نومبر 2000ء سے نومبر 2024ء تک ڈاکٹر ذاکر نائیک سے وابستہ 24 سال پرانی یادیں

یہ نومبر 2000ء کی بات ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سعودی عرب کے تاریخی شہر تبوک میں لیکچرز دینے کے لیے تبلیغی مشن پر تشریف لائے۔ میں 1987ء سے تبوک میں بسلسلہ ملازمت مقیم تھا اور وہاں کی ہائی کورٹ میں مترجم اور مشیر کے طور پر اردو دان طبقے کے لیے خدمات انجام دےرہا تھا، اس کے ساتھ ساتھ ایوننگ میں اسلامی سینٹر تبوک میں اعزازی لیکچرز دینا اور منطقہ تبوک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے پروگرام آرگنائز کرنا بھی ذمے تھا۔ ڈاکٹر ذاکر صاحب کے آنے کی پہلے بھی شنید تھی لیکن اُس وقت ان کے لیکچرز کا یورپ اور امریکہ سے آئے ہوئے ڈاکٹروں اور نرسوں نے باقاعدہ بائیکاٹ کرنے بلکہ کام چھوڑ ہڑتال کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ ایسی کیفیت سعودی عرب میں پہلے پیش نہ آئی تھی، اس بناء پر اس دورے کو ملتوی کردیا گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے نومبر 2000ء میں یہ صورت پیدا کی کہ وہ سرکاری دورے پر تبوک شہر تشریف لائے اور انہوں نے شہر میں اور دو تین بڑے اسپتالوں میں بھی لیکچرز دیے جن میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔ یہ اُسی وقت کی تصویر ہے جب وہ تحفیظ القرآن تبوک کے خوبصورت اور وسیع ہال میں پاکستانی، انڈین اور دیگر ملکوں کے حضرات کو لیکچر دے رہے تھے۔ اُس وقت تک ڈاکٹر صاحب اردو میں لیکچر نہیں دیا کرتے تھے صرف انگلش میں ہی گفتگو کرتے تھے۔ اس تصویر میں ڈاکٹر صاحب لیکچر کی ابتدا کررہے ہیں جس کا عنوان تھا ”بڑے بڑے مذاہب میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں تصور“۔ اسٹیج پر ہمارے سعودی مربی شعبہ انگلش کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمٰن جو کہ تبوک یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے، تشریف فرما ہیں۔ ان کے ساتھ خاکسار بیٹھا ہے، اور ڈاکٹر صاحب کی پچھلی سائیڈ پر حیدرآباد کلب کے ایک انڈین دوست تشریف فرما ہیں۔ یہ بہت ہی عمدہ لیکچر تھا جس نے سامعین پر معلومات کی ایک نئی جہت عیاں کی۔ حاضرین نے اس سے بہت استفادہ کیا۔ اس لیکچر کے علاوہ کنگ خالد اسپتال تبوک میں بھی ڈاکٹر صاحب نے لیکچر دیے جن میں حاضری کا موقع ملا۔ علاوہ ازیں تبوک کے سب سے بڑے اسپتال کنگ عبدالعزیز ملٹری اسپتال میں بھی انھوں نے لیکچر دیا جس میں پہلے ہڑتال کی باتیں کی گئی تھیں، اِس بار وہاں موجود غیر مسلم اسٹاف نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی اور بائیکاٹ کی کوئی کیفیت پیدا نہ ہوئی۔ یہ تو تھیں 2000ء میں تبوک کی کیفیات۔

اب 2024ء میں جب ڈاکٹر صاحب پاکستان آرہے تھے تو میں نے محسوس کیا کہ سعودی عرب میں جیسے غیر مسلم ڈاکٹروں نے ان کے لیکچرز کا ابتدا میں بائیکاٹ کیا تھا اور وہ لیکچرز سننے کے بارے میں متردد تھے اور نہیں سننا چاہتے تھے، اسی سے ملتی جلتی کیفیت چوبیس سال بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہمارے بعض دینی دوستوں کی تھی، ایک پروپیگنڈا تھا جو کہ کیا گیا، اور میں نے دلی طور پر محسوس کیا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی جہاں غیر مسلم مخالفت کرتے ہیں وہاں پر مسلکوں کے مارے مسلمان بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُن کی مخالفت کرنے سے باز نہیں آتے، جبکہ میدانِ علم کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ میرے علم کے باوجود دوسرے کے علم کی بھی اپنی اہمیت ہے جسے سنا جانا چاہیے اور علمی طریقے سے اصلاح کرنی چاہیے۔ اسکول آف تھاٹس میں مختلف روایات اور مختلف عملی تجربات کی وجہ سے مختلف آراء ہوسکتی ہیں، اگر وہ اعتدال کے ساتھ اختیار کی جائیں تو کیا حرج ہے؟ لیکن اس معاشرے کے بعض احباب نے تعصب کو چھپانے کی کوشش نہیں کی یا اس کو نظرانداز نہیں کیا، بلکہ اعلانیہ طور پر بعض لوگوں نے بہت غیر شائستہ انداز سے اُن کے آنے کی مخالفت کی جسے عامۃ الناس کی غالب اکثریت نے پسند نہیں کیا۔

یہ باتیں میرے پاس پہلے سے موجود تھیں اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ جب وہ یہاں پاکستان میں تھے، میں اس بارے میں تحریر اَپ لوڈ کروں۔ لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ میری البم میں سے یہ تصویر مجھے مل نہیں رہی تھی جو کہ آج ملی ہے اور اب میں نے تحریر کو اَپ لوڈ کردیا ہے۔ اس میں کسی کے اوپر بے جا تنقید کرنا مقصود نہیں ہے، یا بے جا تائید کرنا بھی مقصود نہیں ہے، لیکن یہ ضرور مقصود ہے کہ اہلِ علم کے سینے وسیع ہونے چاہئیں، کہ صرف اپنے اپنے مسلکوں کا ڈھنڈورا پیٹنا ہی دین نہیں ہوتا، اور خود کو سچا سمجھنا اور باقیوں کے لیے سخت رویّے اختیار کرنا وسیع منبع علم کو محدود بلکہ تنگ کردینے کے مترادف طرزِعمل ہے جس سے حتی الوسع بچنا مفید ہے، جبکہ بے جا تنقید وسعتِ علمی کو محدود کردینے کی علامت ہے۔

اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی آمد اور ان کے کلام اور نصیحت سے ہم سب کو فائدہ دے، اور اگر اُن سے کوئی کمی کوتاہی ہوگئی تو علمی انداز سے بات کرنے کی ہم میں سے جس میں استطاعت ہو ،وہ کرے۔ یہ بکھرتا ہوا معاشرہ ہر میدان میں تنزل کا شکار ہے۔ دینی میدان میں اگر اسی طرح کی روش اختیار کی جائے کہ ”میں ہی صحیح ہوں کوئی اور نہیں“ تو یہ گرتا معاشرہ ہمارے ہی ہاتھوں سے نہ گر جائے جس کا ہمیں جواب دینا ہوگا اللہ کو بھی اور اللہ کے بندوں کو بھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی ہدایت کا سامان فرمائے۔ آمین