قومی اسمبلی ترمیمی بل :فوجی سربراہان کی مدت ملازمت 5 سالسپریم کورٹ میں 34 ججزتحریک انصاف کی خاموش حمایت؟

عدلیہ کو مکمل طور پر ایگزیکٹو کے ماتحت کرنے کی کوشش ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جس کے نہ صرف عدالتی نظام پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس سے جمہوری عمل بھی متاثر ہوگا

اکتوبر کا مہینہ گزر گیا۔ اسے ڈیل کا مہینہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس میں کثیرالجہتی ڈیل ہوئی، 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے حکومت اپوزیشن ڈیل ہوئی۔ اس ڈیل کی اگلی قسط27 ویں آئینی ترمیم کی جانب بڑھ رہی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ جو کام 26 ویں آئینی ترمیم میں نہیں ہوسکا اسے 27ویں آئینی ترمیم میں کرلیا جائے، لیکن اس سے قبل قانون سازی کے لیے جو کام پارلیمنٹ کی سادہ اکثریت سے ہوسکتا ہے پہلے اسے نمٹایا جارہا ہے اور ساتھ ساتھ حکومت ایک بار پھر اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتی ہے تاکہ 27ویں آئینی ترمیم کا طوق پارلیمنٹ کے گلے میں ڈال دیا جائے۔ بلاشبہ پاکستان کے دستور میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور اعلیٰ عدلیہ قانون کی تشریح کرسکتی ہے، انتظامیہ کا کام ملک میں قانون کی عمل داری قائم کرنا ہے، لیکن خود دستور نے پارلیمنٹ کو پابند بھی بنادیا ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کے لیے بنیادی انسانی حقوق اور پارلیمانی روح کو متاثر کرنے والی قانون سازی نہیں کرے گی۔ پارلیمنٹ میں گزشتہ دنوں26 ویں آئینی ترمیم ہوئی، آئین میں اس سے پہلے 25 ترامیم ہوچکی ہیں۔ 26ویں ترمیم کا جائزہ لینے سے پہلے اگر صرف 25ویں ترمیم کا ہی جائزہ لے لیا جائے تو بہتر ہوگا، تاکہ اندازہ ہوجائے کہ ہر حکومت نے آئین میں ترمیم صرف ایڈہاک ازم کے تحت کی۔ 25ویں ترمیم میں کہا گیا ہے کہ وفاق اور صوبے این ایف سی ایوارڈ میں ملنے والی رقم میں نصف نصف رقم سابق فاٹا کے اُن اضلاع کے لیے مہیا کریں گے جنہیں صوبہ کے پی کے میں ضم کیا گیا ہے تاکہ ان اضلاع کو بھی ترقی دی جاسکے۔ آج اس ترمیم کو ہوئے سات سال ہوچکے ہیں، اس دوران تحریک انصاف کی حکومت وفاق میں اور پنجاب کے علاوہ کے پی کے میں آئی، مگر وفاق، کے پی کے اور پنجاب نے سابق فاٹا کے علاقوں کی ترقی کے لیے این ایف سی ایوارڈ میں ملنے والی رقم میں سے اپنے حصے کی رقم مہیا نہیں کی۔ تحریک انصاف کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت آئی، اور اب انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) وفاق اور پنجاب میں حکومت میں ہے، مگر اس وقت بھی یہ رقم مہیا نہیں کی گئی۔ فاٹا میں اس وقت لاقانونیت کی جو صورتِ حال بنی ہوئی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سابق فاٹا کے علاقوں کے لیے وہ رقم فراہم نہیں کی گئی جس کا وعدہ25ویں آئینی ترمیم میں کیا گیا ہے۔ حکومت اب26 ویں ترمیم لانے کے بعد27 ویں ترمیم کے لیے کام کررہی ہے، اگر پارلیمنٹ اپنے ہی بنائے ہوئے قانون پر عمل کرتی رہتی تو ملک میں کبھی بحران پیدا نہ ہوتے۔

حکومت عوام کا دم ضرور بھرتی ہے لیکن اسے جمہور کا احساس نہیں ہے، اگر احساس ہوتا تو آئی پی پیز کو آنکھیں بند کرکے ادائیگی نہ کی جاتی۔ اگر بہت ہی محتاط بات کی جائے تو کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ آئی پی پیز کو ایک سال میں 2000 ارب روپے ادا کیے گئے، جب کہ ان میں سے 52 فیصد کمپنیاں حکومت کی ہیں؟

قانون سازی کا عمل رائے عامہ کے لیے حیرانی کا باعث بھی ہے اور تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ رائے عامہ کی نمائندگی کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمٰن نے جماعت اسلامی کی طرف سے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے جس میں یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ درخواست کی سماعت فل کورٹ بینچ کرے اورکارروائی براہِ راست نشر کی جائے۔ جماعت اسلامی کا مؤقف ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی کو 1973ء کے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کا حق حاصل نہیں ہے۔

ابھی حال ہی میں 26 ویں ترمیم کے بعد پارلیمنٹ میں ایکٹ آف پارلیمنٹ میں ترمیم کی منظوری دی گئی ہے، جس کے مطابق مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 5 سال اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17 سے بڑھا کر 34 کردی گئی ہے۔ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں ترمیم کا بل بھی کثرتِ رائے سے منظور کرلیا ہے۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعداد 9 سے بڑھاکر 12 کردی گئی ہے۔ ان ترامیم پر تحریک انصاف کی اپوزیشن نے روایتی ہنگامہ کیا، اور شور میں حکومت قانون سازی کرتی رہی، بلکہ یہ کام تحریک انصاف کی خاموش حمایت کے باعث ہی ممکن ہوسکا۔ اس ترمیم پر حکومت کا خیال ہے کہ اب ملک میں بحران کی شدت کم ہوجائے گی۔ لیکن ان ترامیم پر تجزیہ یہی ہے کہ ’’بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور اونٹ خیمے میں گھس گیا ہے‘‘۔ ایکٹ آف پارلیمنٹ میں ترمیم پر اس سے بہتر اور جامع تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ قائد حزبِ اختلاف عمر ایوب کہتے ہیں کہ عمران خان سے ملاقات کے بعد پالیسی بیان دیا جائے گا۔ گویا اب لکیر پیٹی جائے گی۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی ایک ہی تھالی کے بینگن ہیں، بس جس طرف اشارہ ہوتا ہے اسی جانب لڑھک جاتے ہیں۔ ان ترامیم کو حکومت اپنی کامیابی تصور کررہی ہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان نیول ایکٹ 1961 اور پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 میں ترمیم ہوچکی ہیں، جس کے بعد اب سروسز چیف کی مدت ملازمت 3 سے بڑھ کر 5 سال ہوگی۔ ان ترامیم کا ان تمام محکموں اور آئینی عہدوں پر براجمان شخصیات کو ضرور فائدہ ہوگا، لیکن جب سے دستور بنا ہے پارلیمنٹ جس کا انتخاب پانچ سال کے لیے کیا جاتا ہے‘ اسے بہت کم ہی اپنی آئینی مدت مکمل کرنے دی گئی ہے۔ ہر حکومت کو ہر وقت دھڑکا ہی لگا رہتا ہے کہ اب گئی کہ تب گئی۔ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ اور حکومت کبھی مارشل لا نے ختم کی اور کبھی عدلیہ نے، اور کبھی صدارتی اختیار کے ذریعے حکومت اور پارلیمنٹ رخصت کی گئیں۔

قومی اسمبلی سے منظور شدہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے تحت آرمی چیف کی مدت ملازمت 5 سال ہوگی۔ ترمیمی بل کے مطابق جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہوگا۔ ترمیمی بل کے مطابق اطلاق آرمی چیف کی تقرری کی مدت اور دوبارہ تقرری یا توسیع پر نہیں ہوگا۔ اپنی مدت میں آرمی چیف بطور پاکستان آرمی جنرل خدمات انجام دیتا رہے گا۔ ترمیمی بل کے مطابق قومی اسمبلی سے منظور شدہ پاکستان نیوی ترمیمی بل میں نیول چیف کی مدت ملازمت 5 سال ہوگی۔ ترمیمی بل کے مطابق ایڈمرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق نیول چیف پر نہیں ہوگا۔ اطلاق نیول چیف کی تقرری کی مدت اور دوبارہ تقرری یا توسیع پر نہیں ہوگا۔ ترمیمی بل کے مطابق اپنی مدت میں نیول چیف بطور پاکستان نیوی ایڈمرل خدمات انجام دیتا رہے گا۔ ترمیمی بل کے مطابق قومی اسمبلی سے منظور شدہ پاکستان ائیر فورس ترمیمی بل میں ائیر چیف مارشل کی مدت ملازمت 5 سال ہوگی۔ ترمیمی بل کے مطابق ائیر چیف مارشل کی ریٹائرمنٹ کی عمر اور سروس کی حد کا اطلاق ائیر چیف پر نہیں ہوگا۔ اطلاق ائیر چیف کی تقرری کی مدت اور دوبارہ تقرری یا توسیع پر نہیں ہوگا۔ اپنی مدت میں ائیرچیف بطور ائیرچیف مارشل ائیر فورس خدمات انجام دیتا رہے گا۔ تینو ںسروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے بعد وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا مؤقف ہے کہ قانون سازی کے بعد آرمی چیف کی مدت ملازمت کم ہوئی ہے، اس میں اضافہ نہیں ہوا۔ حکومت کی غلط فہمی جلد دور ہوجائے گی۔

پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل بھی کثرتِ رائے سے منظور کرلیا گیا ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل 2024 کے مطابق آرٹیکل 191 اے کے تحت سپریم کورٹ کی بنچوں کی تشکیل تین رکنی ججز کمیٹی کرے گی، یہ کمیٹی چیف جسٹس پاکستان اور سینئر موسٹ جج کے علاوہ آئینی بنچوں کے سینئر موسٹ پر مشتمل ہوگی۔ آئینی بنچ کے سینئر موسٹ جج کی نامزدگی تک کمیٹی چیف جسٹس اور موسٹ سینئر جج پر مشتمل ہوگی، اگر چیف جسٹس یا موسٹ سینئر جج آف سپریم کورٹ آئینی بنچوں میں نامزد ہوجائیں تو آئینی بنچوں کا اگلا سینئر موسٹ جج کمیٹی کا رکن ہوگا۔ اگر کوئی ممبر کمیٹی میں بیٹھنے سے انکار کرے تو چیف جسٹس سپریم کورٹ آئینی بنچوں کے ججز کو کمیٹی کا ممبر بنا سکتے ہیں۔ اس ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد کمیٹی اپنے پہلے اجلاس میں ہی طریقہ کار کا تعین کرے گی، جب تک طریقہ کار کا تعین نہیں ہوتا تب تک کمیٹی کی میٹنگ چیف جسٹس بلا سکیں گے۔ بل کے مطابق ایکٹ کی شق 5 میں 2 اے کا بھی اضافہ کیا گیا ہے، کسی بھی کیس میں آئینی سوال اٹھنے پر فیصلہ اس شق کے مطابق کیا جائے گا، اسپیکنگ آرڈر کے ذریعے فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ معاملہ آئینی بنچ نمٹائے گی یا پھر سپریم کورٹ۔ آئینی بنچوں کو سیکرٹریٹ اور انتظامی سپورٹ کی ذمہ داری رجسٹرار سپریم کورٹ کی ہوگی۔ بل کے متن کے مطابق ججز کی دستیابی کی بنیاد پر آئینی بنچوں میں ہر صوبے سے ججز کو شامل کیا جائے گا، کسی بھی آئینی بنچ کے فیصلے کے خلاف لارجر آئینی بنچ کے سامنے تیس دن میں اپیل کی جا سکے گی، آئین کے آرٹیکل 184 تھری کے خلاف اپیلیں آئینی بنچ کو منتقل ہوں گی۔

27ویں ترمیم بھی لائی جارہی ہے، اس ترمیم کی زد میں کون آئے گا؟ نئی ترمیم میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل سے متعلق شقیں بھی شامل ہوسکتی ہیں جنہیں 26ویں ترمیم سے خارج کردیا گیا تھا۔ اس عجلت کے پیچھے سب سے بڑی وجہ یہی لگتی ہے کہ 26ویں ترمیم منظور کروانے کے باوجود حکومت اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکی ہے۔ خیال ہے کہ یہ عدلیہ کو مکمل طور پر ایگزیکٹو کے ماتحت کرنے کی کوشش ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جس کے نہ صرف عدالتی نظام پر طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس سے جمہوری عمل بھی متاثر ہوگا جو حکومت کی مختلف شاخوں کے درمیان طاقت کے توازن پر منحصر ہے۔

اگرچہ 26ویں ترمیم نے جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بننے سے روک دیا ہے، لیکن حکومت کو یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ نئے چیف جسٹس حکومت کے احکامات پر چلیں گے۔ عدلیہ کو کنٹرول کرنے کا حکومتی کھیل سبوتاژ ہوسکتا ہے۔ حکمران اتحاد کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ آیا وہ ایسی آئینی بنچ تشکیل دے پائیں گے جس کی انہیں خواہش ہے؟ حکومت چاہتی ہے کہ چیف جسٹس کو آئینی بنچ کی سربراہی کرنی چاہیے۔ ایک کھرے جج کے طور پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اسکرپٹ پر نہیں چلیں گے۔حالیہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے نئے چیف جسٹس کے لیے چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے، نئے چیف جسٹس کو ابھی نہ صرف آئین کے دفاع کی ایک طویل جنگ لڑنی ہے بلکہ ماضی میں کی گئی عدلیہ کی کوتاہیوں کو بھی درست کرنا ہوگا جنہوں نے ادارے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی متنازع میراث کو عوام کی یادداشت سے مٹانا انتہائی مشکل ہوگا۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی نظرثانی اپیل کی سماعت کرنے کے فیصلے پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ 26ویں ترمیم سے پہلے آیا جس نے حکومت کے لیے مبینہ طور پر حزبِ اختلاف کے اراکین کو جبری انحراف کی اجازت دی۔ بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے جو جسٹس منصور علی شاہ نے ایک خط میں کہی تھی جس میں سابق چیف جسٹس پر اپنے دور میں ’عدلیہ پر بیرونی دباؤ پر آنکھیں بند کرلینے‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے الوداعی ریفرنس میں شرکت نہ کرنے والے جسٹس منصور علی شاہ نے الزام لگایا کہ ’’مداخلت کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے انہوں نے مداخلت کی راہ ہموار کی اور اقتدار کا چیک اینڈ بیلنس کرنے والے ایک مقدس ادارے کے طور پر عدلیہ کے کردار کو مجروح کیا‘‘۔ یہ ایک ایسے چیف جسٹس کے خلاف علامتی احتجاج تھا جنہیں تقسیم، اور بااثر قوتوں کے زیرِاثر آنے کی بنا پر یاد رکھا جائے گا۔

اس وقت شاید عدلیہ کو اپنی آزادی کا تحفظ کرنے میں سخت ترین امتحان کا سامنا ہے، جبکہ حکومت آئین کو مزید مسخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں حکومت کے اعلیٰ ترین جج کا کردار انتہائی اہم ہوجاتا ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے عہد کیا ہے کہ وہ ریاستی اداروں کی شاخوں کی طاقت کو تحفظ فراہم کریں گے۔ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے پر پورا اتریں گے۔ ایک سخت ترین امتحان ان کا منتظر ہے۔