حساس راز افشا کرنے کے الزام میں وزیراعظم کے ترجمان گرفتارخوف زدہ نیتن یاہو کو آج کل ہر طرف جاسوس نظر آرہے ہیں، دوہفتہ پہلے ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں چند اسرائیلی شہری گرفتار کیے گئے
غزہ وحشت و سفاکی کو اب چار سو دن ہوگئے۔ چند دن پہلے اقوام متحدہ نے اس بدنصیب قطعہ اراضی کا ایک نقشہ شائع کیا ہے جس کے مطابق 21کلومیٹر طویل اور 8 کلومیٹر چوڑی اس پٹی پر شاید ایک مربع کلومیٹر جگہ بھی ایسی نہیں جہاں بم نہ گرے ہوں۔ 7 اکتوبر کو اسرائیلی حملے کا ایک سال مکمل ہونے تک اس ننھے سے رقبے پر 80 ہزار ٹن بارود برسایا گیا۔ لیکن آتش و آہن کی ایک سال سے جاری موسلا دھار بارش کے دوران ہی اہلِ غزہ نے خان یونس میں تمام ممکنہ سہولتوں سے آراستہ اسکول تعمیر کرلیا۔ یہ اسکول تباہ شدہ عمارت کے ملبے پر قائم کیا گیا ہے۔ پرنسپل صاحبہ کا کہنا ہے کہ ہمارا سب کچھ برباد ہوگیا لیکن ہم اپنے بچوں کا مستقبل برباد نہیں ہونے دیں گے۔ جب ایک صحافی نے پوچھا ’’اگر اسرائیل نے اسے بھی تباہ کردیا تو؟‘‘ اس پر پرنسپل صاحبہ قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے بولیں ’’تخلیقِ اوّل مشکل ہوتی ہے، دوبارہ بنانا کیا مشکل؟‘‘
وزیراعظم نیتن یاہو اب بھی شعلۂ جوالہ بنے ہوئے ہیں لیکن سارے اسرائیل میں شہری زندگی افراتفری کا شکار ہے۔ لبنان سے متصل علاقے میں ہر گھنٹہ سائرن اور اس کے بعد زیرزمین پناہ گاہوں کی طرف دوڑ نے عام شہریوں کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ چھوٹے بچوں والے خاندان رات مستقل بنیادوں پر تہہ خانوں میں گزار رہے ہیں جس کی وجہ سے صحت وصفائی کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔
اسرائیلی فوج مسلسل یہ دعویٰ کررہی ہے کہ لبنانی مزاحمت کاروں کی راکٹ، میزائل اور ڈرون بنانے والی فیکٹریاں تباہ اور داغنے والے لانچر برباد کردیے گئے۔ گزشتہ ہفتے وزیر دفاع نے بہت فخر سے کہا کہ دشمن کی راکٹ باری کی صلاحیت صفر کی جاچکی ہے۔ سوئے اتفاق کہ جس وقت وزیردفاع تل ابیب میں یہ لاف زنی فرما رہے تھے، عین اُسی وقت سرحد سے متصل مطلعہ (Metula) پر راکٹوں کی بارش نے ہندوستان کے چار شہریوں سمیت پانچ افراد کی جان لے لی، یہ ہندوستانی وہاں کھیتوں پر کام کرنے آئے تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد مطلعہ کے شمال میں کریات عطا کی عسکری کالونی نشانہ بنی اور دو مزید اسرائیلی مارے گئے۔ دوسرے دن لبنانی ڈرون نے نہریہ میں ریل کو نشانہ بنایا جس سے ایک پل کو نقصان پہنچا اور ایک کھڑی ریل کے دو ڈبے تباہ ہوگئے۔ اس سے اگلے روز یعنی 30 اکتوبر کولبنانی مزاحمت کاروں نے تل ابیب کے مضافاتی علاقے نیتنیا (Netanya) کو زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل سے نشانہ بنایا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔ لبنانیوں نے تل ابیب پر حملے کے لیے پہلی بار Surface to Surface میزائل استعمال کیے۔
خوف و ہراس صرف سرحدی علاقوں تک محدود نہیں،کچل ڈالنے اور مٹادینے کی شیخی کے ساتھ خوف کا یہ عالم کہ وزیراعظم اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک محفوظ تہہ خانے منتقل ہوگئے ہیں اور اب کابینہ کا اجلاس ایک خفیہ زمین دوز بنکر میں ہورہا ہے۔ مزید احتیاط کے لیے اجلاس کا مقام ہر بار تبدیل کردیا جاتا ہے۔ فوجی قیادت بھی اب GHQکے بجائے زیرزمین خفیہ پناہ گاہوں میں مجلسیں سجاتی ہے۔ شمالی غزہ کو بدترین فاقے میں مبتلا کرنے کے باوجود وہاں مزاحمت میں کمی کے آثار نہیں۔ 2 نومبر کو شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ میں تیسرا پیادہ بریگیڈ تعینات کردیا گیا۔ وہاں 162nd ڈویژن کے گیواتی اور 401st بریگیڈ پہلے ہی مصروفِ جنگ ہیں۔
دوسری طرف ایران نے 26 اکتوبر کے اسرائیلی حملے کا امریکی انتخابات (5 نومبر) سے پہلے جواب دینے کی دھمکی دی ہے، سی این این (CNN)کے مطابق ایران نے کہا ہے کہ ’’طوفان دیگری در راہ است‘‘ یعنی ایک اور طوفان اب راستے میں ہے۔ اس عزم کے اظہارِجلی کے لیے یہ تحریر عبرانی ترجمے کے ساتھ تہران کے ایک چوک میں ثبت کردی گئی ہے۔
یکم نومبر کو رہبر معظم حضرت علی خامنہ ای کے مشیر امور خارجہ اور مجلسِ تشخیصِ مصلحت نظام کے رکن کمال خرازی نے لبنانی ٹیلی ویژن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر مملکت کی بقا خطرے میں نظر آئی تو اسلامی جمہوریہ ایران اپنے جوہری نظریے پر نظرثانی کرسکتا ہے۔ جناب خرازی کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس جوہری ہتھیار بنانے کے لیے ضروری تکنیکی صلاحیتیں موجود ہیں، تاہم رہبرِ معظم کا فتویٰ جوہری ہتھیار بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حضرت خامنہ ای نے2019ء میں فتویٰ دیا تھا کہ جوہری بم بنانا اور ذخیرہ کرنا غلط اور اس کا استعمال حرام ہے۔
اپنے سائے سے بھی خوف زدہ نیتن یاہو کو آج کل ہر طرف جاسوس نظر آرہے ہیں۔ دوہفتہ پہلے ایران کے لیے جاسوسی کے الزام میں چند اسرائیلی شہری گرفتار کیے گئے اور خفیہ پولیس شاباک (Shin Bet) نے 31 اکتوبر کو لِد شہر سے 32 سالہ رفائل گولیو (Rafael Guliyev) اور ان کی اہلیہ لالہ کو گرفتار کرلیا، جن پر ایران کے لیے جاسوسی کا الزام ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص عشر بن یامین کو گرفتار کیا گیا جو اسرائیلی جوہری سائنس دانوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے تھا۔
دو دن سے خبر گرم تھی کہ غزہ نسل کُشی اور وہاں نظربند اسرائیلی قیدیوں کے متعلق انتہائی حساس معلومات اڑا لی گئیں جن میں سے کچھ نکات جرمن اخبار Bild اور برطانوی Jewish Chronicle میں شایع بھی ہوچکے ہیں۔ اس خبر کی تصدیق یکم نومبر کو ہوگئی جب جج میناخم مزراحی (Menachem Mizrahi)نے بتایا کہ سرکاری راز افشا کرنے کے الزام میں شاباک کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے چند ملزمان کو ان کی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ فاضل جج نے زیرحراست ملزمان کی تعداد اور نام بتائے بغیر کہا کہ ’’راز افشا ہونے سے اسرائیل کے جنگی مقاصد کے حصول کو نقصان پہنچا ہے‘‘۔ خبر کی اشاعت پر وزیراعظم آفس نے وضاحت کی کہ گرفتار ہونے والوں میں وزیراعظم کا کوئی مشیر یا عملے کا کوئی شخص شامل نہیں۔ تاہم چینل 12 نے گرفتار ہونے والے ایک فرد کے حوالے سے بتایا کہ وہ تنخواہ دار تو نہیں لیکن وزیراعظم کا قریبی مشیر تھا۔ اپنے مقربین کی گرفتاری پر جناب نیتن یاہو نے ’’حساسیت‘‘ کی دُہائی دے کر عدالت سے معلومات پر پابندی کا حکم المعروف Gag orderجاری کرا لیا۔ 3 نومبر کو جج مجسٹریٹ مناخم مزراہی نے ایک ملزم کےGag order منسوخ کیے تو پتا چلا کہ یہ صاحب وزیراعظم کے ترجمان ایلی فینسٹائین (Eli Feldstein) ہیں، جنھوں نے قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک مجوزہ خفیہ آپریشن کی تفصیلات یورپین میڈیا کو دی تھیں، اور خبر ملتے ہی مزاحمت کاروں نے قیدیوں کے گرد گھیرا سخت کردیا۔ تین دوسرے زیر حراست ملزمان جن کے نام عدالت کے حکم پر خفیہ رکھے گئے ہیں، کے بارے میں بھی یہی کہا جارہا ہے کہ تینوں وزیراعظم کے گہرے دوست ہیں۔ اس خبر پر قائد حزبِ اختلاف یارلیپڈ نے جو تبصرہ کیا اس کا شاعرانہ زبان میں ترجمہ کچھ اس طرح ہے:
ہوئے تم دوست جس کے
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
اسرائیل کو داخلی محاذ پر جاسوسی، تو سرحدوں پر فوجی قلت کا سامنا ہے۔ فوج کے جاسوسی یونٹ 8200نے اپنی ایک رپورٹ میں وزارتِ دفاع کو مطلع کیا ہے کہ اس وقت جورڈن ویلی بریگیڈ بحیرہ مردار (بحیرہ لوط) سے شمال میں گولان تک کی نگرانی کرتی ہے، جبکہ جنوب میں ایلات (خلیج عقبہ) تک یووو ریجنل بریگیڈ تعینات ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ہزار 17 کلومیٹر طویل مشرقی سرحد کی مؤثر نگرانی دو بریگیڈ کے بس کی بات نہیں۔ رپورٹ ملتے ہی وزارتِ دفاع نے اردن سے متصل مشرقی سرحد کی نگرانی کے لیے فوج کا ایک نیا ڈویژن بھرتی کرنے کی منظوری دے دی۔سوال یہ ہے کہ اس نئے ڈویژن کے لیے افرادی قوت کہاں سے آئے گی؟ کہ غزہ سے معذوروں کی شکل میں آنے والی زندہ لاشیں دیکھ کر اسرائیلی نوجوانوں کا فوج میں جانے کا ارمان خوف میں تبدیل ہوچکا ہے۔ شاندار تنخواہ اور پُرکشش مراعات کی پیشکش کے باوجود بھرتی مراکز پر سناٹا ہے۔
حریدی فرقے کے علما، مدارس (Yeshiva)کے طلبہ کا فوجی بھرتی سے استثنیٰ ختم کرنے کے مجوزہ قانون کی شدت سے مخالفت کررہے ہیں۔ استثنیٰ ختم ہونے کی صورت میں حریدی فرقے کی جماعتوں پاسبان توریت (Shas) پارٹی اور یونائیٹڈ توریت پارٹی نے حکومتی اتحاد سے نکل جانے کی دھمکی دی ہے۔ یہ بیساکھیاں ہٹتے ہی جناب نیتن یاہو کی حکومت زمیں بوس ہوجائے گی۔ مدارس کے استثنیٰ کو بنیاد بناکر عام نوجوان بھی بھرتی مراکز کا رخ نہیں کررہے۔
گزشتہ ہفتے وزیردفاع نے حریدی ارکانِ کنیسہ (پارلیمان) سے خطاب کرتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا ’’معزز علما، پاسبان و پاسدارانِ توریت! یہ مذہبی یا سیاسی نہیں، مملکت کی بقا کا معاملہ ہے۔ ہم کئی سمت اور کئی افق سے جارحیت کا ہدف ہیں۔ بہت بڑی تعداد میں ہمارے فوجی زخمی اور معذور ہیں، لاتعدادکڑیل جوان مادرِ وطن پر قربان ہوگئے، ملک کو مزید فوجیوں کی ضرورت ہے۔ استثنیٰ ختم کیے بغیر ہم غیر حریدیوں کو فوج میں بھرتی پر آمادہ نہیں کرسکتے۔ اسرائیل رہے گا تو مدارس بھی قائم رہیں گے۔ ملک بچائیں یا توریت پڑھائیں؟ عوام فیصلہ کرلیں۔ اسرائیل کے دفاع میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا‘‘۔ اس خطاب پر لبرل و سیکولر عناصر نے تو تالیاں پیٹیں اور ڈیسک بجائے لیکن علما ٹس سے مس نہ ہوئے، اور دوسرے روز تل ابیب کے بھرتی مرکز پر داڑھی، شیروانی اور ٹوپی والوں نے زبردست مظاہرہ کیا اور پولیس سے مارکھائی۔
دنیا بھر میں غزہ نسل کُشی کے خلاف مظاہرے اور آگاہی کی جو زبردست مہم چل رہی ہے وہ مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کے باعث اب تک غیر مؤثر ہے، لیکن کہیں کہیں انسانی ضمیر میں حرکت محسوس ہورہی ہے۔ کمپیوٹر کے ملائم سہارے (Software) تیار کرنے والا امریکی ادارہ پلانٹِر (Palantir) اسرائیلی محکمہ دفاع کو مصنوعی ذہانت (AI)کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ اسرائیلی فوج سے تعاون کو غزہ نسل کُشی میں سہولت کاری قرار دیتے ہوئے ناروے کے تجارتی ادارے اسٹور برانڈ (Store brand)نے پلانٹِر میں سرمایہ کاری معطل کردینے کا اعلان کیا ہے۔ اسٹور برانڈ کی مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 109ارب ڈالر ہے تاہم اس کے پاس اس وقت پلانٹر کے صرف 2 کروڑ 24 لاکھ ڈالر کے حصص ہیں۔ یہ رقم بہت بڑی تو نہیں لیکن انسانی حقوق کے بارے میں نارویجین کمپنی کی فکرمندی قابلِ تحسین ہے۔
اس کے مقابلے میں مصر کا رویہ ملاحظہ فرمائیں۔ یہ خبر ملتے ہی کہ جرمنی سے 150ٹن بارود اسرائیل بھیجا جارہا ہے، انسانی حقوق کے وکلا نے اس پر پابندی کے لیے برلن (جرمنی) کی عدالت میں ایک درخواست دائر کردی۔ سماعت کے دوران معلوم ہوا کہ اہلِ غزہ کے قتل عام کے لیے یہ تباہ کن سامان جرمن مال بردار جہازMV Kathrin کے ذریعے روانہ کیا گیا ہے جو 28 اکتوبر سے اسکندریہ (مصر) کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہے۔ مصری حکومت نے اس کی تردید کی ہے لیکن وکلا نے سمندری ٹریفک پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ MV Kathrin اسکندریہ سے یکم نومبر کو اسرائیلی بندرگاہ اشدود روانہ ہوگیا۔
کچھ ایسا ہی معاملہ آذربائیجان، قازقستان اور ترکیہ کا ہے۔ اسرائیل اپنی ضرورت کا تیل آذربائیجان اور قازقستان سے خریدتا ہے۔ یومیہ 2لاکھ 20 ہزار بیرل تیل، 1768 کلومیٹر لمبی پائپ لائن کے ذریعے بحر روم میں ترک بندرگاہ جیحان (Ceyhan)پہنچتا ہے، جہاں سے ٹینکروں کے ذریعے اسے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ لے جایا جاتا ہے۔ آج کل راکٹ حملوں کی وجہ سے حیفہ پورٹ مخدوش ہوگئی ہے تو غزہ کے شمال میں اشدود کی بندرگاہ استعمال ہورہی ہے۔ قازقستان اور آذربائیجان سے شکوہ نہیں کہ وہ کوئی دعویٰ نہیں کرتے، لیکن اپنی ہر تقریر میں اسرائیل کی مذمت کرنے والے محترم رجب طیب اردوان، جیحان کی پائپ لائن بند کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ معلوم نہیں یہ اسرائیل کا خوف ہے یا پائپ لائن محصولات کا لالچ…؟
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔