حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین قسم کے آدمیوں سے بات نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا، نہ ہی ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور ان کو درد ناک عذاب ہوگا `1۔بوڑھا (ہونے کے باوجود) زنا کرنے والا۔ 2۔جھوٹ بولنے والابادشاہ3۔تکبر کرنے والا فقیر۔‘‘(مسلم ،کتاب الایمان )
دنیا کے اندر سب سے پہلی نافرمانی شیطان نے کی، شیطان سے پہلے اللہ کی نافرمانی کا تصور بھی دنیا میں نہیں تھا، اور شیطان نے جو اللہ کی نافرمانی کی، اس کا سبب اور علت تکبر اور بڑائی تھا کہ میں آدم سے افضل اور اعلیٰ ہوں، جیسے قرآن مجید کے اندر ہے کہ اس نے کہا’’َ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ“ کہ میں آدم سے اچھا ہوں، اس لیے کہ مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا ہے، اس لیے میں افضل و اعلیٰ ہوں، میں اس کو سجدہ کیوں کروں؟ یہ دنیا کے اندر سب سے پہلی نافرمانی تھی، اس کی وجہ اور بنیاد تکبر اور بڑائی تھی۔ اس تکبر کی وجہ سے اللہ نے اس کو (تکبر عزازیل را خوار کرد بزندان لعنت گرفتار کرد) رانده درگاه کردیا اور ملعون و مردود قرار دے کرجنت سے نکال دیا اور دوزخ میں ڈال دیا۔
تکبر ایک نحوست ہے، اس کا انجام برا ہے اور یہ سارے گناہوں کی جڑ ہے۔ تکبر سے غصہ پیدا ہوتا ہے اور تکبر سے حسد و بغض پیدا ہوتا ہے، تکبر کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف دی جاتی ہے، اسی کی وجہ سے دوسروں کی غیبت کی جاتی ہے۔ جب تک دل سے تکبر نہیں نکلے گا، اُس وقت تک ان تمام بیماریوں سے نجات نہیں مل سکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ دل سے تکبر کو نکال دیا جائے۔
تکبر کی تعریف: اپنے آپ کو دوسروں سے افضل اور اعلیٰ سمجھنا اور دوسروں کو اپنے مقابلے میں کمتر اور حقیر سمجھنا۔
تکبر کا تعلق دراصل دل سے ہے، لیکن انسان کآ چال چلن اور دوسری ظاہری چیزیں اس پر دلالت کرتی ہیں، مثلاً ایک آدمی کسی مجلس میں بیٹھا ہے، اب دوسرے کچھ لوگ اُس سے اچھی جگہ پر مثلاً اسٹیج وغیرہ پر بیٹھے ہیں اور وہ عام مجلس میں ہے۔ یا ایک آدمی ادنیٰ سواری پر سوار ہے اور دوسرے لوگ اچھی سواری پر سوار ہیں۔ اب وہ سمجھتا ہے کہ میں اس قابل تھا کہ اسٹیج پر بیٹھتا یا اچھی سواری پر سوار ہوتا، کیونکہ میں افضل اور بڑاہوں… تو یہ تکبر ہے۔
امام غزالی ؒنے تکبر کے جو اسباب بیان فرمائے ہیں، ان کا مختصراً ذکر کردیتے ہیں تاکہ تکبر سے بچنے میں آسانی پیدا ہو۔
تکبر کا پہلا سبب علم ہے، اور علماء میں بہت جلد تکبر آتا ہے کہ علماء اپنے علم کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا اور لوگوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ مثلاً وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں سلام کریں، ہم آئیں تو اٹھ کر ہمیں جگہ دیں، ہماری تعظیم کریں کیونکہ ہم بڑے ہیں، ہم اس کے حق دار ہیں۔ اگر اتفاقاً کسی کو پہلے سلام کریں یا کسی کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجائیں یا کسی کی عیادت کو جائیں، یا کسی کی دعوت قبول کریں تو سمجھتے ہیں کہ ہم نے ان پر احسان کیا ہے۔ اس لیے علماء کو زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں علم کی وجہ سے اُن میں تکبر تو نہیں پیدا ہوا؟ اگر کسی عالم میں تکبر ہو تو وہ علم حاصل کرنے کے بعد بھی جاہل رہتا ہے، وہ علم اُس کی تباہی اور بربادی کا سبب تو بن سکتا ہے، اُس کی نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
یا عبادت یا عمل کی وجہ سے تکبر کرتے ہیں کہ ہم عبادت کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، فلاں آدمی نماز نہیں پڑھتا، اس لیے میں اس سے افضل واعلیٰ ہوں، وہ تو بہت فاسق وفاجر ہے، میں نیک ہوں وغیرہ وغیرہ۔
يا حسب و نسب کی وجہ سے دوسرے آدمی سے اپنے آپ کو افضل و اعلیٰ سمجھتے ہیں، جو آدمی ان کے برابر کا نہ ہو اس کو حقیر اور نوکر سمجھتے ہیں، اس سے ملنے جلنے اور پاس بیٹھنے کو توہین سمجھتے ہیں اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ تم کون ہو، میرا باپ فلاں ہے، میرا دادا فلاں ہے، تجھے کیا طاقت ہے میرے سامنے بات کرنے اور بولنے کی؟ یا آدمی تکبر کرتا ہے حسن و جمال پر.. اور یہ اکثر عورتوں میں ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ دوسروں کے عیب بیان کرتی ہیں اور اپنے آپ کو حسین وجمیل اور خوبصورت سمجھتی ہیں۔
یا تکبر مال کی وجہ سے ہوتا ہے، مثلاً میں اتنا بڑا ہوں، میرے پاس اتنی زمین ہے، میں نے اتنی اچھی جوتی پہنی ہے، اتنا اچھا لباس پہنا ہے، میرے پاس اتنی اچھی گاڑی ہے، تُو کون ہے میرے سامنے بولنے والا! تُو اپنا لباس تو دیکھ! باتیں کرتا ہے۔ میں تجھ جیسوں کو خرید سکتا ہوں، تجھ سے اچھے اچھوں سے خدمت لیتا ہوں، تُو جتنا سال بھر میں کماتا ہے، میں اتنا ایک دن میں کماتا ہوں، تُو جتنا پورے مہینے میں خرچ کرتا ہے، اتنا میں ایک دن میں خرچ کرتا ہوں۔ یعنی مال کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا اور فقیر کو ذلیل اور حقیر سمجھتا ہے۔
یا تکبر قوت اور زور کا ہوتا ہے کہ میں بہت بڑا طاقتور ہوں، اگر ایک مُکّا لگادیا تو جان سے جائے گا، اپنی جان نہیں دیکھتا اور باتیں کرتا ہے۔
یا تکبر کثرتِ تابعین پر ہوتا ہے یعنی میری بات ماننے والے بہت ہیں ، اگر ایک اشارہ کردوں تو تیری بوٹی بوٹی کر دیں گے، یا تکبر ہوتا ہے فن میں کہ فلاں کام میں مَیں بڑا ماہر ہوں، فلاں کام کو میں تجھ سے زیادہ جاننے والا ہوں۔
خلاصہ یہ نکلا کہ تکبر کہتے ہیں اپنے آپ کو بڑا اور اعلیٰ وافضل سمجھنا، اور دوسروں کو حقیر اور ذلیل سمجھنا، خواہ کسی چیز کے اندر ہو اور جس طریقے سے بھی ہو۔ اسی وجہ سے حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ میری حالت یہ ہے کہ میں ہر مسلمان کو اپنے آپ سے فی الحال اور ہر کافر کو احتمالاً اپنے آپ سے افضل سمجھتا ہوں، مسلمان کو تو اس لیے افضل سمجھتا ہوں کہ وہ مسلمان اور صاحبِ ایمان ہے، اور کافر کو اس وجہ سے کہ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو کبھی ایمان کی توفیق عطا فرمائے اور وہ مجھ سے آگے بڑھ جائے ۔ (اصلاحی خطبات)
(مضمون ”کبر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی برائیاں“ سے اقتباس)