سرمایہ کاری… کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

حکومت خصوصاً وزیراعظم محمد شہبازشریف اور اُن کے خاندان کے ارکان آج کل بیرونِ ملک کے سرمایہ داروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرنے کے لیے اپنا پورا زور صرف کررہے ہیں۔ وزیراعظم کی تمام سرگرمیوں کا مرکز و محور ہی بیرونی سرمایہ کاری کو پاکستان لانا ہے۔ اُن کی کوئی تقریر سرمایہ کاری کی اہمیت، پاکستان میں اس کے روشن مستقبل، تابناک امکانات اور پُرکشش مواقع کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ابھی ایک ڈیڑھ ماہ قبل سعودی عرب کے سرمایہ کاروں کے ایک وفد نے پاکستان کا دورہ کیا، اگرچہ وفد کے کسی رکن نے عملاً کوئی سرمایہ کاری تاحال نہیں کی، نہ ہی وفد کی طرف سے سرمایہ کاری کے کسی معاہدے پر دستخط کیے گئے، تاہم 2.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے آمادگی اور دلچسپی کے اظہار پر مشتمل مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کی اطلاعات ضرور حکومت نے دیں، اور محض مفاہمت کی یادداشتوں کی خوشی میں ہمارے یہاں کئی ہفتے تک جشن کا سماں رہا۔ پھر جناب وزیراعظم محمد شہبازشریف خود گزشتہ ہفتے سعودی عرب تشریف لے گئے اور ولی عہد شاہ سلمان سے ملاقات کے بعد یہ خوش خبری قوم کو سنائی کہ انہوں نے پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کی مالیت 2.2 ارب ڈالر سے بڑھا کر 2.8 ارب ڈالر کرنے کا تحفہ عنایت فرمایا ہے۔ سعودی عرب سے وزیراعظم قطر تشریف لے گئے اور وہاں بھی امیر قطر سے ملاقات کا ثمر یہ ملا کہ انہوں نے تقریباً تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان میں کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ ہمارے اربابِ اقتدار و اختیار میں سے کوئی چین، ترکی یا کسی دوسرے دوست ملک دورے پر جائے تو اس کا حاصل بھی اسی پیمانے سے ناپا جاتا ہے کہ اس نے وہاں سے کتنے سرمایہ کاروں کو کتنی سرمایہ کاری پاکستان میں کرنے پر تیار کیا ہے۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی، بیرونِ ملک سے کوئی رہنما یا وفد پاکستان تشریف لائے تو ہمارے وزیراعظم اور دوسرے وابستگانِ حکومت انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری ہی کی دعوت دیتے سنائی دیتے ہیں، چنانچہ سعودیہ اور قطر سے وزیراعظم کی واپسی پر برطانیہ کے معروف کاروباری حضرات پر مشتمل ایک وفد پاکستان آیا جس کی قیادت جناب زبیر عیسیٰ کررہے تھے۔ لاہور میں وفد کی وزیراعظم محمد شہبازشریف سے ملاقات کے بعد جو اعلامیہ ایوانِ وزیراعظم سے جاری کیا گیا اس کا لبِ لباب بھی یہی تھا کہ وزیراعظم نے وفد کے ارکان کو یقین دلایا کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا فروغ حکومت کی اوّلین ترجیح ہے، کاروباری اور تاجر برادری کو ایس آئی ایف سی کے ذریعے سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں، حکومت کی کوششوں سے معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوئی ہے جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے، اس لیے برطانوی سرمایہ کاروں کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ غرض یہ کہ ہمارے وزیراعظم اور دیگر اربابِ اقتدار بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ وزیراعظم کی بھتیجی، تین بار کے سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی صاحب زادی، پنجاب کی موجودہ وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز صاحبہ سے بھی کوئی غیر ملکی شخصیت یا وفد ملنے آئے تو وہ اسے سرمایہ کاری کی دعوت دینا نہیں بھولتیں۔ ہفتے کے روز اطالوی سفیر ماریلنا ارمیلن ان سے ملنے آئیں تو محترمہ نے انہیں بھی دعوت دی کہ اطالوی سرمایہ کار پنجاب آئیں، ہر ممکن سہولت دیں گے… اور سرکاری اطلاعات کے مطابق اطالوی سفیر نے اس ملاقات میں مویشی پروری اور دودھ کی مصنوعات میں سرمایہ کاری کرنے سے اتفاق بھی کرلیا۔

کسی بحث میں الجھے بغیر یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ سرمایہ کاری میں اضافے سے ملکی معیشت ترقی کرتی ہے، صنعت و حرفت بڑھتی ہے اور مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ مگر اس حقیقت سے آنکھیں کیونکر بند کرلی جائیں کہ بھاری سرمایہ کاری سے لگائی گئی موجودہ صنعتوں میں سے کم و بیش نصف اس وقت بند پڑی ہیں جس کا سبب حکومتی معاشی پالیسیاں اور بجلی کا بحران ہے۔ حکومت نئے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو پُرکشش سہولتوں کی پیشکشیں تو کررہی ہے مگر اس کی غلط پالیسیاں اور ملکی حالات موجودہ صنعتوں کی بندش اور بے روزگاری و غربت میں تیزی سے اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ جن مراعات کی پیشکشیں غیر ملکی نئی سرمایہ کاری پر کی جا رہی ہیں یہ آخر موجودہ صنعتوں کو فراہم کرکے انہیں بندش سے کیوں نہیں بچایا جا سکتا؟ پھر سعودی عرب جیسے برادر اور سرمایہ دار ملک سے جس سرمایہ کاری کے حصول پر ہم پھولے نہیں سما رہے کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس سے زیادہ زرمبادلہ ہمارے اپنے بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے ہر ماہ وطن بھیجا جاتا ہے۔ حکومت آخر ان کے لیے سہولتوں میں اضافے سے کیوں گریزاں ہے؟ کیا سازگار ماحول اور مناسب سہولتوں کی فراہمی کے ذریعے انہیں زیادہ آسانی سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری پرآمادہ نہیں کیا جا سکتا؟ مگر ہمارا نظام اور بیوروکریسی مسلسل اس کے راستے میں رکاوٹ بنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ آخر کیوں ان کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی؟

خوفِ طوالت کے پیش نظر، آخر میں یہ عرض کرنا بھی شاید مناسب ہوگا اور حکمرانوں کی طبع نازک پر گراں نہیں گزرے گا کہ وزیراعظم اور ان کی بھتیجی وزیراعلیٰ پنجاب بیرونی سرمایہ کاروں کو تو دن رات پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں مگر کیا وہ یہ وضاحت کرنا پسند فرمائیں گے کہ ان کے اپنے خاندان، عزیزوں، رشتے داروں اور زیراثر سرمایہ داروں نے خود بیرونِ ملک سرمایہ کاری کیوں کررکھی ہے؟ وہ جس ملک پر حکمرانی کرتے ہیں، جہاں سے سرمایہ کماتے ہیں، دوسروں کو جہاں سرمایہ لگانے کی ترغیب دیتے نہیں تھکتے، آخر خود وہاں سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے؟ ’’خود را فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘ … کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ جس کا قطعی کوئی جواز نہیں۔  (حامد ریاض ڈوگر)