’’دقتِ نظر‘‘

میں نے ایک بار اپنے کسی مضمون میں ’’دقتِ نظر‘‘ استعمال کیا تھا۔ کاتب نے کہا ’’دقتِ نظر‘‘ کیا؟ بخاری بہک گیا ہے۔ درحقیقت اس کا مطلب ’’وسعتِ نظر‘‘ ہے، چناں چہ میرے اس بہی خواہ نے ”دقتِ نظر‘‘ کو ’’وسعتِ نظر‘‘ بنادیا۔

اس نیک دل انسان کو کیا معلوم کہ بخاری کی ساری عمر ’’دقتِ نظر‘‘ اور ’’وسعتِ نظر‘‘ کے جھگڑے میں کٹ گئی ہے۔

یہ بلائے حسن کہاں نہیں مگر اپنے واسطے قحطِ حسن
تمھیں کیا بتاؤں نظر کے ساتھ جو دقتِ نظری رہی

دنیا میں حسن کی کمی نہیں، جدھر دیکھو حسن ہی حسن ہے ، مگر صرف اُن لوگوں کے لیے، جن کو خدا نے وسعتِ نظر عطا فرمائی ہے۔ مثلاً داغؔ:

الٰہی کیسی کیسی صورتیں تُو نے بنائی ہیں
کہ ہر صورت کلیجے سے لگا لینے کے قابل ہے

جو حسن نظر آیا، اسی سے عشق کرکے جی بہلایا۔ چلو نہ رات کی نیند حرام ہوئی نہ دن کا چین گیا اور نہ انتخاب کا مسئلہ درپیش آیا۔ اگر ’’دقتِ نظری‘‘ ہو اور انتخاب کا قضیہ آپڑے تو پھر حالی کی ہم نوائی کرنا پڑتی ہے:

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں

اسی دقتِ نظر کا مارا بیٹھا ہوں۔ خاک کی چٹکی پر اکسیر کا گمان کرکے قناعت تو کرلیتا ہوں مگر نگاہِ انتخاب مچلتی رہتی ہے۔ اس خاک کی چٹکی کو قبلہ نما تو سمجھ لیتی ہے، قبلہ ماننے پر تیار نہیں ہوتی:

ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود !
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں

نتیجہ یہ ہوا کہ دوست یکے بعد دیگرے میری زندگی میں آتے رہے اور قبلہ نمائی کا فرض ادا کرکے اپنی اپنی راہ لیتے رہے۔ بعد میں آنے والا ہر دوست پہلے دوست کی بتائی ہوئی منزل سے آگے لے جاتا رہا، حتیٰ کہ وہاں آپہنچا ہوں جہاں آج ہوں۔
اب تھک گیا ہوں۔ اب یہ سمجھ لیا ہے اور یقین سا ہوگیا ہے کہ بس اس سے آگے ہُو کا میدان ہے۔ اللہ بس باقی ہوس!
حسن تو وہی رہتا ہے البتہ دیکھنے والے کی نگاہ بدل جاتی ہے۔ اگر نگاہ نہ بدلے اور انسان ایک ہی دوست پر اکتفا کرے تو یوں سمجھیے کہ انسان ساری عمر ایک ہی کتاب پڑھتا رہے۔ اب ایسی کتاب تو قسمت والوں کے ہاتھ آتی ہے کہ جب پڑھو اس میں کوئی نیا نکتہ نظر آئے۔ یعنی معاملہ کچھ ایسا ہو کہ:

حدیثِ دل کش و افسانہ از افسانہ می خیزد
دگر از سر گرفتم قصہ زلفِ پریشاں را

(”سرگزشت“،آپ بیتی، زیڈ اے بخاری)