گفتگو اور اس کے تقاضے

لوگ گھر بدل لیتے ہیں، ملک بدل لیتے ہیں، جغرافیہ تبدیل کرلیتے ہیں، نئے رشتے ناتے بنا لیتے ہیں، لیکن رائے نہیں بدلتے۔

گفتگو کے لیے عام طور پر صرف منہ کھولنے اور زبان چلانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ کچھ لوگ تھوڑا بہت سوچ بھی لیتے ہیں۔ بعض لوگ جو ذرا زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ہیں، وہ سوچنے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ سمجھنے کی بھی کوشش کرلیتے ہیں۔ لیجیے بات کرنے اور گفتگو داغنے کے بنیادی تقاضے پورے ہوگئے۔ اس کے بعد گفتگو ہوگی اور گفتگو کے مزے ہوں گے۔ باتیں ہوں گی اور باتوں کی پینگیں ہوں گی۔

گفتگو یا بات کرنے کے مزوں میں سب سے بڑا مزہ یہ ہے کہ انسان دوسروں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ لوگ آپ کی بات سنتے ہیں اور اپنی رائے بدل لیتے ہیں، آپ کے قائل ہوجاتے ہیں۔ رائے تبدیل کرنا اور رائے سازی کرنا دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ انسان بہت ہٹ دھرم واقع ہوا ہے، وہ اپنی رائے مشکل سے بدلتا ہے۔ لوگ گھر بدل لیتے ہیں، ملک بدل لیتے ہیں، جغرافیہ تبدیل کرلیتے ہیں، نئے رشتے ناتے بنا لیتے ہیں، لیکن رائے نہیں بدلتے۔ اس مسئلے کو انا سے متعلق سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ رائے اس لیے نہیں بدلتے کہ انھیں انا کی قربانی دینی پڑے گی۔ یہ بات بہت سے لوگوں کے بارے میں درست ہے لیکن اکثر لوگوں کے بارے میں درست نہیں۔ کیونکہ اکثر لوگوں کا مسئلہ انا نہیں، عادت ہوتی ہے۔ یہ اور بات کہ بہت سے لوگ عادت ہی کو انا سمجھتے ہیں۔ عادت کا مطلب ایک طرز (Pattern) یا سانچے کی اسیری ہے اور یہ ایک بہت سخت اسیری ہے۔ مگر بات یہ ہورہی تھی کہ لوگ رائے بدل لیتے ہیں تو ایک اہم واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے اور اس میں رائے بدلنے والے کے لیے مزے کے ہزار پہلو ہوتے ہیں۔ گفتگوؤں، مباحثوں، مناظروں اور مباہلوں کی اکثر صورتوں میں ان مزوں کو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ کسی کی رائے بدل دینے کا مطلب اُسے فتح کرلینا ہے، مگر فتح و شکست کی یہ نفسیات ایک پست نفسیات ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ گفتگو کے مزے سے تو اکثر لوگ واقف ہیں، لیکن گفتگو کے ہولناک تقاضوں سے کم ہی لوگ واقف ہوتے ہیں۔

بہت سے لوگوں کے لیے تو یہ بات ہی حیرت کا باعث ہوگی کہ گفتگو کا کوئی ہولناک تقاضا بھی ہوسکتا ہے، لیکن اخلاقیات کا سوال اگر دوسری جگہوں پر اٹھتا ہے تو گفتگو کے سلسلے میں بھی ضرور اٹھنا چاہیے۔ حقیقت اور فریب کا معیار اگر زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے سلسلے میں بروئے کار آتا ہے تو گفتگو کے سلسلے میں بھی بروئے کار آئے گا۔ سچائی اور دروغ کا پیمانہ اگر پوری زندگی پر محیط ہے تو گفتگو کا پہلو بھی اس کے تابع ہوگا۔ خیر و شر کا سوال اگر دوسری جگہوں پر پیدا ہوتا ہے تو گفتگو کے دائرے میں بھی ضرور جنم لے گا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اگر میری رائے سے یا میری گفتگو سے کوئی شخص اپنی رائے تبدیل کرلیتا ہے اور میری رائے اختیار کرلیتا ہے تو اس کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ ظاہر ہے کہ اگر رائے درست ہے تو پھر ذمہ داری کے سوال کی کوئی خاص اہمیت نہیں، لیکن اگر رائے غلط ہو، اس میں جھوٹ کی آمیزش ہو، یا وہ برخود غلط ہو تو پھر ذمہ داری کا سوال بہت اہم ہوجاتا ہے۔ لیکن فی زمانہ گفتگو یا تحریر کے بارے میں جو گفتگو ہی کی ایک شکل ہے، یہ اخلاقی سوال اٹھایا ہی نہیں جاتا۔ لوگ بات کرتے ہیں، گفتگو داغتے ہیں اور اس کے اثرات سے خود کو بری الذمہ محسوس کرتے ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والی صورتِ حال رونما ہوجاتی ہے۔ یعنی اگر کسی نے اچھا اثر قبول کیا ہے تو اس کے سزاوار ہم ہیں، اور اگر کسی نے منفی اثر قبول کیا تو اس کا ذمے دار دوسرا ہے۔ گفتگو کے اس تقاضے اور اس ذمے داری کو محسوس کیا جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور خیال آتا ہے کہ انسان کی نجات اسی میں ہے کہ بس خاموش رہے بلکہ چپ کا روزہ رکھ لے۔ ’’چپ کا روزہ‘‘ کتنی خوبصورت اور بلیغ ترکیب ہے، نہ جانے کس نے وضع کی ہوگی! شاید اسے گفتگو کے اخلاقی تقاضے اور ذمے داری کا شعور ہو!

ظاہر ہے کہ جو لوگ کسی اخلاقیات اور کسی مذہب پر یقین ہی نہیں رکھتے، اُن کے لیے گفتگو کے اخلاقی تقاضے کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ وہ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ علمی اور دانش ورانہ تقاضوں کی بات کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ مذہب کو مانتے ہیں اور اخلاقیات کو تسلیم کرتے ہیں اُن کے لیے اخلاقی تقاضے کا سوال بڑا جان لیوا ہے۔ کوئی بات جب جان لیوا ہوجاتی ہے تو دیکھا گیا ہے کہ پناہ بھی پھر بہت بڑی تلاش کی جاتی ہے۔ گفتگو کے اخلاقی تقاضے کے سلسلے میں یہی ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ صاحب اصل بات نیت کی ہے ، انسان کی نیت صاف ہونی چاہیے۔ مذہب یہی کہتا ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔ لیکن مذکورہ دلیل دینے والے لوگ دراصل نیت کا سہارا اس لیے لیتے ہیں کہ نیت کا تعین مشکل ہے، اور چونکہ نیت کا تعین مشکل ہے، اس لیے اس پر پردہ ڈالنا اور اس کی آڑ میں شکار کھیلنا آسان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیت کا تعین مشکل ہے، لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ گفتگو کے حوالے سے نیت کا بھانڈا بیچ چورا ہے کے پھوٹتا ہے۔

سلیم احمد نے مولانا مودودیؒ کے حوالے سے کہیں ایک بہت اچھی بات لکھی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ مولانا کی تحریریں پڑھنے کے بعد قاری میں مولانا کے بجائے حق کی حمایت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ مولانا کے حوالے ہی سے نہیں، گفتگو کرنے والے اور حق کے باہمی تعلق کے حوالے سے بھی ایک اہم بات ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ لوگ حق پر لکھتے ہیں مگر ان کی تحریر میں حق پیچھے رہ جاتا ہے اور ان کی شخصیت آگے آجاتی ہے، بلکہ بسا اوقات تو یہ ہوتا ہے کہ بیچارے حق کا دور دور تک سراغ نہیں ملتا، ہر طرف لکھنے والے کی شخصیت ہی جلوہ گر ہوتی ہے۔ کہیں اچھلتی کودتی ہوئی، کہیں چھپنے کی کوشش میں مزید نمایاں ہوتی ہوئی، کہیں چیختی ہوئی، کہیں مطالعے میں مصروف، کہیں علم کا اظہار کرتی ہوئی۔ اس قصے کے اتنے منظر ہیں کہ جن کا شمار بھی ممکن نہیں۔

زیر بحث موضوع کے حوالے سے نیت اور موضوع کا باہمی تعلق بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ گفتگو کرنے اور لکھنے والے کے لیے بعض موضوع ایسے ہوسکتے ہیں جن پر بات کرتے ہوئے وہ اپنی نیت کا ایک جائزہ لے سکتا ہے، لیکن کچھ موضوعات ایسے ہوتے ہیں جن پر بات کرتے ہوئے نیت کا خیال تک نہیں آتا۔ مثلاً ایک موضوع تو مذہب ہی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ مذہب پر بات کررہے ہیں، خلوصِ نیت سے بات کررہے ہیں، وہ قرآن کا حوالہ دیتے ہیں اور حدیث کو کوٹ کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ انھوں نے قرآن وسنت کی ترجمانی کی ہے، لیکن اصل میں ہوتا کیا ہے؟ یہ کوئی راز نہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی، علامہ پرویز اور سرسید مختلف لمحوں اور دائروں میں اس کی بڑی بڑی مثالیں ہیں، اور چھوٹی چھوٹی مثالیں تو بہت ہیں۔

آپ کہیں گے کہ چیر پھاڑ تو کافی ہوگئی، مسئلے کا حل کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ مسئلہ بہت بڑا، بہت اہم، قومی بلکہ عالمگیر ہے اور اس کے حل کے لیے ہمیں کم از کم وزیراعظم اور ان کی کابینہ، اور زیادہ سے زیادہ اقوام متحدہ سے رجوع کرنا ہوگا۔