ظالم درندہ صفت افراد کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بننے والی معصوم بچی کیسو کولہی کوخود اُس کی سگی ماں نے پانچ دن قبل معمولی رقم کے عوض ظالم درندوں کے سپرد کیا تھا
اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اہلِ وطن، خصوصاً اہلِ سندھ پر گزشتہ ایک طویل عرصے سے چھائی ہوئی ذلت، ادبار، ظلم اور ستم کی سیاہ تاریک رات آخر کب اور کس طرح سے ختم ہوگی؟ 31 اکتوبر کو بذریعہ میڈیا جب اہلِ سندھ کو یہ دل دوز خبر پڑھنے اور سننے کو ملی تو ایک طرح سے ان کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ ڈالا کہ ’’سندھڑی میں ظالم درندوں کے ہاتھوں اجتماعی طور پر ظلم اور زیادتی کا نشانہ بننے والی معصوم اور کم سن 13 برس کی بچی کیسو کولہی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوجانے کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر مرگئی‘‘۔ اہلِ سندھ دراصل ابھی تک اس حوالے سے یہ موہوم سی امید باندھے ہوئے تھے کہ وہ معصوم بچی جسے وہ گزشتہ دو دنوں سے سندھی ٹی وی کے نیوز چینلز پر درد و کرب سے تڑپتے اور بلکتے دیکھ رہے ہیں، شاید کہ علاج سے کسی طرح اس کی جان بچ جائے۔ لیکن افسوس کہ ان کی دعائیں رنگ لائیں اور نہ ہی گوٹھ فوجی رانگڑ کی رہائشی معصوم بچی کیسو کولہی کی جان بچنے کی ان کی امید ہی پوری ہوسکی۔ 13 برس کی معصوم اور کم سن بچی کیسو کولہی جس کے ابھی اسکول جانے اور گڑیوں اور سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے، اپنے دیگر بہن بھائیوں کے ساتھ روٹھنے، منانے اور اپنے ماں باپ سے ناز نخرے اٹھوانے اور ان سے اپنی فرمائشیں پوری کروانے کے دن تھے، جس دردناک انداز میں کئی دن تک وحشی صفت درندوں کے ہاتھوں ظلم اور زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئی ہے، اس کی وجہ سے سچ مچ ہر صاحبِ دل انسان دکھ اور رنج سے مبتلا ہوگیا ہے۔ عین اُس دن یعنی یکم نومبر کو جب سندھ کی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اپنا روایتی دیوالی کا تہوار منانے میں مصروف تھے، درندگی کا شکار ہونے والی 13 برس کی معصوم اور کم سن کیسو کولہی کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔
اس سانحے کا ایک دل دوز پہلو یہ بھی ہے کہ ظالم درندہ صفت افراد کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد تڑپ تڑپ کر جان دینے والی معصوم بچی کیسو کولہی کو خود اُس کی سگی ماں نے پانچ دن قبل معمولی رقم کے عوض ظالم درندوں کے سپرد کیا تھا، اور اب وہ اس کی وجہ اپنی شدید ترین غربت کو قرار دے رہی ہے۔ ابھی چند دن قبل ہی پیپلز پارٹی سندھ کے سینئر رہنما نثار کھوڑو بھی اپنے ایک بیان میں یہ ’’ارشاد‘‘ فرما چکے ہیں کہ ’’سندھ میں پائی جانے والی غربت ہمارے اندازوں سے بھی کہیں بڑھ کر ہے‘‘۔ اُن کے اس بیان کو ’’چوری اور سینہ زوری‘‘ ہی کے زمرے میں شمار کیا جائے گا، کیوں کہ صوبہ سندھ پر گزشتہ تقریباً 18 برس سے انہی کی پارٹی کی بلاشرکتِ غیرے حکومت ہے اور سندھ کے عوام آج جس بدحالی کی زندگی سے دوچار ہیں یہ اُن کی پارٹی کی حکومت کو بدحکومتی‘ بدعنوانی اور نااہلی کا ایک بہت بڑا منہ بولتا اور ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ اپنی سگی بیٹی کو اور وہ بھی بے حد کم سن معصوم 13 برس کی بچی کو جب کوئی ایسی ماں معمولی رقم کے بدلے میں ظالم درندوں کے سپرد کردیتی ہے تو اس سے بڑھ کر دوسرا کوئی اور سانحہ آخر کیا ہوگا؟ جن وحشی صفت درندوں کے سپرد کیسو کولہی کو خود اس کی سگی ماں نے کیا تھا، وہ اس کے ساتھ وحشت اور ستم کا کھیل بلا روک ٹوک اُس وقت تک کھیلتے رہے جب تک کہ معصوم بچی حد درجہ مضروب نہ ہوگئی، اور پھر اسے ظلم ڈھانے والوں نے جب بے حد نازک حالت میں دیکھا تو وہ اسے نیم مُردہ حالت میں اس کی سگی ماں کے ہاں یعنی اس کے گھر پھینک کر چلے گئے۔ اطلاع ملنے پر یو سی بلوچ کے چیئرمین شاہ نواز لغاری زخموں سے چُور معصوم کیسو کولہی کو اپنی ذاتی کار میں بہ غرضِ علاج سول اسپتال میرپورخاص لے جا رہے تھے کہ وہ راستے ہی میں دم توڑ گئی۔ اطلاعات کے مطابق مقامی پولیس نے مقتولہ بچی کی ظالم والدہ رانی اور اس کے ساتھ زیادتی کرنے والے نصف درجن افراد کو گرفتار کرکے ان سے تفیش شروع کردی ہے۔ جس طرح کا ہمارے ہاں نظامِ عدل اور انصاف رائج ہے ایسے میں بظاہر تو یہ امر بے حد مشکل ہی دکھائی دیتا ہے کہ معصوم بچی کیسو کولہی پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے درندوں کو قرار واقعی سزا مل سکے گی، کیوں کہ ماضی میں اس حوالے سے بہت زیادہ افسوس ناک اور تلخ ترین سانحات کا ریکارڈ موجود ہے کہ وحشت اور درندگی کا مظاہرہ کرنے والے بااثر افراد ہیشہ سزا پانے سے پیشتر بذریعہ ’’رجوانی‘‘ یا ’’جرگہ‘‘ اپنی جان چھڑوانے میں کامیاب ہوگئے۔
ماضیِ قریب اور بعید میں ڈاکٹر اجمل ساوند سمیت درجنوں بے گناہ مقتولین ماورائے عدالت منعقد کردہ ’’جرگوں‘‘ یا پھر ’’رجوانیوں‘‘ کے توسط سے ’’یہ خونِ خاک نشیاں تھا رزقِ خاک ہوا‘‘ کے مصداق اہلِ سندھ کی اب صرف ماضی کی یادوں کا ایک الم ناک حصہ ہی بن کر رہ گئے ہیں۔ معروف دلیر صحافیوں سکھر کے جان محمد مہر اور گھوٹکی کے نصراللہ گڈانی کے قتل میں ملوث بااثر سردار اور وڈیرے بھی تاحال کیفرِ کردار کو نہیں پہنچ سکے ہیں۔ ایسے میں نومنتخب امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعید شیخ کا اس سانحے سے متعلق یہ بیان کتنا برمحل اور بروقت دکھائی دیتا ہے جس میں انہوں نے کیسو کولہی نامی معصوم بچی کے قتل کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’حکومتِ سندھ کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ معصوم مقتولہ بچی کے خونِ ناحق میں ملوث وحشی درندوں کو فی الفور سزا دلائے تاکہ سماج سے اس قسم کی درندگی کے خاتمے کو ممکن بنایا جاسکے۔ فاطمہ پھرڑو، زینب ببر، نازیہ چنا، حسینہ کھوسو سمیت اَن گنت دیگر معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف اگر بروقت کارروائی عمل میں لائی جاتی تو آج کیسو کولہی کے ساتھ ظالم درندوں کو اتنا بڑا ظلم کرنے کی جرأت ہرگز نہ ہوتی۔‘‘
یہ ایک بہت بڑا ظلم اور تلخ حقیقت ہے کہ سندھ بھر میں ہر سطح کی بہت زیادہ ہمہ اقسام بدامنی نے عوام کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا ہے، تاہم حکومتِ سندھ کے کانوں پر جوں بھی رینگتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کے بے حس ذمے داران اپنے مخصوص دیرینہ مشاغل جن میں ’’بدعنوانی‘‘ سرفہرست ہے، میں بظاہرہ اتنے زیادہ محو اور مستغرق ہوچکے ہیں کہ انہیں اب خوفِ خدا رہا ہے اور نہ ہی خوفِ آخرت۔ ہاں البتہ انہیں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنا ایسے میں بھی بہ خوبی یاد ہے جس کے حوالے سے فون پر دورانِ گفتگو راقم کو ممتاز حسین سہتو ڈپٹی قیم جماعت اسلامی پاکستان نے گزشتہ دنوں یہ کہہ کر توجہ دلائی ہے کہ ضلع بے نظیر آباد کی ڈاہری اور ضلع سانگھڑ کی کبر برادری ریاست کی بھیانک کارروائیوںکا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ جو کچھ بھی ظلم ان دونوں برادریوں کے ساتھ کیا جارہا ہے یہ دراصل پی پی کے حکمران ٹولے کا اصل چہرہ ہے، جس کے بالآخر خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔
آخر میں راقم معصوم مقتولہ بچی کیسو کولہی کو تمام اہلِ سندھ کی طرف سے یہ پیغام دینے پر مجبور ہے کہ ہم سب شرمندہ ہیں، بہت شرمندہ کہ اس سمیت درجنوں بے گناہ مقتولہ بچیوں کو انصاف نہیں دلاسکے۔ اللہ ہمیں بھی معاف کردے، آمین۔