اے ار۱ضِ فلسطین

کہو مہتاب سے ہمت نہ ہارے
افق پر خون ہے مہر مبیں کا
گلا گھونٹا گیا ہے روشنی کا
گریبانِ شفق پر دستِ ظلمت
ستاروں کو اشارہ خامشی کا

مگر شاید پرستارانِ ظلمت
مزاجِ نور سے واقف نہیں ہیں
شعاعِ طور سے واقف نہیں ہیں

وہ دیکھو ظلمتِ شب کے مقابل
نقیبِ نور بن کر کوئی تنہا
اندھیرے کے سمندر میں کھڑا ہے
فلک پر ایک روشن دائرہ ہے
ہزاروں ٹمٹماتے ہیں ستارے

کہو مہتاب سے ہمت نہ ہارے

اگرچہ جبر کی پرچھائیاں ہیں
شمیمِ گلشنِ جاں کی مہک سے
حریمِ نور میں انگڑائیاں ہیں

چراغِ عشق بے خوف و خطر ہے
ہوا پر دخترِ شب کی نظر ہے
مگر اک چاند اپنی راہ پر ہے

سو اے روشن جبینو یاد رکھو
اندھیروں سے بغاوت کرنے والو
سحر کا عزم زندہ باد رکھو
امیدوں کے نگر آباد رکھو

یہ ظلمت کا بھرم تاراج ہو گا
زمیں پر روشنی کا راج ہو گا
گرے گا مسندِ شاہی پہ گنبد
اچھالے جائیں گے یہ تاج سارے

کہو مہتاب سے ہمت نہ ہارے