سندھ میں ڈاکو راج : جسٹس صلاح الدین پنہور کے ریمارکس

معروف کالم نگار منظور کھوسو نے بروز اتوار 10 نومبر 2024ء کو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدرآباد میں اپنے زیر نظر کالم میں جو خامہ فرسائی کی ہے اس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے:

’’اخبارات اور نیوز چینلز پر پڑھتے اور سنتے آئے ہیں اور باضمیر صحافی لکھتے بھی رہے ہیں کہ جرائم میں جہاں دیگر عوامل شامل ہیں، وہیں کسی نہ کسی طور سے علاقے کے بھوتار (وڈیرے، جاگیردار وغیرہ) اور پولیس بھی ذمہ دار ہیں، ورنہ دوسری صورت میں ایک بدمعاش کو تو یہ جرأت ہی نہیں کہ وہ کسی بھی امیر، دولت مند کو لوٹے یا راہ چلنے والوں سے ڈکیتی یا اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرتا پھرے۔ ان باتوں کی تردید بھی ہوتی رہی ہے نیز ان پر تنقید بھی۔ ماضی میںکچھ باضمیر پولیس افسران کی بھی اس نوع کی رپورٹیں منظرعام پر آتی رہی ہیں کہ سندھ میں بھوتاروں، میروں، پیروں کے القاب سے پکارے جانے والے علاقے کے بااثر افراد کس طرح سے جرائم پیشہ عناصر کے یار، ہم پیالہ اور ہم نوالہ بنے رہتے ہیں۔ دکھ سُکھ میں بھوتار کس طرح سے ان کے کام آتے ہیں اور پولیس کو دبائو میں لاکرمجرموں کو سہولیات بہم پہنچاتے ہیں۔ بہرحال اخبارات کی خبروں کو اکثر سرکار مخالف اور انقلاب کے رومانس میں مبتلا بعض جذباتی صحافیوں کی خبر کہہ کر نظرانداز بھی کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن آج ہم یہاں بات کریں گے سرکاری خبر کی، اور خبر بھی وہ جو ایک اعلیٰ عدالت کے جسٹس کی زبان سے ادا ہوئی ہے۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ تو کوئی اور خبر معتبر ہو ہی نہیں سکتی، اور اس خبر میں جن پر بھی چھینٹے پڑے ہیں تاحال ان حلقوں میں سے کسی نے اس کی تردید کی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی تنقید… اور نہ ہی ایسا ہونے کا کوئی امکان ہے۔ لہٰذا اب اس حوالے سے اس خبر کو صد فیصد سچ ہی گردانا جائے گا۔

بہت سے اخبارات اور کئی نیوز چینلز پر یہ خبر آئی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے نامور جسٹس جو اپنے فیصلوں اور منصفی کی بنا پر سندھ بھر میں بے حد شہرت اور نیک نامی کے حامل ہیں، یعنی جسٹس صلاح الدین پنہور صاحب، جنہوں نے وکلا کی طرف سے داخل کردہ ایک کیس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’سندھ میں سرداروں کی وجہ سے ڈاکو آزاد گھوم رہے ہیں، کیا آج تک کسی ایک پر کیس داخل ہوا ہے؟ پولیس صرف غریبوں کے خلاف ہی کارروائی کے لیے تیار رہتی ہے، ساری خرابی پولیس میں ہے، اس میںاتنی جرأت ہی نہیں ہے کہ وہ کسی بڑے آدمی کی گاڑی کو روک سکے۔ ایک کانسٹیبل کیمرا لگاکر کھڑا ہوجائے۔ بڑا آدمی ہو یا پھر کوئی بھی سیاست دان… اسے کھڑا ہونا پڑے گا، لیکن پولیس کو دیدہ دانستہ کمزور بنایا گیا ہے۔ پولیس تو قتل تک کا کیس داخل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتی۔ آخر وہ کرتی کیا ہے؟‘‘

قبل ازیں مارچ 2023ء میں جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس مبین لاکھو پر مشتمل ایک ڈویژن بینچ نے امن وامان سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ ’’سندھ میں بُھنگ (اغوا برائے تاوان) کی وارداتیں ایک انڈسٹری بن چکی ہے، جس کی سالانہ آمدنی دو ارب روپے ہے۔ جسٹس نے آئی جی سندھ سے مخاطب ہوکر کہا کہ پولیس کو نشاندہی کرنی چاہیے کہ آخر ڈاکوئوں کی سہولت کاری کون کررہا ہے؟ جسٹس پنہور نے اس کیس میں کہا کہ کچے میں ڈاکوئوں کے خلاف پولیس، رینجرز اور آرمی کے جوائنٹ آپریشن کے سوا دوسرا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ فوجی مدد کے لیے آئی جی سندھ کابینہ کو لکھیں اور ہمیں بھی تحریری صورت میں بتائیں کہ آخر یہ مسئلہ کب حل ہوگا؟

18 ماہ گزرنے کو ہیں یہ مسئلہ حل تو نہیں ہوسکا ہے البتہ دن بہ دن اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے جس کی ایک بڑی مثال ضلع کندھ کوٹ کشمور میں برپا کہرام ہے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور کی ساری ہی باتیں مبنی برحقیقت ہیں۔ یہ ایک امر واقع ہے کہ پولیس کو گزشتہ ایک طویل عرصے سے جان بوجھ کر کمزور بنادیا گیا ہے۔ ہر سرکاری کھاتے (محکمے) میں مداخلت عام ہے۔ ہر دور میں ہی محکموں کی بندر بانٹ کرکے انہیں سیاست دانوں کو دے دیا جاتا ہے، اور پھر انہی کی فرمائش پر میرٹ کا قتلِ عام کرکے محکموں کے افسران بھی مقرر کردیے جاتے ہیں جن میں سرفہرست تعلیم، صحت، ریونیو، روڈز اور پولیس شامل ہیں۔ دوسرے (دیگر) محکموں کی تباہی تو ہوچکی ہے جہاں کروڑوں روپے کی کرپشن، بوگس بھرتیوں اور جعل سازیوں کے قصے عام ہوکر ایک معمول بن چکے ہیں، بلکہ محکمہ پولیس جیسے حساس ادارے کا بھی اتنا زیادہ ابتر اور خراب حال کردیا گیا ہے کہ اس پر آج ایک کھلی عدالت میں ایک ڈویژن بینچ کے سربراہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے اپنے مذکورہ ریمارکس دیے ہیں۔ جب کسی بھی ضلع کا ایم پی اے، ایم این اے یہ چاہے گا کہ ضلع میں میری پسند کا ہی ایس ایس پی رکھا جائے، جو صرف میری ہی جی حضوری میں لگا رہے، ایس ایچ او میری فون کال سن کر کسی کو بھی گرفتار یا پھر رہا کردے تو ایسے حالات میں آخر امن وامان کس طرح سے قائم یا برقرار رہ سکتا ہے؟ ظاہر ہے ایسے میں تو پھر پولیس محض غریبوں کے خلاف ہی اپنے اختیارات کا استعمال کرے گی۔ زورآور اور طاقتور تو اپنی ہی طرح کے طاقتوروں کے دوست، مددگار اور یار ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے تو قانون بے بس اور لاچار ہی دکھائی دے گا اور تمام تر قانونی شکنجے صرف غریبوں ہی کو جکڑنے کے لیے تیار رہیں گے۔ جب تک محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت ختم نہیں کی جائے گی اور اس میں افسران کا تقرر خالصتاً میرٹ پر روبہ عمل نہیں لایا جائے گا اُس وقت تک سندھ میں امن وامان کا قیام ناممکن ہی بنارہے گاکندھ کوٹ کشمور سمیت دیگر کئی اضلاع میں آج صورتِ حال اتنی بدترین ہوچکی ہے کہ ہر دن ڈاکو متعدد افراد کو اغوا برائے تاوان کی غرض سے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ایک طرف بہ مشکل مغوی لاکھوں روپے ادا کرکے ڈاکوئوں کے قبضے سے آزاد ہوتے ہیں تو دوسری طرف مزید کئی افراد ڈاکو اغوا کرکے لے جاتے ہیں۔ شمالی صوبہ سندھ کے کئی شہروں کے بہت سارے گھروں میں آج بھی اس وجہ سے کہرام بپا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ 72 گھنٹوں میں 8 مزید افراد اغوا ہوچکے ہیں۔ حکومتِ سندھ کو جسٹس صلاح الدین پنہور کے ریمارکس پر توجہ دے کر فی الفور عمل کرنا چاہیے۔ اس وقت اہلِ سندھ سخت احساسِ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان کے جان اور مال کی حفاظت ریاست کی اہم ذمہ داری ہے۔