کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن پر خودکش دھماکہ

یہ واقعات حکومتوں اور سیکورٹی اداروں کی قطعی ناکامی کی غمازی کرتے ہیں

کوئٹہ کے ریلوے اسٹیشن کے اندر 9 نومبر کو ہونے والے خودکش بم حملے نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے امن کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ پیش ازیں کوئٹہ سے متصل مستونگ شہر میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں 5 معصوم بچوں سمیت 8 افراد کی جانیں گئیں۔ ان کی فاتحہ خوانی کے لیے وزیراعلیٰ اور وزراء تو دور کی بات۔۔ ضلعی انتظامیہ کے افسران تک نہیں گئے۔ ریلوے اسٹیشن خودکش دھماکے میں 27 افراد جاں بحق ہوئے جن میں فورسز کے 15 اہلکار شامل ہیں۔ 60سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں نصف سیکورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ اسی دن وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کوئٹہ پہنچ گئے۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی بیرونِ ملک تھے، انہیں بھی فوری پہنچنے کی ہدایت ملی، سو وہ بھی پہنچ گئے۔ کوئٹہ میں فوجیوں کی نمازِ جنازہ ادا کردی گئی، سی ایم ایچ میں زخمیوں کی عیادت کی گئی، اعلیٰ سطحی اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہوا، مسلح گروہوں کے خلاف قانونی کارروائی کی باتیں ہوئیں۔ کہا گیا کہ دہشت گردوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب حکمتِ عملی تبدیل کردی جائے گی۔ محسن نقوی نے کہا تھا کہ بلوچستان میں مسلح گروہ ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔ اِس بار وہ گفتگو میں محتاط رہے۔ اب کہتے ہیں کہ ایس ایچ او والی بات انہوں نے علامتی طور پر کہی۔ بہرحال یہ واقعات حکومتوں اور سیکورٹی اداروں کی قطعی ناکامی کی غمازی کرتے ہیں۔

بلوچستان حکومت کے بجٹ میں سالانہ اربوں روپے فرنٹیئر کور کے لیے مختص ہیں۔ سرحدی علاقوں میں ایرانی سرحد یا افغان سرحد سے آنے والے پیٹرول اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ پر بھی ان کی رقم فکس ہے۔ کسٹم کے اختیارات بھی ان کے پاس ہیں لیکن اسمگلنگ پھر بھی عروج پر ہے۔ اسی طرح کوئٹہ اور دیگر اضلاع میں کوئلہ کان مالکان اور ٹھیکے داروں سے فی ٹن رقم الگ مخصوص ہے جو ان سے سیکورٹی کے نام پر لی جاتی ہے۔ رقم مسلح گروہ بھی لیتے ہیں۔ دو عشروں سے زائد عرصے پر محیط شدت پسندی کا تدارک نہیں ہوسکا ہے۔ ان گروہوں سے تعلیم یافتہ نوجوان وابستہ ہوتے جارہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں خودکش حملہ کرنے والی خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ یہاں نظام کی توجہ کئی طرف بٹی ہوئی ہے۔ سیاسی حریفوں کو انتقام کا نشانہ بنانے پر ساری توانائیاں وقف ہیں۔ یہ سیاسی عمل میں دخیل ہیں۔ جب کئی کئی کام کیے جائیں گے تو امن کیسے قائم ہوگا؟ مسلح گروہوں کا خاتمہ کیسے یقینی ہوگا؟

یقیناً دو عشروں سے زائد مدت سے آپریشن بھی جاری ہے، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن بھی کبھی رکے نہیں، مگر اس کے باوجود امن قائم نہیں ہوسکا۔ یعنی آپریشن اور طاقت کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔ اب یہ اربابِ اختیار کا کام ہے کہ وہ صوبے میں امن اور قرار کے لیے دوسری کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔ یہاں تک کہ صوبے کی حکومت کا پورا انصرام ان کے ہاتھ میں ہے۔ مرضی کا انتخابی نتیجہ الیکشن کمیشن سے بنوایا گیا، گویا صوبے میں حکومت حسبِ خواہش بنوائی گئی ہے۔ ہمنواؤں کی حکومت ہے جو ایسے واقعات پر مذمتی بیانات جاری کرکے اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئٹہ سمیت کئی اضلاع میں باہر سے اپنی مرضی کے انتظامی افسران لا بٹھائے گئے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے دوران جو شرمناک ہتھکنڈے استعمال ہوئے، ظاہر ہے یہ ہتھکنڈے اور وارداتیں شہبازشریف اور زرداری کے بس کی بات نہیں۔ حمایت کے لیے دھونس اور زور کے ذریعے ارکانِ پارلیمنٹ مجبور کیے گئے جن میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے دو اراکینِ سینیٹ نسیمہ احسان اور قاسم رونجھو بھی شامل ہیں۔ بی این پی نے ان دونوں کو، دیرینہ نظریاتی کارکنوں کو نظرانداز کرکے سینیٹ میں کامیاب کرایا تھا۔ نسیمہ احسان کیچ سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر سید احسان شاہ کی اہلیہ ہیں جو وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے معروف ہیں۔ صرف چوبیس گھنٹے پہلے پارٹی میں شمولیت کے اعلان پر نسیمہ احسان کو ٹکٹ دیا گیا مگر کامیابی کے بعد انہوں نے پارٹی میں باقاعدہ شمولیت ہی نہیں کی، اس بناء پر بی این پی پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پر اُن کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کرسکتی۔ جمعیت علماء اسلام 26ویں آئینی ترمیم کی تخریب میں شامل تھی۔ اس کے ایک سینیٹر عبدالشکور غبیزئی نے بھی اپنے اغوا کا شور مچایا حالاں کہ مولانا فضل الرحمان برضا و رغبت اس عمل میں شریک تھے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے حالیہ انتخابات میں بھی بلوچستان سے رئوف عطا ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر گروپ سے امیدوار تھے جن کا تعلق جے یو آئی سے ہے۔ اُن کی اہلیہ بلوچستان اسمبلی کی رکن ہیں، اور اس سے پہلے بھی کئی بار رکن رہ چکی ہیں۔ رئوف عطاء بلوچستان سے ہار گئے تھے البتہ باقی صوبوں سے جتوائے گئے۔ بلوچستان کے وکلاء نے انہیں اپنا نمائندہ تسلیم کرنے سے انکار کیا، اور یہاں تک کہا کہ رئوف عطاء ایڈووکیٹ وکلاء کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے ہیں۔

بلوچستان آئینی طور پر خودمختار نہیں رہا ہے۔ یہاں کے نوجوان اور ہر طبقہ فکر کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صوبے کی نکیل اداروں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ شکنجے مزید کسے گئے ہیں۔ نوٹیفکیشن جاری ہوا کہ آئندہ کوئٹہ سے گریڈ سترہ سے اوپر کے افسران کی تعیناتی، پروموشن بشمول ڈپٹی کمشنر کی تقرری وغیرہ آئی ایس آئی کی تصدیق کے بعد ہوسکے گی۔ چنانچہ اب بیوروکریسی کے ہاتھ پاؤں مزید باندھ دیے گئے ہیں۔ وہ مخصوص ہدایات اور احکامات کے پابند ٹھیرائے گئے ہیں۔ ان تمام اقدامات سے بلوچستان کے لوگ مزید بدظن ہوتے جارہے ہیں۔ صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت عدم شفافیت اور حالات بد سے بدتر کرنے کا باعث بنی ہوئی ہے۔

ریلوے اسٹیشن دھماکے کے بعد کہا گیا کہ حملہ آور کے جسم کے اعضاء کا فرانزک ٹیسٹ کیا جائے گا اور شناخت کے لیے نادرا سے معاونت لی جائے گی۔ حالاںکہ اس سانحے کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے حملہ آور کی تصویر اور نام بھی جاری کردیا۔ حملہ آور محمد رفیق بزنجو کا تعلق حب چوکی سے بتایا گیا ہے۔ حملہ دراصل آرمی کے نان کمیشنڈ افسران پر تھا جو کوئٹہ میں تربیتی کورس کے لیے آئے تھے اور کورس مکمل کرکے ٹرین کے ذریعے واپس آبائی علاقوں کو جارہے تھے۔ اس کی زد میں ریلوے ملازمین اور عام مسافر بھی آئے۔