اسرائیلی قیادت جس نے اپنی قوت کے بل پر فلسطین کی زمین پر قبضہ کیا، اب خود اپنی ریاست کے حوالے سے خود اعتمادی سے محروم ہے
طوفانِ اقصیٰ کا معرکہ اسرائیل کے زوال اور اس کی عسکری قوت کو خاک میں ملانے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ مجاہدین کی جنگی حکمتِ عملی نے عسکری دنیا میں تحقیق کے نئے رجحانات پیدا کردیے ہیں، کہ افرادی وجنگی آلات کی قلت کے باوجود مضبوط حکمتِ عملی کے ذریعے سے اسرائیل کی عسکری طاقت کو جسے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا، کس طرح خوف وہراس میں مبتلا کردیا ہے۔ اس معرکے نے اسرائیل کے انٹیلی جنس اور آئرن ڈوم سسٹم کو فیل کردیا ہے۔
بنیادی طور پر اسرائیلی قیادت جس نے اپنی قوت کے بل پر فلسطین کی زمین پر قبضہ کیا، اب خود اپنی ریاست کے حوالے سے خود اعتمادی سے محروم ہے جس کی بنا پر اعلیٰ قیادت سے لے کر نچلی سطح تک مایوسی اور خوف کے بادل چھائے رہتے ہیں۔
عالمی صہیونی تنظیم کے سابق صدر نہم گولڈ نے اپنی کتاب ’’جی جیوس پیراڈکس‘‘ میں اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان سے 1956ء میں ہونے والی تفصیلی ملاقات کا احوال بیان کیا ہے، اس دوران ڈیوڈ بن گوریان نے کہا: ’’میں ستّر سال کا ہونے جارہا ہوں، اگر آپ مجھ سے پوچھتے کہ کیا مجھے اسرائیل کی ریاست میں دفن کیا جائے گا؟ میرا جواب مثبت ہوتا، کیوں کہ دس یا بیس سال بعد یہودی ریاست قائم ہوجائے گی، لیکن اگر آپ مجھ سے میرے بیٹے عاموس کے بارے میں پوچھیں کہ وہ بھی یہودی ریاست میں دفن ہوگا؟ تو میں اس حوالے سے 50 فیصد اعتماد کے ساتھ جواب دوں گا کہ وہ اپنی ریاست میں دفن کیا جائے گا۔‘‘
اسرائیل کے پہلے وزیراعظم کی اپنی اولاد سے متعلق مایوس کن رائے اس بات کا مظہر ہے کہ اپنی ریاست کے قیام میں وہ عدم اعتمادکا شکار تھے، اس کی بینادی وجہ یہی ہے کہ ان کا سامنا ایک ایسی قوم سے ہے جو ایمان بااللہ کی قوت سے مالامال ہے، اور فلسطین کی آزادی کے لیے اپنی ہر شے قربان کرنے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتی ہے۔
اس خوف اور مایوسی کا اندازہ طوفانِ اقصیٰ کے بعد لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی شہری اپنی فوج سے مایوس ہوچکے ہیں۔ غزہ میں جاری جنگ کے ایک سال گزرنے کے بعد عبرانی چینل کی طرف سے ’’کنٹر‘‘ انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے کیے گئے سروے میں 38 فیصد اسرائیلی شہریوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ان کا ملک جنگ ہار چکا ہے، جبکہ 27 فیصد نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اسرائیل جیت گیا، اور باقی 35فیصد نے کہا کہ وہ خاص طور پر نہیں جانتے کہ کون جیتا ہے۔ اسرائیلی شہریوں کی اس رائے سے معلوم ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر 7 اکتوبر2023ء کا واقعہ ان کے ملک کے لیے خطرہ بن چکا ہے، اور یہ حملہ ان کی یادداشت سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
اسرائیل کی عسکری قیادت اور عسکری وسیاسی تجزیہ نگار غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا ایک سال گزرنے کے بعد اس امر کا اظہار کررہے ہیں کہ اس جنگ نے اسرائیل کی چولیں ہلادی ہیں۔ تل ابیب یونیورسٹی کے دیان سینٹر میں فورم فار فلسطین اسٹڈیز کے سربراہ مائیکل ملسٹین نے ’’نئے مشرق وسطیٰ کے خواب اور اس کے خاتمے کے بارے میں‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ جنگ کی پہلی برسی، کہ 7 اکتوبر تنازعے کی تاریخ کا سب سے خونیں دن تھا، اور یہ ایک ایسے محاذ پر حیران کن ہے جسے براہِ راست خطرے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا، ایک صدمہ جو یہودیوں کی اجتماعی یادداشت میں باقی رہے گا۔
عبرانی اخبار ”Zo Hedrech” میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ممتاز مصنف Avishai Erlich نے کہا ’’گزشتہ سال ریاست اسرائیل کی تاریخ کا بدترین سال تھا، اس طویل جنگ میں ملک کا مستقبل دھندلا دکھائی دیتا ہے،اور یہ ایک ایسی لڑائی ہے جو غیر معینہ مدت تک جاری رہے گی۔‘‘
اس جنگ کے بعد پورا عالم، اسرائیل کی حقیقت جان چکا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر فلسطین میں نسل کُشی کررہا ہے، اور اس کی بہادری صرف یہی ہے کہ اس نے اُن پر ہزاروں ٹن بارود برسا کر90 فیصد غزہ کو تباہ وبرباد کردیا ہے، 43 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے، جبکہ ہزاروں کی تعداد میں عمارتوں کے ملبے تلے دفن ہوچکے ہیں۔ ہزاروں افراد شدید زخمی ہیں۔ اس نے اپنی وحشت کا اظہار کرتے ہوئے وہاں کی962 مساجد،36 کنیسے،470 سے زائد مدارس وجامعات،276 سے زائد اسپتال،205 سے زائد حکومتی اور 430 سے زائد عام عمارتوں کو تہس نہس کردیا ہے۔ لیکن عصر حاضر کے جدید اسلحے سے لیس فوج، مجاہدین سے اپنا ایک قیدی بھی نہیں چھڑا سکی ہے۔ اس سے بڑھ کر ذلت ورسوائی اور کیا ہوسکتی ہے کہ میدانِ جنگ میں موجود افراد سے مقابلہ کرنے کے بجائے پُرامن شہریوں پر اپنا غصہ نکالا جارہا ہے۔ یہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اسرائیل اپنے اہداف ومقاصد کے حصول میں ناکام ہوچکا ہے۔
فلسطین اسرائیل جنگ کی طوالت سے ہمارے ہاں یہ تاثر وسعت اختیار کرتا جارہا ہے کہ مجاہدین ہتھیار ڈال دیں اس لیے کہ جنگ کا آغاز مجاہدین نے کیا ہے، اور مسلمانوں کی شہادت کے ذمہ دار مجاہدین خود ہیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسرائیل اپنے قیام کے وقت سے اہلِ فلسطین پر ظلم وستم ڈھا رہا ہے، اور ہر دفعہ جنگ میں پہل اس کی جانب سے کی جاتی رہی ہے۔ مزید یہ کہ اس نے سفارتی، سیاسی اور ابلاغی دنیا میں یہ تاثر قائم کرلیا تھا کہ فلسطین یہودیوں کی ملکیت ہے، اس کی آزادی کے لیے تگ ودو کی جارہی ہے، اور اقوام متحدہ میں نیتن یاہو نے دنیا کا نقشہ پیش کرتے ہوئے یہ باور کروایا کہ دنیا میں فلسطین نامی کوئی ریاست نہیں ہے۔ اس طرح فلسطین کے مسئلے کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ عالمی سطح پر اسرائیل اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ اور فلسطین کے مغربی کنارے پر ظلم ڈھائے ہوئے تھا۔ جبکہ حماس نے قومی وبین الاقوامی سطح پر فلسطین کی آزادی کے لیے سیاسی اور قانونی طور پر جدوجہد کی، ادارۂ اقوام متحدہ فلسطین کے حق میں 700 سے زائد قراردادیں پاس کرچکا ہے، لیکن اسرائیل نے کسی قرارداد کا پاس نہیں کیا۔ اس پورے منظرنامے میں اس معرکے کا آغاز کیا گیا کہ دشمن طاقت کی زبان ہی سمجھتا ہے۔ اس معرکے نے دشمن کے رعب ودبدبے کو خاک میں ملادیا ہے اور دنیا کے سامنے اس کو سیاسی، اقتصادی، ابلاغی دنیا میں شکست دے دی ہے، اور مغربی دنیا میں اسرائیل سے متعلق رائے تبدیل ہوچکی ہے۔ اسرائیل ہی نسل کشی اور وحشت وسفاکی کا ذمہ دار ہے اور اہلِ فلسطین مظلوم ہیں۔