کام کا معیار وقت پر کام پیشہ ورانہ زندگی میں کیا زیادہ اہم ہے؟

ہم سب کچھ نہ کچھ کرتے ہیں یعنی زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہنا لازم ہے۔ جن لوگوں کے پاس سات نسلوں کے لیے کافی دولت ہو اُنہیں بھی کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے، کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ذہن شدید الجھن کا شکار رہتا ہے۔

معاشی جدوجہد ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ ہے۔ کمانے کی ضرورت ہو یا نہ ہو، معاشی جدوجہد لازم ہے کیونکہ اِسی سے زندگی میں معنویت پیدا ہوتی ہے۔ جب ہم کچھ حاصل کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں تب ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہم میں کون کون سی صلاحیت اور کس حد تک سکت موجود ہے۔ جب تک ہم خود کو آزمائش کی بھٹی میں نہیں ڈالتے تب تک معاملات ہماری سمجھ میں نہیں آتے اور زندگی میں خلا سا رہتا ہے۔

جو لوگ کچھ کرتے ہیں، کوئی کام ہاتھ میں لیتے ہیں، اُسے پورا کرنے کی کوشش کے دوران اُنہیں کئی بار ڈیڈلائن دیکھنا ہوتی ہے۔ ڈیڈلائن کو ذہن میں رکھے بغیر کی جانے والی کوئی بھی کوشش ہمارے لیے خاصی الجھن پیدا کرتی ہے۔ نفسیات کے ماہرین نے تازہ ترین تحقیق کی روشنی میں بتایا ہے کہ اگر ہم ڈیڈلائن کے مطابق کام نہ کرپائیں تو ہمارا اچھا کام بھی لوگوں کی نظر میں بُرا ٹھیرتا ہے۔ ڈیڈلائن گزر جانے کے بعد لوگ ہمارے کام کو زیادہ سختی اور بے اعتنائی کے ساتھ جانچتے پرکھتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ہمارے بارے میں اُن کی رائے منفی ہوتی چلی جاتی ہے۔

امریکہ اور برطانیہ کے لوگوں پر تحقیق کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ کسی بھی کام کو غیر معمولی جامعیت کے ساتھ مکمل کرنے کے بجائے ڈیڈلائن کے مطابق پورا کرلینا چاہیے۔ اگر ڈیڈلائن کے بعد کام پورا کیا جائے تو غیر معمولی یا قابلِ رشک معیار بھی کارگر ثابت نہیں ہوتا۔

بہت سے لوگ کسی بھی کام کو زیادہ سے زیادہ جاندار اور شاندار بنانے کے لیے دن رات لگے رہتے ہیں اور ایسے میں ڈیڈ لائن گزر جاتی ہے۔ جس شخص نے کام سونپا ہو وہ اپنی طے کی ہوئی ڈیڈ لائن کے مطابق کام چاہتا ہے۔ جسے کام سونپا گیا ہو اُس کے لیے بہترین حکمتِ عملی یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور کام ڈیڈلائن کے مطابق مکمل کرے اور سبک دوش ہوجائے۔

نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کام کو ٹالتے رہنے سے ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں جن کا بظاہر کوئی جواز نہیں ہوتا۔ ٹال مٹول کی عادت اگر طبیعت کا، مزاج کا حصہ بن جائے تو انسان ڈیڈ لائن کی پروا نہیں کرتا اور کام کو معیاری بنانے کے نام پر محض وقت ضایع کرتا رہتا ہے۔ یہ ایسا رویہ ہے جس کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔

نفسیات کے ماہرین نے طویل مدت تک تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر کوئی کام ڈیڈلائن کے بعد دیا جائے تو اُس کا معیار اہم نہیں ٹھیرتا اور لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ڈیڈلائن نظرانداز کی گئی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ بہت سوں کے نزدیک کام کے معیار سے زیادہ ڈیڈلائن اہم ہوتی ہے، یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اُنہوں نے جس دن کام مانگا ہے اُس دن کام مکمل ہوجانا چاہیے۔ ایسے لوگ معیار کے معاملے میں تھوڑا بہت کمپرومائز بھی کرلیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ڈیڈلائن کے مطابق کام مکمل کرنے میں معیار پر تھوڑا بہت سمجھوتا بھی کیا گیا ہوگا، مگر اِس کی وہ کچھ خاص پروا نہیں کرتے کیونکہ اُنہیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہر انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا، کام میں کہیں نہ کہیں تھوڑا بہت جھول تو رہتا ہی ہے۔

نفسیات کے ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بہت سے لوگ اپنے کام کو ہر اعتبار سے جامع اور بے داغ بنانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اس معاملے میں غیر معمولی زحمت گوارا کرتے ہیں مگر پھر بھی کسی نہ کسی معاملے میں کچھ کسر رہ جاتی ہے۔ عمومی نفسیات یہ ہے کہ کام ڈیڈلائن کے مطابق ہوجانا چاہیے، معیار دیکھا جائے گا۔ جامعیت کے فراق میں رہنے والوں کو لوگ زیادہ پسند نہیں کرتے، یعنی اُن سے کام کروانے کے معاملے میں قدرے ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔

یہ باریک نکتہ بالعموم نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ ڈیڈلائن کے مطابق کام نہ کرنے کی صورت میں دفتری ساتھی بھی الجھن کا شکار ہوتے ہیں اور تھوڑی سی بدمزگی بھی پیدا ہوتی ہے۔

جو لوگ ڈیڈ لائن کی پروا کیے بغیر اپنے کام کو زیادہ سے زیادہ جامع بنانے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں وہ اس حقیقت کو نظرانداز کر بیٹھتے ہیں کہ اُن کی کارکردگی الگ تھلگ معاملہ نہیں ہے بلکہ دوسرے بہت سے معاملات سے جڑی ہوئی ہے۔ جو کام آپ کو دیا گیا ہے وہ بروقت مکمل ہوگا تو دوسرے بہت سے کاموں سے مل کر ایک تصویر بنائے گا۔

ماہرین کی تازہ ترین تحقیق سے یہ عجیب و غریب حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ جو لوگ ڈیڈلائن کے مطابق کام کردیتے ہیں وہ کام کے کمتر معیار کے باوجود داد و تحسین کے مستحق ٹھیرتے ہیں، جبکہ اعلیٰ معیار کا کام کرنے والے ڈیڈلائن کو نظرانداز کرنے پر تنقید کے حق دار قرار پاتے ہیں۔ کسی بھی ورک پلیس میں بنیادی اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ کام وقت پر ہو، پھر چاہے اُس میں تھوڑی سی کمی ہی کیوں نہ رہ گئی ہو۔ جہاں کئی کام مل کر ایک بڑے کام کی تکمیل کرتے ہیں وہاں اس بات کو سخت ناپسند کیا جاتا ہے کہ کوئی ایک کام بھی ڈیڈلائن کے بغیر مکمل ہوا ہو۔

یونیورسٹی آف ٹورانٹو اسکاربورو اور راٹمین اسکول آف مینجمنٹ کے محقق پروفیسر سیم میگلیو کہتے ہیں کہ ڈیڈلائنز کام کرنے والوں کی ذہنیت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اور یہی نہیں بلکہ اِس سے متعلقین بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ کسی دفتر میں اگر کوئی شخص ڈیڈلائن کے مطابق کام نہ کرتا ہو تو اُس کے ساتھی بھی الجھ جاتے ہیں کیونکہ اِس سے اُن کا اپنا کام بھی متاثر ہوتا ہے۔

امریکہ اور برطانیہ میں ہزاروں منیجرز، ایگزیکٹوز، ہیومن ریسورس پرسونیل اور دوسرے ورکرز کے سروے سے معلوم ہوا کہ ڈیڈلائن کے مطابق کام کرنے کی اہمیت ہے، کام کا معیار ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔

مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں سے پوچھے جانے والے سوالات کی روشنی میں اس امر کا جائزہ لیا گیا کہ کام اہم ہے یا ڈیڈلائن؟ اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہر حال میں اہمیت ڈیڈلائن کی ہے۔ اگر کسی نے ڈیڈلائن کے مطابق کام مکمل کرلیا تو سمجھ لیجیے وہ جیت گیا۔ اپنے کام میں ہیرے ٹانکنے والوں کی کچھ خاص اہمیت نہیں ہوتی۔ ہر شعبے میں آجر یا انچارج یہ چاہتا ہے کہ کام ڈیڈلائن کے مطابق مکمل کیا جائے۔ کام کا معیار وہ ضرور بلند دیکھنا چاہتے ہیں مگر اِس کے لیے وہ ڈیڈلائن کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ جانتے ہیں کہ اچھے کام میں وقت لگتا ہے مگر اُنہیں اپنی ڈیڈلائن کی فکر لاحق ہوتی ہے تاکہ نیا کام شروع کروایا جاسکے۔ اگر کوئی ڈیڈلائن مِس کردے تو کئی کام رُل جاتے ہیں۔

یہ نکتہ بھی بالعموم نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ جو لوگ ڈیڈلائن کے مطابق کام نہیں کرتے اُن کے بارے میں ایک عمومی تصور یا تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے کام میں زیادہ جذب نہیں ہوتے، خاطر خواہ دلچسپی نہیں لیتے۔ اُنہیں سُست یا کاہل سمجھنے کا رجحان بھی زور پکڑتا جاتا ہے۔

اِس سوچ کا ایک انتہائی خطرناک اور منفی نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ ڈیڈلائن کے مطابق کام نہ کرنے والوں کو مزید کام سونپنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ جن کی نظر میں ڈیڈلائن ہی سب کچھ ہو اُن کے لیے ہر وہ انسان اچھا ہے جو ڈیڈلائن کے مطابق کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اِس میں خاطر خواہ دلچسپی لیتا ہو۔

اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ڈیوڈ فینگ کے ساتھ تحقیقی مقالہ لکھنے والے پروفیسر سیم میگلیو کہتے ہیں کہ جہاں ڈیڈلائن ہی سب کچھ ہو وہاں کام کرنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ اُن سے جامعیت کی توقع نہیں کی جاتی۔ جامعیت وہاں کارگر رہتی ہے جہاں اِس کی ضرورت ہو اور اِسے اہم سمجھا جائے۔

معروف جریدے آرگنائزیشنل بیہیویئر اینڈ ہیومن ڈیسیشن پروسیسز میں شایع ہونے والے مقالے میں لکھا ہے کہ کسی بھی کام کو ڈیڈلائن سے خاصا پہلے کردینے سے بھی کچھ خاص مثبت اثرات مرتب نہیں ہوتے، اور ڈیڈلائن گزرنے کے بہت بعد کام مکمل کرنے کی صورت میں تو خیر شدید منفی تاثر ابھرتا ہی ہے۔

نفسیات کے ماہرین نے ایک عجیب حقیقت کا بھی پتا لگایا ہے جسے انہوں نے planning fallacy کا نام دیا ہے۔ بہت سوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وقت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور اپنے کام کا معیار بلند کرنے کے چکر میں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی وقت ضایع کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر ڈیڈلائن مِس بھی کررہے ہوں تو متعلقہ انچارج یا منیجر کو مطلع کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ وہ فرض کرلیتے ہیں کہ اگر اُنہوں نے کام وقت پر مکمل نہ کیا تو لوگ خود سمجھ لیں گے کہ وہ کام کے معیار پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہتے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ڈیڈلائن کا خیال نہ رکھنے کا نقصان اٹھانے کے بعد بھی لوگ اپنا رویہ درست نہیں کرتے۔

جو لوگ حقیقت پسندانہ انداز سے منصوبہ سازی نہیں کرسکتے اُن کے معاملات میں ایسی ہی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ وقت سب سے بڑی چیز ہے اور وقت کو نظرانداز کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ کاروباری یا پیشہ ورانہ معاملات میں وقت ہی سب کچھ ہے۔ اگر کوئی وقت کی قدر و قیمت کو سمجھنے میں کامیاب ہوجائے تو ڈیڈلائن کی اہمیت کو کبھی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اپنے طور پر بہت کچھ فرض کرلینے سے کچھ نہیں ہوتا، بنیادی سوال یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو اپنے کام کے ماحول سے کس حد تک متعلق رکھ پاتے ہیں؟