علامہ سید سلیمان ندوی بحیثیت مؤرخ

علامہ سید سلیمان ندوی (1884ء۔1953ء) علامہ شبلی نعمانی کے لائق شاگرد اور متعدد علمی و تاریخی کتابوں کے مصنف تھے۔ سید سلیمان ندوی جب اعلیٰ تعلیم کے لیے 1901ء میں دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ میں داخل ہوئے اور 1908ء میں تعلیم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ندوہ ہی میں عربی ادب کے استاد مقرر ہوئے تو علامہ شبلی کی صحبت بھی نصیب ہوئی۔ شبلی نے جوہرِ قابل سمجھ کر سید سلیمان ندوی کی خصوصی تربیت کی اور 1907ء میں انھیں ماہنامہ’’الندوہ‘‘ کا سب ایڈیٹر مقرر کیا۔ انھوں نے متعدد تحقیقی و تاریخی مضامین الندوہ کے لیے لکھے اور اہلِ علم کی توجہ اور داد حاصل کی۔

اسی زمانے میں علامہ شبلی نے ندوہ میں ’’شعبہ تصحیح اغلاطِ تاریخی‘‘ قائم کیا جس کا مقصد تاریخ کی نصابی کتابوں میں ایسے واقعات کی اصلاح و تصحیح تھی جن میں مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب کے بارے میں انگریز مؤرخین کی متعصبانہ اور گمراہ کن تحریروں کو قصداً شامل کیا گیا تھا، جن کو پڑھ کر مسلمان طلبہ شرمندہ ہوتے تھے یا گمراہ ہورہے تھے۔ علامہ شبلی نے سلیمان ندوی کو اس شعبے کا سیکریٹری بنایا۔ یہاں سے ان کی اسلامی تاریخ میں دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ چنانچہ آئندہ جب بھی تاریخ کے کسی پہلو کو مجروح کیا گیا، یا دانستہ غلط بیانی کی گئی تو ان کے تاریخی شعور نے فوراً ردِعمل کا اظہار کیا۔ سید صاحب نے بہت سی تاریخی اغلاط و اوہام کی اصلاح و تصحیح کی، تاریخ نویسی کے صحیح اور بنیادی اصول بتائے، غلط تاریخ نویسی کی مضرتیں بیان کیں، اسلامی تاریخ پر اعتراضات کے جوابات دیے اور مستشرقین کے تعصبات پر مبنی بیانات کی تردید کی۔

علامہ شبلی نعمانی کی وفات کے بعد جب ماہنامہ معارف (اعظم گڑھ) کا اجراء ہوا تو اس کا ایک مقصد جدید اسلوب و انداز میں تاریخِ اسلام کی تدوین و اشاعت بھی تھا۔ چنانچہ خود سید صاحب نے نہ صرف تاریخ ِاسلام اور ہندوستان کی اسلامی تاریخ کے علمی وتمدنی پہلوئوں پر مقالات لکھے اور مستشرقین و مستغربین کی تردید کا فریضہ انجام دیا بلکہ تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر ملک کے دوسرے اہلِ علم کی تحقیقی نگارشات کو بھی اہتمام سے شائع کیا۔

پیشِ نظر کتاب ’’علامہ سید سلیمان ندوی بحیثیت مورخ‘‘ ممتاز محقق اور ماہرِ شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس اعظمی کا ایک مفصل مقالہ ہے جو اولاً خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ (انڈیا)سے کتابی صورت میں شائع ہوا، اور اب نظرثانی اور کچھ اضافوں کے ساتھ پاکستان کے مؤقر اشاعتی ادارے قرطاس (کراچی) سے شائع ہوا ہے۔ اشاریہ شامل ہونے سے اس کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی کی علمی خدمات پر متعدد کتب و مضامین شائع ہوچکے ہیں، البتہ ان کے تاریخی کارناموں پر بحیثیت ِ مجموعی یہ پہلی کتاب ہے جس میں فاضل مصنف نے سیدصاحب کے مورخانہ شعور و بصیرت کے ذکر کے ساتھ ان کی تاریخی کوششوں اور کاوشوں کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا ہے اور مثالیں دے کر واضح کیا ہے کہ ان کی تاریخ نگاری کا معیار کس قدر بلند اور نظریۂ تاریخ کتنا صائب اور متوازن تھا۔
تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں بالخصوص اسلامی تاریخ کے طلبہ و اساتذہ کو اعظمی صاحب کی اس مفید کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔