اگر میں کوئی بات کہتا تو نہایت محبت اور غور سے سنتے۔
چند دن تھانے کی حوالات میں گزارنے کے بعد سمری ملٹری کورٹ میں ہماری دو پیشیاں ہوئیں۔ دوسری پیشی کے بعد ہمیں کیمپ جیل اور جہانگیر بدر اینڈ کمپنی کو کوٹ لکھپت جیل بھجوا دیا گیا۔ تقریباً پندرہ یا بیس دن اسی حال میں گزر گئے۔ جیل سے غالباً تین چار مرتبہ عدالت میں پیشیاں ہوئیں جن میں سے آخری پیشی میں کیس کی سماعت شروع ہوگئی۔ کرنل نوشاد شنواری کیس کی سماعت کررہے تھے۔ چین اسموکر تھے اور پتا نہیں کیوں عدالت میں بھی سگریٹ پینے سے باز نہ آتے تھے۔ جسٹس (ر) ذکی الدین پال (مرحوم) ابھی تک جج نہیں بنے تھے۔ آپ معروف قانون دان تھے اور لاہور ہائی کورٹ و پاکستان سپریم کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے۔ وہ ہمارے ساتھ بطور مشیر عدالت میں بیٹھا کرتے تھے کیوںکہ ان عدالتوں میں وکلا کیس میں بطور وکیل دلائل نہیں دے سکتے تھے۔
عدالت کی کارروائی کے دوران پال صاحب کا خیال تھا کہ ہم لوگ لازماً بری ہوجائیں گے۔ جس روز فیصلہ سنایا جانا تھا اُس سے ایک دن قبل جہانگیر بدر اور ان کے (غالباً) گیارہ ساتھیوں کو ایک ایک سال قید بامشقت کی سزا سنادی گئی۔ اب ہمارا فیصلہ ہونا تھا، پولیس وین میں ہم جیل سے عدالت میں آئے، کرنل شنواری ہم سب کے چہروں کو غور سے دیکھتا رہا۔ پھر ہم سب کو باہر برآمدے میں بھیج دیا۔ خود بھی برآمدے میں نکل کر دیر تک ٹہلتا رہا اور سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہا۔ پھر واپس عدالت میں گیا اور ہمیں دوبارہ عدالت کے کمرے میں طلب کیا گیا، مگر پھر تھوڑی دیر بعد بغیر کچھ کہے سنے دوبارہ واپس باہر بھیج دیا۔ اب پیپلز ہاؤس کے دروازے بند کردیے گئے تھے اور سب حاضرین کو باہر نکال دیا گیا تھا۔ باہر سڑک پر ایک بھاری مجمع لگ گیا تھا۔
میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ وہ سزا سننے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اُس روز محترم ذکی الدین پال صاحب نے مجھ سے سرگوشی کے انداز میں کہا کہ اگر کوئی عدالت ہوتی تو آپ کے بارے میں علامہ علا الدین صدیقی صاحب کی گواہی کے بعد کسی بھی صورت میں آپ کو سزا نہیں مل سکتی تھی، مگر جان لیجیے یہ عدالت نہیں، محض ڈرامہ ہے۔ مخالف فریق کے ساتھ آپ کا معاملہ برابر کیا جانا ہے۔ آپ لوگوں میں سے بھی اتنے ہی طلبہ سزا پائیں گے، جتنے فریقِ مخالف کے سزا پا چکے ہیں۔ میں نے دوستوں کو حوصلہ دیا۔ میں خود تو ذہناً سزا کے لیے بالکل تیار ہوچکا تھا۔
کرنل نوشاد شنواری کے دل میں ایک عجیب طوفان برپا تھا، وہ اپنے دلی جذبات چھپانے کی کوشش کررہے تھے، مگر وہ ان کے چہرے پر عیاں تھے۔ کیا عجیب کشمکش تھی، کچھ دیر بعد اجمل ملک کو بلایا گیا، کرنل نوشاد نے انہیں انگریزی زبان اور پشتو لہجے میں فیصلہ سنایا جس کے مطابق انہیں Acquit کیا گیا تھا، مگر اجمل صاحب سمجھے شاید انھیں Commitکیا گیا ہے۔ ان کی صدائے احتجاج اور دہائی برآمد ے تک سنی گئی، اس لطیفے پر کرنل بھی ہنسے اور ہم بھی محظوظ ہوئے۔ پھر کرنل نے اپنی پختونی اردو میں فیصلہ سنایا جس پر اجمل ملک صاحب نے سُکھ کا سانس لیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے باہر نکلے۔ ایک سپاہی نے انھیں ہم سے ہاتھ بھی نہ ملانے دیا اور پکڑ کر باہر کے گیٹ تک دھکیلتا ہوا لے گیا۔ گیٹ سے باہر دھکا دے کر گیٹ کیپر نے دروازہ فوراً بند کرلیا۔
ہمارے ساتھیوں میں سے اکثر بری ہوئے، سب بری ہونے والوں کو اجمل ملک کی طرح ایک ایک کرکے گیٹ سے باہر دھکیلا جاتا رہا۔ کئی دوست سپاہیوں کی دھکم پیل کے باوجود ہم سے ہاتھ ملانے اور نیک تمنائوں کا اظہار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ افتخار فیروز (مرحوم) تو مجھ سے گلے بھی ملا۔ جب رکن جمعیت عبدالرحیم کی باری آئی تو اسے ایک سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ اس کے ساتھ ہی عبدالرحیم کو برآمدے کے قریب ہی کھڑی ہوئی پولیس وین میں بٹھا دیا گیا۔ پھر یکے بعد دیگرے باقی چار ساتھیوں تنویر عباس تابش، بارک اللہ خان، عبدالجبار قریشی اور اشفاق حسین کو بھی ایک ایک سال کی قید سنائی گئی۔ آخر میں مَیں اکیلا رہ گیا۔
جب مجھے عدالت میں بلایا گیا تو کرنل شنواری کے ماتھے پر پسینے کے قطرات تھے۔ ان کے ایک ہاتھ میں قلم تھا، دوسرا ہاتھ انھوں نے تہ کرکے اپنی ٹھوڑی کے نیچے دے رکھا تھا اور کہنی میز پر ٹکائی ہوئی تھی، چند لمحات کے توقف کے بعد انھوں نے مجھے سزا سنائی ’’آپ کو ایک سال قیدِ بامشقت دی جاتی ہے۔ آپ اگر چاہیں تو رحم کی اپیل کرسکتے ہیں۔‘‘ ممکن ہے ہر ملزم سے یہی کہا گیا ہو۔ بہرحال میں نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’میں رحم کی اپیل کرنے کا قطعاً کوئی ارادہ نہیں رکھتا ۔‘‘
(جاری ہے)