بھرپور کامیابی کے لیے ہر معاملہ پوری توجہ چاہتا ہے۔ آج کے انسان کے لیے متوجہ ہونا انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارے انہماک کو منتشر کرنے پر تُلا رہتا ہے۔ یہ زندگی بھر کی لڑائی ہے، تیار ہوجائیے کہ یہ لڑائی جیتے بغیر چارہ بھی نہیں
ہم سب ایک ایسے دور کے نصیب میں لکھے گئے ہیں جس کی سب سے نمایاں خصوصیت انہماک اور ارتکاز سے محرومی ہے۔ لوگ زندگی بھر ارتکازِ فکر و نظر اور ہمہ گیر و ہمہ جہت انہماک یقینی بنانے کی تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں مگر حاصل کچھ بھی نہیں ہوپاتا۔
آج کا انسان طرح طرح کے غیر متعلق معاملات میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ کیریئر، کاروبار، گھریلو اور نجی زندگی…. سبھی کچھ داؤ پر لگ چکا ہے۔ جن باتوں کا ہماری زندگی سے براہِ راست تعلق ہے اُن پر فوکس کرنے کے بجائے ہم لایعنی معاملات کو اپنی ذہنی ساخت کا حصہ بناکر سب کچھ برباد کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ کبھی شعوری سطح پر ہوا کرتا تھا، اب تحت الشعور اور لاشعور کی سطح پر ہے۔ ہماری زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارا نہیں ہے، ہمارے کام کا نہیں ہے مگر پھر بھی ہم اُسے گلے لگائے ہوئے ہیں۔ بہت کچھ ایسا ہے جو ہمیں پسند بھی نہیں ہے مگر پھر بھی ہم اُس سے پنڈ چُھڑانے میں کامیاب نہیں ہوپاتے۔
کیوں؟ آخر کیا سبب ہے کہ ہم لایعنی معاملات میں گم ہوکر رہ گئے ہیں؟ آخر ایسا کیا ہے کہ ہم چاہتے ہوئے بھی وہ سب کچھ نہیں کرپاتے جو کرنا چاہتے ہیں، اور اُن معاملات میں الجھے رہتے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے ہمارے کسی کام کے نہیں اور ہماری زندگی میں اُن کے دم سے شادمانی ہے نہ شادابی۔
آج کے انسان کا انتہائی بنیادی مسئلہ ہے اختصارِ ارتکاز، یعنی کسی بھی معاملے میں کماحقہ متوجہ ہونے کی کیفیت سے گریز اور بیزاری۔ وہ زمانے کب کے ہوا ہوئے جب انسان کسی بھی معاملے پر خاطر خواہ توجہ مرکوز کرنے میں کامیاب ہوپاتا تھا اور ذہن پر زیادہ دباؤ بھی مرتب نہ ہوتا تھا۔ اُن زمانوں کو گئے زمانے بیت چکے ہیں۔ بیسویں صدی کے آخری دو عشروں سے اب تک مجموعی کیفیت یہ ہے کہ انسان چاہ کر بھی اپنے اہم ترین معاملات پر پوری توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتا۔
ٹیکنالوجیز کی ترقی نے انسان کو ایسا بہت کچھ دے دیا ہے جو اُس کی ضرورت اور خواہش دونوں سے کہیں زیادہ ہے۔ تفریحِ طبع کے نام پر زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو معاملات کو محض الجھا رہا ہے۔ ہر چیز کی بہتات خرابیوں کا گراف بلند تر کرتی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے یعنی یہ دریا رُکے گا نہیں۔ اگر اِس دریا کو پار کرنا ہے تو تیرنا سیکھیے یا پھر کشتی کا اہتمام کیجیے۔ بہتر تو یہ ہے کہ اِس دریا پر پُل بنائے جائیں تاکہ کسی کو کسی بھی وقت اِس کے پار کرنے میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مکمل اور ہمہ گیر و ہمہ جہت ارتکاز و انہماک کے لیے انگریزی میں لفظ focus استعمال ہوتا ہے۔ فوکس اگر آؤٹ ہو تو سمجھ لیجیے سبھی کچھ آؤٹ ہے۔ کسی زمانے میں یہ لفظ فوٹو گرافی میں زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ اب یہ کسی بھی معاملے میں امرت دھارا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ہماری عام گفتگو میں لفظ فوکس شامل اور داخل ہوچکا ہے۔ ہم عمومی سطح پر کہتے ہیں کہ میں فوکس نہیں کر پارہا۔ لفظ انگریزی کا ہے مگر اب اردو کا ہوتا جارہا ہے۔ ایسے ہی اور بہت سے الفاظ انگریزی اور دوسری بہت سی زبانوں سے آکر ہماری زبان کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ ہم اپنی بیشتر چیزوں کے لیے اپنی زبان یا زبانوں کے الفاظ چھوڑ کر انگریزی، فرانسیسی، عربی، فارسی اور ہندی کے الفاظ استعمال کرنے لگے ہیں۔ یہ سب کچھ تحت الشعور اور لاشعور کی سطح پر ہورہا ہے۔
یہ تو ہوا زبان کا معاملہ۔ اب آئیے، حواس کی طرف۔ ہمارے حواس پر ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں۔ بہت سے لوگ، ادارے اور حکومتیں ہمیں فوکس کررہے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے ہر انسان کو فوکس کیا جارہا ہے۔ عام آدمی نشانے پر ہے اور اُس کی طرزِ فکر و عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بہت کچھ کوشش کرنے پر بھی اپنی مرضی سے نہیں جی پارہا کیونکہ اُس کی سوچ کو تبدیل کیا جارہا ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہے جو اُس کے لیے سوہانِ روح تو ہے مگر وہ اُس سے جان نہیں چُھڑا پارہا۔ فوکس نہ کر پانے کا معاملہ ایسا ہی ہے۔
آپ نے بہت سے پُرانے ڈراموں یا فلموں میں دیکھا ہوگا کہ (یقیناً ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باعث) لانگ شاٹ لیے جاتے تھے یعنی کسی منظر یعنی کیمرے کے فریم میں کوئی شخص دیر تک رہتا تھا اور اگر اُسے فوکس بھی کرنا ہوتا تھا تو کیمرا دھیرے دھیرے اُس کے چہرے کے نزدیک ہوتا تھا۔ آج اُن مناظر کو دیکھیے تو بہت الجھن سی محسوس ہوتی ہے، کیونکہ اب ہم اِتنے سکون کے عادی نہیں رہے۔
فی زمانہ ٹیکنالوجی کی مہربانی سے شوٹنگ اور ایڈیٹنگ کی تکنیک اِتنی زیادہ پنپ چکی ہے کہ دو ڈھائی سیکنڈ سے زیادہ کا فوکس برداشت نہیں ہوپاتا۔ ہم میں سے بہت سوں نے وہ دور بھی دیکھا جب کسی منظر میں ایک ہی کردار یعنی اداکار پر کیمرا دس دس پندرہ پندرہ سیکنڈ تک رہتا تھا اور دیکھنے والوں کو الجھن محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اب ٹیکنالوجی کا یہ حال ہے کہ ایک سیکنڈ میں چار یا پانچ چہرے فوکس کے ساتھ دکھانا ممکن ہوگیا ہے۔
پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ارتکارِ فکر و نظر کا دورانیہ (جسے انگریزی میں attention span کہا جاتا ہے) بہت کم رہ گیا ہے۔ پندرہ سیکنڈ کے اشتہار میں بیس سے زائد شاٹس شامل ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو اِس سے بھی زیادہ۔ یہ سب کچھ یونہی نہیں گزر جاتا۔ یہ ہماری ذہنی ساخت کو شدید متاثر کرتا ہے۔
آج کے انسان کا ایک انتہائی بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ فوکس کرنے کی صلاحیت سے بہت حد تک محروم ہوچکا ہے۔ ماحول کی تیزی ایسی ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی یعنی تحت الشعور یا لاشعور کی سطح پر بہت کچھ ہماری ذہنی ساخت کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا نے ہماری زندگی میں ایسی تیزی پیدا کی ہے جو کسی جواز کے بغیر ہمیں تبدیل کرتی چلی جارہی ہے اور اِس کے نتیجے میں ہمارے بیشتر معاملات بگڑتے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا میں گم رہنے کی عادت فوکس کرنے کی صلاحیت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے کیونکہ سوشل میڈیا سے مستفید ہونے والے زیادہ سے زیادہ چیزیں دیکھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ دن رات زیادہ سے زیادہ کی کھوج میں رہتے ہیں اور جو کچھ بھی نیا دکھائی دیتا ہے اُس کی طرف یوں لپکتے ہیں گویا وہ اُنہی کے لیے ہو اور وہ اُسی کی تلاش میں رہے ہوں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسا بہت کچھ ہے جو سب کے لیے نہیں۔ اور ایسا بھی بہت کچھ ہے جو جان بوجھ کر پیش کیا جارہا ہے تاکہ ہم اُس میں الجھ کر اپنی زندگی کے بنیادی مقاصد کو فراموش کربیٹھیں۔
نئی نسل کے لیے اب فوکس کرنا انتہائی مشکل مرحلہ ہوچکا ہے۔ چند ایک شعبوں میں فوکس کرنا اُس وقت ممکن ہوپاتا ہے جب اِس کی باضابطہ تربیت حاصل کی جائے اور باقاعدگی و تواتر سے مشق بھی کی جائے۔ اس سلسلے میں فوج ایک بہترین مثال ہے۔ فوجی ماحول میں فوکس کے لیے باضابطہ تربیت دی جاتی ہے، نظم و ضبط کا پابند بنایا جاتا ہے، معمولات تبدیل کیے جاتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مشق میں تواتر یقینی بنایا جاتا ہے تاکہ کسی بھی اعتبار سے ادھورا پن نہ رہے۔
عمومی اور پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت کے میدان میں بھی وہی نوجوان کامیاب رہتے ہیں جو ایک خاص نظم و ضبط کے سانچے میں ڈھلے ہوتے ہیں یا اپنے آپ کو ڈھالتے ہیں۔ یہ سب کچھ خودبخود نہیں ہوتا۔ کچھ بننے اور پانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، بہت کچھ کھونا پڑتا ہے۔ یہ ایثار، یہ قربانی ہی انسان کو کچھ حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے۔ فوکس کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ہمیں اپنی زندگی سے بہت کچھ نکالنا پڑتا ہے۔ فوکس کرنے کی صلاحیت ہی انسان کو کچھ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ فوکس کا مطلب ہے تمام غیر ضروری یا غیر متعلق معاملات سے الگ یا دور ہوجانا۔
اس بات کو سمجھنے میں اب عمر کا بڑا حصہ کھپ جاتا ہے کہ ہمارے اردگرد یعنی ہمارے ماحول میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کا سب تو کیا اُس کا بڑا حصہ بھی ہمارے کام کا نہیں اور ہمارے لیے نہیں۔ ہمیں اپنے ماحول کے اندر پائے جانے والے معاملات میں سے وہ سب کچھ منتخب کرنا پڑتا ہے جو ہمارے لیے ہو، ہمارے مطلب کا ہو، ہمارے کام کا ہو۔
سوشل میڈیا پر آج کل شارٹس کا ٹرینڈ چل رہا ہے یعنی چھوٹے چھوٹے وڈیو کلپس لوگوں کو بہت اچھے لگتے ہیں۔ دس پندرہ سیکنڈ سے تیس سیکنڈ تک کے وڈیو کلپ تیزی سے مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔ نئی نسل دن رات اِن وڈیو کلپس میں کھوئی رہتی ہے۔ انگلی کے اشارے سے وڈیو کلپس کو آگے بڑھاتے جائیے اور نئے نئے کلپ دیکھتے جائیے۔ یہ ہے آج کی زندگی۔ ان وڈیو کلپس میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ وہ بھی جو ہمیں پسند ہے، اور وہ بھی جو ہمیں بالکل پسند نہیں۔
آج کی پوری زندگی ایسی ہی ہوکر رہ گئی ہے۔ ہمیں چھانٹی کی عادت سی پڑگئی ہے۔ سوشل میڈیا کی لت اب ہمیں غلام بناچکی ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ مواد دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیوں؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ شارٹ وڈیوز دیکھیں۔ یہ وڈیوز اور ریلز ہمیں الجھائے رکھتے ہیں اور پھر ہم اپنے کسی بھی کام پر زیادہ اور ڈھنگ سے فوکس نہیں کر پاتے۔
فوکس کی صلاحیت پیدا کرنا مشکل ضرور ہے ناممکن ہرگز نہیں۔ آج بھی بہت سے نوجوان فوکس کی صلاحیت پیدا کرکے اپنی زندگی میں معنویت پیدا کرتے ہیں، اُس کا معیار بلند کرتے ہیں۔
ارتکاز اور انہماک ہماری کھوئی ہوئی دولت ہے۔ اس دولت کو دوبارہ پانا ہماری انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ اس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ تعلیم ہو یا کیریئر، نجی زندگی ہو یا خاندانی معاملات، ورک پلیس کے تعلقات ہو یا احباب کی محفل… ہر جگہ انہماک کسی نہ کسی حوالے سے کلیدی کردار ادا کررہا ہوتا ہے۔ انہماک اور ارتکاز آپشن کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ناگزیر حیثیت والی بات ہے۔ انہماک ہونا ہی چاہیے، ارتکازِ فکر و نظر ہماری زندگی کا حصہ بننا ہی چاہیے۔
دوسری بہت سی علتوں کی طرح انہماک کے کمتر دورانیے کی لعنت سے نئی نسل کو بچانے کی خاطر ہمیں خاصی چھوٹی عمر سے اس طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ بچوں کو بتایا جائے کہ بہت سے معاملات میں خوامخواہ اپنا وقت ضایع کرنے کے بجائے چند معاملات پر بھرپور توجہ دینے سے زندگی کا معیار بلند ہوتا ہے اور ہمیں وہ سب کچھ مل پاتا ہے جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں یا جس کے لیے کوشش کررہے ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہماری توجہ اور انہماک کے سب سے بڑے دشمن کے روپ میں سامنے ہیں۔ یہ عفریت کی طرح ہماری صلاحیت و سکت، زندگی اور امکانات کو ڈکارتے جارہے ہیں۔ اِن سے بچنا اور فوکس کرنا سیکھنا لازم ہے۔ یہ سب کچھ خودبخود نہیں ہوتا۔ اِس کے لیے تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ یہ تگ و دَو آپ کو کرنی ہی پڑے گی کیونکہ یہ اختیار کا معاملہ نہیں رہا۔ فوکس کرنا یا فوکس کرنا سیکھنا اب زندگی کا لازمہ ہے۔