سب کھلاڑی پہلے سے طے شدہ کھیل میں کھلاڑی کے طور پر اپنا اپناکردار ادا کررہے ہیں
ہماری قومی سیاست کا منظرنامہ ہمیشہ سے متنازع رہا ہے، کیونکہ جو کھیل سیاست، جمہوریت، آئین و قانون سمیت عوام کی محبت میں کھیلا جاتا ہے وہ دراصل اقتدار کی رسّاکشی یا پتلی تماشا ہوتا ہے۔ اس کھیل میں سیاسی نعرے، اصول، نظریات، سوچ اور فکر سب کو طاقت کے مراکز ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت بھی اسلام آباد اور پنڈی کی سیاست میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے ملک یا عوام کو کوئی فائدہ نہیں مل رہا۔ کیونکہ لڑائی طاقت کے مراکز میں ہے اور سب فریق ایک دوسرے پر اپنی اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تنائو اور ٹکرائو کے اس کھیل میں قومی سیاست کا اسٹیج سجا ہوا ہے اور سب کھلاڑی یا تو پہلے سے طے شدہ کھیل میں کھلاڑی کے طور پر اپنا اپناکردار ادا کررہے ہیں یا کچھ فریق اس پہلے سے طے شدہ کھیل میں اپنا سیاسی حصہ تلاش کرنے میں مصروف ہیں اور ان کی مزاحمت بھی اسی نقطے کے گرد گھومتی ہے۔ پاکستان کی سیاست پہلے ہی ریموٹ کنٹرول کی بنیاد پر چلائی جارہی ہے، اسے آج کی سیاست میں ہائبرڈ سیاسی ماڈل کہا جاتاہے جہاں سیاسی قوتیں بڑی طاقتوں کے کنٹرول میں ہوتی ہیں اور وہی کچھ سیاسی بنیادوں پر کرتی ہیں جو طاقت کے مراکز چاہتے ہیں۔ عمومی طور پر ہمارے سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ٹکرائو کے کھیل میں مفاہمت، مزاحمت، ڈیل کی باتیں عام ہوتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں مزاحمت کو بنیاد بناکر ڈیل کی طرف پیش قدمی کرتی ہیں کیونکہ اُن کو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ طاقت کا مرکز نہیں بلکہ ان کو طاقت کے مراکز کے ساتھ ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر مفاہمت ہی کرنا ہوتی ہے۔ یہی کچھ ہماری سیاست کا وتیرہ رہا ہے اور اسی بنیاد پر سیاست کا کھیل اپنا رنگ دکھاتا رہا ہے۔
اِس بار کھیل میں ایک بڑی تبدیلی عمران خان اور پی ٹی آئی کی صورت میں سامنے آئی، اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے مقابلے میں عوام کو ایک تیسری قوت کی مزاحمت دیکھنے کو ملی۔ ایک عمومی رائے یہی تھی کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کے سامنے کچھ بھی نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی پارٹی اپنا سیاسی وجود برقرار رکھ سکے گی۔ کیونکہ 9 مئی کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو ایک ایسی جگہ پر لاکر کھڑا کردیا گیا تھا جہاں وہ اپنے دفاع میں ناکام رہے اور لوگ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر کسی نئی جماعت میں سیاسی بسیرا کرلیں۔ اسی کے تحت خیبر پختون خوا میں پرویز خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی پارلیمنٹرین، اور جہانگیر ترین اور علیم خان کی شکل میں آئی پی پی کا کھیل کھیلا گیا، مگر یہ لوگ پی ٹی آئی اور عمران خان کی مقبولیت کے سامنے کچے گھڑے ثابت ہوئے اور اسٹیبلشمنٹ کا یہ اسکرپٹ بری طرح ناکامی سے دوچار ہوا۔ جو لوگ اس کھیل کا حصہ بنے اُن کو اپنے فیصلے پر ندامت ہے اور وہ دوبارہ پی ٹی آئی میں واپسی کا راستہ دیکھ رہے ہیں، اور ان کا فیصلہ بانی پی ٹی آئی کو اپنی رہائی کے بعد کرنا ہے۔ عمران خان کے بارے میں یہی کہا گیا تھا کہ وہ مزاحمت کے کھلاڑی نہیں اور نہ ہی اپنے خلاف کسی سختی کو برداشت کرسکیں گے۔ لیکن عمران خان کی مزاحمت نے عملی طور پر اپنے تمام سیاسی اور غیر سیاسی مخالفین کو مایوس کیا، اور اب وہ ایک بڑی مزاحمت کو بنیاد بناکر ایک بڑی لڑائی میں شریک ہیں۔ عمران خان کی مخالف تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں مل کر بھی ان کی سیاسی مقبولیت کو کم نہیں کرسکی ہیں۔ اسی لیے آج بھی قومی سیاست کا گھنٹہ گھر عمران خان بنے ہوئے ہیں، اور چاہے سیاست عمران خان کے حق میں ہورہی ہو یا مخالفت میں… بنیاد عمران خان ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے سیاسی پنڈتوں کے بقول جب تک عمران خان سے طاقت کے مراکز کے معاملات درست نہیں ہوں گے ریاستی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ غیر سیاسی قوتوں کے لیے عمران خان مخالف سیاسی قوتوں نے خود کو ایک بڑے بوجھ کے طور پر پیش کیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ ہمارے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی صلاحیت موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ ویسے بھی موجودہ حکومت کا سیاسی بندوبست اسٹیبلشمنٹ کے سہارے کھڑا ہے اور ان کی حمایت کے بغیر اس حکومت کا کوئی وجود نہیں، اور نہ ہی وہ قومی معاملات میں بہتری پیدا کرسکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایک بار پھر قومی سیاست میں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پسِ پردہ کھیل یا مفاہمت کی باتیں چل رہی ہیں۔ اس کھیل میں ایک طرف امریکی کانگریس اور برطانوی پارلیمنٹ کے درجنوں ارکان کا اپنی اپنی حکومتوں کو خط ہے کہ وہ پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی میں کوئی کردار ادا کریں، کیونکہ ان کے بقول عمران خان اور ان کی جماعت کو ریاستی و حکومتی جبر کا سامنا ہے اور انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے بھی یہی کہا ہے کہ پاکستان میں عمران خان کو سیاسی بنیادوں پر انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی رہائی کو بھی اسی پسِ پردہ کھیل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، اور بقول وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور کے، اس رہائی میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔ اسی عمل میں عمران خان کی دونوں بہنوں کی رہائی بھی ممکن ہوئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں شاہ محمود قریشی سمیت کئی اور لوگوں کو بھی جیلوں سے رہائی مل سکتی ہے۔ بہت دنوں سے عمران خان کے لب ولہجے میں اسٹیبلشمنٹ کے خلات کوئی سختی بھی نہیں، اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے 9مئی سمیت دیگر معاملات پر پی ٹی آئی اور عمران خان مخالفت کا کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ عملی طور پر دونوں طرف کسی نہ کسی شکل میں سیز فائر نظر آتا ہے، یا کچھ بات چیت چل رہی ہے، اور اسی بنیاد پر مزاحمت کا پہلو کمزور اور مفاہمت کا پہلو زیادہ مضبوط نظر آتا ہے۔ اگرچہ کچھ سیاسی پنڈت یہی کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کسی بھی صورت میں عمران خان سے نہ تو کوئی بات چیت کرے گی اور نہ ہی مفاہمت۔ لیکن جو کھیل پردے کے پیچھے کھیلا جارہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے آثار یہی بتاتے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، وگرنہ یہ سیاسی خاموشی کا کھیل ایسے ہی نہیں دیکھنے کو مل رہا۔ لیکن اصل کھیل یہ دیکھنا ہے کہ اس مفاہمت یا ڈیل کی سیاست میںکون کس پر بھاری ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ عمران خان ضرور مفاہمت چاہتے ہیں مگر اپنی شرائط پر… اور یہی سوچ اسٹیبلشمنٹ کی بھی ہے کہ ان کا ہی سیاسی پلڑا بھاری رہے۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے کوئی کمزوری دکھائی تو ان کی سیاسی مقبولیت ختم ہوجائے گی، جس کا نقصان ان کو مستقبل کی سیاست اور انتخابات کی صورت میں دیکھنے کو ملے گا۔ عمران خان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نئے چیف جسٹس یقینی طور پر اگر حکومت کی طرف جھکائو رکھتے ہیں تب بھی ان کا مجموعی کردار جسٹس فائز عیسیٰ سے مختلف ہوگا اور اسی تناظر میں آج نہیں تو کل اُن کو انہی عدالتوں سے ریلیف مل سکے گا۔ اصولی طور پر اب یہ ایک نفسیاتی جنگ ہے،اور جس کی نفسیات مضبوط ہوگی وہی دوسرے پر غالب ہوگا۔ لیکن مسئلہ کسی ایک کی بالادستی کا نہیں بلکہ ریاستی مفاد کا ہے، اور جو گاڑی رکی ہوئی ہے اسے ریاستی نظام میں چلانا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ویسے بھی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کو اور کتنا آگے بڑھنا ہے! امکان یہی ہے کہ عمران خان کو اب لمبی مدت کے لیے مزید جیل میں نہیں رکھا جاسکے گا۔ دوسری طرف یقینی طور پر حکومتی کیمپ میں مایوسی ہے اور ان کو بھی لگ رہا ہے کہ ہماری خواہش کے برعکس پسِ پردہ کچھ نہ کچھ تو عمران خان کے ساتھ ہورہا ہے، اور اسی بنیاد پر عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اور اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان کے خلاف غصہ کم دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک بڑی تبدیلی امریکہ کے حالیہ انتخابات اور نتائج کی بنیاد پر بھی دیکھی جارہی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر ٹرمپ اس بار امریکہ کے صدر بنتے ہیں تو اس کا فائدہ عمران خان کو ہوگا۔ یہ بات کس حد تک درست ہے اس کا فیصلہ تو امریکی انتخابات کے نتائج کے بعد ہی سامنے آئے گا، مگر ایک بات طے ہے کہ عمران خان کی حمایت مسلسل عالمی راہنمائوں اور دنیا میں بڑھ رہی ہے، جس کا ایک اثر یقینی طور پر ہماری داخلی سیاست اور فیصلہ کرنے والوں پر بھی ہوگا۔ پی ٹی آئی نے ایک طرف مفاہمت اور دوسری طرف مزاحمت کا کارڈ کھیلا ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ مفاہمت میں ناکامی کے بعد فیصلہ کن جنگ اسلام آباد میں ایک بڑے دھرنے یا لانگ مارچ کی صورت میں ہوگی اور اس پر کوئی سمجھوتاز نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اس کا فیصلہ مفاہمت کی ناکامی کی صورت میں کیا جائے گا۔ فی الحال مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھنے کی جو بھی کوشش ہورہی ہے پی ٹی آئی اس کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ ویسے بھی پی ٹی آئی میں جو گروپ بندی ہے اس میں زیادہ بھاری وہی گروپ ہے جو مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھ کر اسٹیلشمنٹ سے مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔ اسی گروپ نے عمران خان کو بھی یہی باور کروایا ہے کہ اگر کوئی راستہ نکلے گا تو وہ پنڈی سے مفاہمت کی صورت میں ہی نکلے گا۔
دوسری طرف حکومت عدلیہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے تین مختلف حکمت عملیوں پر کام کررہی ہے، اور اسے لگتا ہے کہ نئے چیف جسٹس بھی حکومت کو آگے جاکر مشکل وقت دے سکتے ہیں۔ حکومت کو اس بات پر بھی گلہ ہے کہ نئے چیف جسٹس ابتدا ہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو اپنے قریب کررہے ہیں اور ان کے بغیر وہ آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومتی کھیل میں عدلیہ کو مکمل کنٹرول کرنا مقصود ہے، اسی بنیاد پر سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17سے 34 کردی گئی ہے۔ دوسری طرف جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ 26ویں ترمیم پر فل کورٹ اجلاس طلب کیا جائے۔ چیف جسٹس نے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے جو یقینی طور پر حکومت کے لیے ایک بڑا ریلیف ہے۔ نئے ججوں کی تقرری کا مقصد عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنا نہیں بلکہ اپنی مرضی کے ججوں کی تقرری کو ممکن بناکر عدلیہ پر اپنا کنٹرول بڑھانا ہے۔ یہ کام اس لیے بھی حکومت کے لیے آسان ہوگیا ہے کہ اب ججوں کی تقرری کا طریقہ کار ہی بدل گیا ہے جو حکومت کے حق میں جاتا ہے۔ دوسری طرف 27ویں ترمیم کو بنیاد بناکر فوجی عدالتوں کے قیام کی باتیں بھی کی جارہی ہیں، حالانکہ سپریم کورٹ پہلے ہی فوجی عدالتوں کی مخالفت میں اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت کو عدالتوں سے کوئی ریلیف نہ ملے اور سیاسی نظام پر حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کا غلبہ رہے۔ اس وقت حکومت سیاسی مخالفت میں سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو عتاب کا نشانہ بنارہی ہے۔ انسدادِ دہشت گردی قانون میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کردیاگیا ہے اور ابتدا میں پی ٹی آئی اور جے یو آئی نے اس کی مخالفت کی ہے۔ اس بل کے مطابق ملکی سلامتی، دفاع اور امن سے متعلق جرائم میں ملوث افراد کی تحقیقات جے آئی ٹی کرے گی اورفورسز کو تین ماہ تک حراست میں رکھنے کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیوں، آرمڈ فورسز اور فوج کے نمائندے جے آئی ٹی میں شامل ہوں گے، اور ملزمان کی نظربندی آرٹیکل 10اے کے تحت ہوگی۔ اسی طرح اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ پر بھی تین ماہ زیر حراست رکھا جاسکے گا۔ لیکن سب سے دلچسپ پہلو حکومت کی جانب سے نئی قانون سازی ہے جس میں نہ صرف ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوٖں کی تعداد بڑھاکر 12کرنے کی منظوری دی گئی ہے، جبکہ جسٹس منیب اختر کا راستہ روکنے کے لیے بنچز تشکیل کمیٹی کا تیسرا رکن آئینی بنچ کا سینئر ترین جج ہوگا۔ جبکہ حکومت نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل بھی کثرتِ رائے سے منظور کرلیا ہے جس کے تحت تینوں چیفس کی مدت ملازمت تین برس سے پانچ برس کردی گئی ہے۔ اس فیصلے کے تحت موجودہ آرمی چیف 2028ء تک اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔ اس ترمیم پر پیپلزپارٹی کے مرکزی راہنما سینیٹر رضا ربانی کے بقول یہ دن پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاسی ترین دن ہے اور اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے۔ اس ترمیم سے پارلیمنٹ کی سیاسی حیثیت بھی سمجھ میں آگئی کہ اس کی اپنی خودمختاری کہاں کھڑی ہے اور سب نے مل کر ایک دوسرے کے معاملات کو تحفظ دے کر ذاتیات پر مبنی سیاست کی ہے۔ اسی طرح اسلام آباد میں چیف جسٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی ملاقات بھی اہم ہے، اس ملاقات میں چیف جسٹس نے ان ججوں کو یقین دلایا ہے کہ عدالتی نظام میں حکومتی یا ایجنسیوں کی جو بھی مداخلت ہے وہ اس پر عدالت اور ججوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بظاہر سب نے اپنے اپنے مفاد کے تحت سیاسی مقاصد حال کرلیے ہیں، لیکن اس کھیل میں ایک بڑی لڑائی بھی نظر آرہی ہے جو آنے والے دنوں میں قومی سیاست کے منظر پر غالب ہوگی۔