اللہ رب العزت اپنے بندوں سے بے حد محبت کرتا ہے، اسی بنیاد پر اس نے انسان کو راہِ راست پر ثابت قدم رکھنے کے لیے مختلف انتظامات کیے ہیں۔ کائنات میں ہر شے اور انسانوں پر گزرنے والے مختلف حالات دراصل رب کی معرفت اور اس کے وجود کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یہ خالقِ کائنات کا اپنے بندوں کے لیے خصوصی انتظامِ ہدایت ہے کہ جب انسان انفرادی واجتماعی سطح پر دنیا پرست بن جائے، یا اس کی فکر اس نہج پر سوچنا شروع کردے کہ حقیقی کامیابی دنیا کا حصول ہے، اور وہ اپنے معمولاتِ زندگی میں اپنے رب کی ہدایات سے اعراض کرنا شروع کردے تو ایسے حالات میں سوچنے، سمجھنے والے انسانوں کے لیے ان کے اردگرد رونما ہونے والے واقعات ان کی آنکھوں پر پڑے پردے ہٹا دیتے ہیں، اور دلوں کی سیاہی کو دور کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوتے ہیں۔
طوفانِ اقصیٰ کے بعد اہلِ فلسطین اور غزہ نے جس پامردی وشجاعت کا مظاہرہ کیا ہے، اور جس کسمپرسی میں اپنے رب، کتاب اللہ اور سنتِ رسولﷺ کی اتباع کا پیکر بنے رہے ہیں، اس نے پورے عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ایک ایسے دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی یاد تازہ کردی ہے جب انفرادی واجتماعی سطح پر مادیت پرستی، خودپسندی و خودپرستی کا بت طوعاً وکرہاً ہر دل میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے، ہر کام کی بنیاد میں کمرشلائزیشن کو مدنظر رکھا جاتا ہے، تعلقات بنانے اور بگاڑنے میں مفادپرستی غالب نظر آتی ہے، قومی وبین الاقوامی تعلقات مفادات کی بنا پر قائم ودائم رہتے ہیں، اہلِ غزہ نے ان بتوں کی بلند وبالا عمارتوں کو حقیقی للہیت، خشیتِ الٰہی اور مضبوط تعلق باللہ سے پاش پاش کردیا ہے، اور دنیا کی ہر چیز سے محرومی کے باوجود پورے عالم کو یہ پیغام دیا ہے کہ: حسبنا اللہ ونعم الوکیل نعم المولی ونعم النصیر (اللہ ہی ہمارے لیے کافی ہے، اور وہی بہترین کارساز، وہی سب سے بہترین مولیٰ ہے اور وہی بہترین مددگار ہے)
اللہ رب العزت سے اس گہرے تعلق نے مغربی دنیا کے باضمیر لوگوں کو دینِ اسلام کے قریب کردیا ہے، اور بڑی تعداد میں لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔ اسی مناسبت سے ذیل میں چند واقعات پیش کیے جارہے ہیں:
دوماہ قبل اسرائیلی انتظامیہ کی جانب سے نوٹیفکیشن دیا گیا کہ غزہ کے شمالی حصے میں رہنے والے جنوب کی طرف ہجرت کرجائیں۔ ایک نوجوان نے وہ نوٹیفکیشن لے کر پھاڑتے ہوئے کہا کہ ’’ہم 10 ماہ سے یہاں زندگی بسر کررہے ہیں، اب تک وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو اب کیا کرسکتے ہیں! ہم اسرائیل کے آگے جھکنے والے نہیں ہیں۔‘‘ اُس کی اس بہادری نے دنیا کو حیران کردیا ہے کہ ’’کسمپرسی کی زندگی بسرکرلیں گے لیکن دشمن کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے۔‘‘
الجزیرہ نے 13 اگست 2024ء کو ’’طوفانِ اقصیٰ اور دینداری اسلامی بیداری کا ذریعہ‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ نشر کیا جس میں طوفانِ اقصیٰ کے نتیجے میں عالمی سطح پر ہونے والے تغیرات کا ذکر ہے، اس ضمن میں اس میں ایک عیسائی شخص کے قبولِ اسلام کا ذکر کیا گیا ہے جس کے راوی عمر آغا ہیں، وہ کہتے ہیں کہ وسطی امریکہ کے مغربی حصے کنساس میں ڈینی نامی شخص نے اسلام قبول کیا۔ عمر آغا نے اس کے اسلام قبول کرنے کے اسباب معلوم کیے تو اس نے کہا ’’میرے اسلام کی طرف مائل ہونے میں غزہ کی دو ویڈیوز کا اہم کردار ہے۔ ایک ویڈیو میں مَیں نے دیکھا کہ جامع مسجد ہدیٰ جو صہیونی بمباری کے سبب منہدم ہوچکی تھی، اس کے ملبے پر غزہ کے لوگ نماز ادا کررہے ہیں۔ یہ منظر میرے لیے قابلِ تعجب تھا کہ اسرائیلی بمباری کے باوجود وہاں کے تمام لوگ مسمار شدہ مسجد پر باجماعت نماز اداکررہے ہیں۔
دوسری ویڈیو میں دیکھا کہ ایک فلسطینی، خیمے کے اوپر سے گرنے والے پانی سے وضوکررہا ہے، وہ دونوں ہتھیلیوں کو اکٹھا کرکے پانی جمع کرتا ہے اور پھر اس سے وضومکمل کرلیتا ہے۔
ان دو ویڈیوز نے میرے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ جن مصائب و مشکلات میں وہ زندگی بسر کررہے ہیں، اس کے مقابلے میں میرے مصائب کچھ بھی نہیں ہیں، مزید یہ کہ اُن کے جس عمل نے مجھے متاثر کیا وہ یہ کہ مصائب کے باوجود نماز کی ادائیگی میں پابندی کررہے ہیں۔‘‘
جنوری 2024ء کے ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن میں فرانس میں اسلامی تنظیموں کے اتحاد کے صدر ابن منصور کا مضمون ’’معرکہ غزہ اور مغرب میں قبولِ اسلام‘‘ مضمون شایع ہوا جس میں اس امر کی وضاحت کی گئی کہ طوفانِ اقصیٰ کے بعد تیزی کے ساتھ لوگ اسلام قبول کررہے ہیں۔
ابن منصور کہتے ہیں: ’’40 برس کے طویل عرصے کے دوران ہم نے فرانس میں خاص طور سے وہاں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر اسلام میں داخل ہونے کا ایسا رجحان نہیں دیکھا، جیسا غزہ کی جنگ کے بعد سے دیکھ رہے ہیں۔ اسلام کو اختیار کرنے والے نومسلمین کی رسمی تعداد 80 افراد یومیہ سے بڑھ کر بعض اوقات 400 تک پہنچ چکی ہے، اور یہ تعداد روزانہ اوسطاً 300 فرانسیسی نومسلموں سے کم نہیں ہوتی‘‘۔ اسی سے آپ دوسرے مغربی ممالک کے بارے میں اندازہ لگا لیجیے۔
’’کیا آپ نے اُن سے یہ سوال کیا کہ وہ اسلام میں کیوں داخل ہونا چاہتے ہیں؟‘‘ ابن منصور نے اس سوال کا جواب اثبات میں دیا اور کہا کہ: ’’اکثر لوگوں کا جواب یہ ہوتا ہے کہ سنگین ترین مصائب کے باوجود اور اپنے گھر والوں، اپنے پیاروں، اپنے گھروں اور اپنا مال و دولت کھو دینے کے باوجود صبر و رضا، یقین و ایمان، طمانیت اور امن و سلامتی کا جو شعور ہم نے غزہ کے لوگوں کے اندردیکھا ہے، اس نے ہمیں اس کے پیچھے چھپا راز جاننے پر مجبور کردیا۔ یہ راز ہمیں اسلام اور قرآن کے اندر ملا۔ یہ کیسا عظیم دین ہے جو لوگوں کے دلوں کو، ان کی زندگیوں کو اس یقین اور اس امن و سلامتی سے معمور کردیتا ہے جس سے ہماری زندگی محروم ہے! ہم نے اسلام کے متعلق پڑھا اور قرآن پر ہمارا دل مطمئن ہوگیا تو اس کے بعد ہم نے اس دین میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیا‘‘۔
اسلام قبول کرنے والوں کی عمر کے متعلق سوال کیا تو ابن منصور نے کہا: ’’اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے، جن میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو ہم اُن کے والدین کی موجودگی میں اور اُن کی رضامندی کے ساتھ ہی کلمۂ شہادت پڑھواتے ہیں، ورنہ نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض اوقات والدین بچوں کے ساتھ آتے ہیں اور اپنے بچوں کے اسلام میں داخلے پر رضامندی کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔
سب سے زیادہ حیرت میں ڈالنے والے کسی واقعے کے متعلق پوچھا تو ابن منصور کا جواب تھا: ’’18 سال کی ایک لڑکی تھی، میں نے اُس سے اسلام میں داخل ہونے کی وجہ معلوم کی تو اُس نے بتایا کہ میں قرآن کا ترجمہ لے کر آئی کہ اسے پڑھ کر اُس معبود کے بارے میں جاننے کی کوشش کروں جس نے یہ کتاب نازل کی ہے، اور ]غزہ کے[ ان لوگوں پر ایسی سکینت نازل کی ہے۔ جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو میں مکمل نہیں کر پائی تھی کہ ٹھیر گئی اور رونے لگی۔ میری آنکھوں سے آنسو اس طرح بہہ رہے تھے کہ اس سے پہلے کبھی اس طرح نہیں بہے تھے۔ میں نے کہا کہ یہی وہ معبود ہے جس کی میں عبادت کرنا چاہتی ہوں، اور میں نے اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیا‘‘۔
ایک دوسری لڑکی نے کہا: ’’میں نے ایک عورت کو دیکھا جو اپنے پانچ بچوں کو کھو چکی تھی، اور بجائے اس کے کہ وہ اپنا منہ پیٹتی، چیختی، چلّاتی اور روتی پیٹتی، میں نے دیکھا کہ وہ
صبر کا پیکر بنی ہوئی ہے اور کہہ رہی ہے: میرے بچے جنت میں پہنچنے میں مجھ سے بازی لے گئے۔ میں نے سوچا کہ یہ لوگ انسان نہیں ہوسکتے۔ ایسا کیسے ہو کہ میں بھی ان جیسی بن جائوں؟ پھر مجھے معلوم ہوا کہ اس یقین کے پیچھے دینِ اسلام ہے۔ بس میں نے فیصلہ کرلیا کہ اس دین میں داخل ہونا ہے‘‘۔
(ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، ’’معرکہ غزہ اور مغرب میں قبول اسلام‘‘،ص72-73)
اہلِ غزہ کے ان حقائق اور واقعات سے بحیثیت مسلم ہمیں بھی اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے اہداف ومقاصد کیا ہیں؟ کہیں ہم بھی مادہ پرستی کے بت کی پوجا تو نہیں کررہے؟ کیا ہمارے امور میں اللہ رب العزت کی رضا غالب رہتی ہے؟ کیا ہم رسول اللہﷺ کی ہدایات پر عمل کررہے ہیں؟ کیا ہم اپنی اور اپنی اولاد کی فکر کو دینِ اسلام کے مطابق ڈھالنے کی سعی کررہے ہیں؟ اگر مثبت جواب ہے تو بہت خوب، اس میں مزید بہتری لانے کی سعی کرنی چاہیے۔ لیکن نفی میں جواب آئے تو اپنی فکر کرنی چاہیے۔