محبت اور نفرت

انسان کا طبعی وجود ریاضی اور سائنس کے اصولوں پر ہے، لیکن اس کا جذباتی وجود کسی حساب کتاب یا کسی فارمولے کے تحت نہیں ہے۔ اظہارِ جذبات میں ایک فرد کا رویہ دوسرے سے مختلف اور متضاد بھی ہوسکتا ہے۔ طبیعی وجود کے لیے صحت کے اصول ہیں، جسمانی ورزشیں ہیں۔ اس طرح جذباتی وجود کو صحت مند بنانے کے لیے کچھ اصولوں کی پابندی اور کچھ مشقوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ ہمارا دین فراہم کرتا ہے۔ اگر انسان کے جذباتی وجود کو تہذیب اور شائستگی کے آداب نہ سکھائے جائیں تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ سائنسی نقطہ نظر سے انسان حیوان ہی ہے اور اسے حیوانِ ناطق کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن اس حیوان کو جو چیز انسان بناتی ہے، وہ اس کے جذباتی وجود کی تربیت ہے کہ اس کے ذریعے وہ اپنے جذبات پر کنٹرول کرنا سیکھتا ہے، اور صرف اپنے ہی جذبات کا خیال نہیں کرتا، دوسروں کے جذبات کا بھی لحاظ کرتا ہے۔ اس سے ہی انسان کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی جنم لیتی ہے۔

جذباتِ انسانی میں خوف، حسد، لالچ، غصہ اور بہت سے منفی جذبات شامل ہیں، مگر سب سے زیادہ اہمیت محبت اور نفرت کو حاصل ہے۔ محبت ایک مثبت جذبہ ہے، اور یہ جذبہ نہ ہوتا تو دنیا جس قدر بری جگہ ہے، اس سے بھی زیادہ بری ہوتی۔ لیکن جس چیز نے اس دنیا میں حسن و خوبصورتی پیدا کردی ہے وہ محبت ہے، جس کی ضرورت ہر شخص کو ہے۔ ماہرینِ نفسیات نے بتایا ہے کہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں، جو اصل میں اپنے لیے محبت چاہتے ہیں۔ یہ انسان کی ضرورت ہے کہ وہ کسی سے محبت کرے اور کوئی اس سے محبت کرے۔

جب بچہ دنیا میں قدم رکھتا ہے تو یہ محبت ہے جو اس کی پرورش کرتی ہے۔ جب بچہ مدرسے میں داخل ہوتا ہے تو وہ علم حاصل نہیں کرسکتا اگر اُسے استاد کی محبت اور شفقت نہ ملے۔ اور جب نوجوان تلاشِ معاش کی دوڑ دھوپ میں لگ جاتا ہے تو اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا اگر اُس کے عزیز و اقارب، دوست اور واقف کار اس کی ہمدردانہ رہنمائی نہ کریں۔ گھر بسانے کے بعد میاں بیوی کا تعلق صرف جنس کا نہیں ہوتا، اگر جنس ہی اصل چیز ہو تو اس تعلق کو جوانی کے بعد ختم ہوجانا چاہیے۔ لیکن عمر کے بڑھنے کے ساتھ میاں بیوی کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک بوڑھے آدمی اور ایک بوڑھی عورت میں ایک دوسرے کے لیے جنسی کشش نہیں، لیکن ان کا قلبی لگاؤ جوانی سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح محلہ داری، خاندان، برادری، قوم، وطن، ملت سے وابستگیوں کی بنیاد بھی باہم قلبی لگاؤ پر ہے۔ ایک دوسرے سے جذباتی وابستگی معاشرے کو بناتی ہے، اور جہاں یہ وابستگی کم ہو وہاں معاشرے کی بنیاد بھی کمزور ہوجاتی ہے۔

جس طرح انسان محبت کیے بغیر نہیں رہ سکتا، اسی طرح نفرت کیے بغیر بھی رہنا ممکن نہیں ہے۔ محبت اور نفرت دونوں بڑے طاقتور جذبے ہیں۔ یہ انسان کی شخصیت کو بنا بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ (عبدالکریم عابد)