فضیلۃ الشیخ ثناء اللہ عبدالرحیم بلتستانی جب بھی پکارتے ہیں تو’’اے ابونثر! اے ادیبِ لبیب کالزّبیب!‘‘کہہ کر پکارتے ہیں۔ ’ادیب‘ کا لفظ سن کر تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ ایک ’شیخ الشرع‘ نے ہمیں ’ادیب‘ قرار دے ڈالا۔ مگر ’لبیب اور زبیب ‘کے القاب سن کر ذرا سہم، بلکہ سکڑ جاتے ہیں کہ ’’یااللہ یہ کون سی دو بلائیں ہیں، جو حضرت ہمارے نام کو لگائے ہیں؟‘‘
لغت سے رجوع لائے تو معلوم ہوا کہ ’لبیب‘ تو عقل مند اور دانا کو کہتے ہیں، لیکن ’زبیب‘کہتے ہیں کشمش کو۔ ’کالزّبیب‘ (تلفظ: ’کَزَّبِیب‘) کے معنی ہوئے ’کشمش جیسا‘۔ نہ جانے شیخ نے یہ لقب ہماری تحریروں کی مٹھاس سے متاثر ہوکر دیا ہے یا ہمارا چُرمُر چہرہ دیکھ کر۔
شیخ کی بات یوں یاد آئی کہ کل ایک اور صاحب ہمیں ادیب کہہ بیٹھے۔ یہ صاحب محقق ہیں اور ایک سرکاری جامعہ سے اُردو میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمیں دیکھا تو دیکھتے ہی فرمایا:
’’قبلہ! آپ تو ادیب ہیں۔ ذرا یہ بتائیے کہ اُردو میں ‘Deduction’کے لیے بھی کوئی لفظ ہے یا نہیں؟‘‘
’’ہاں ہاں، ہے کیوں نہیں؟‘‘ ہم نے کمیاب مال بیچنے والے دُکان داروں کی سی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔
پوچھا: ’’کیا ہے؟‘‘کہا: ’’استخراج!‘‘ بلبلا کر بولے: ’’اس سے تو ‘Deduction’ ہی بہتر ہے‘‘۔
حیرت سے استفسار کیا: ’’وہ کیسے؟‘‘ فرمایا: ’’نامانوس لفظ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بولتے ہی قے ہوجائے گی‘‘۔
عرض کیا: ’’قے کو ’استفراغ‘کہتے ہیں۔ رہا نامانوس ہونے کا معاملہ، تواُردوکے لیے ‘Deduction’ کون سا مانوس لفظ ہے؟‘‘
صاحبو! الفاظ اور اصطلاحات کو بول بول کر مانوس بنایا جاتا ہے۔ ہمارے برقی ذرائع ابلاغ نے تھوڑی تھوڑی دیر بعد ’بریکنگ نیوز‘ بول بول کر اسے سامعین و ناظرین کے لیے مانوس بنانے کی بھرپور جدوجہد کی ہے۔ جب کہ ’تازہ خبر‘کو باسی جان کر استعمال کرنا ہی چھوڑ دیا ہے، اس وجہ سے یہ عام فہم ترکیب نامانوس ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے ابلاغی دانش وروں کے پاس شاید اب ذاتی عقل و دانش نہیں رہی۔ وہ محض نقال بن کر رہ گئے ہیں۔ نقال کتنی ہی اچھی نقل کیوں نہ اُتارنے لگے، رہے گا نقال کا نقال۔ موجد نہیں بن سکتا۔ اِنھیں نقالوں کی وجہ سے وہ زمانہ لد گیا جب کوّے ہنس کی چال چلا کرتے تھے۔ اب تو ہمارے راج ہنس ہی پھدک پھدک کر کوّوں کی چال چل رہے ہیں۔
’استخراج‘ ہمارے محققِ محترم کو کیوں نامانوس لگا؟ فقط یہ بات کہ قومی زبان سے اُنسیت دیدہ و دانستہ ختم کی جارہی ہے۔ ہمارے قومی رہنما، قوم کے معزز منصفین اور قومی قانون ساز ہی نہیں، معلمینِ قوم سمیت سب ہی پاکستان میں، پاکستانیوں سے برطانوی زبان بول بول کر اپنی گردن اکڑاتے ہیں۔ شاید اب یہ قومی زبان بول بھی نہیں سکتے کہ محاورہ کہتا ہے:’’…اپنی چال بھی بھول گیا‘‘۔
’استخراج‘ کا لفظ خارج ہوا ’خَرَجَ‘ سے۔ ’خَرَجَ‘ کے معنی ہیں ’وہ نکلا‘۔ اس ایک لفظ سے بہت سے ایسے الفاظ نکل آئے جو اُردو میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے اِخراج یعنی نکال دینا۔ خراج یعنی محصول یا لگان، جو یوں تو بالجبر وصول کیا جاتا ہے، لیکن اگر ہمیں کسی کی کوئی بات اچھی یا حسین لگے تو اُسے راضی خوشی’خراجِ تحسین‘ پیش کرتے ہیں۔ کسی سے عقیدت ہوجائے تو اُسے ’خراج عقیدت‘ پیش کیا جاتا ہے۔ خارج کا لفظ بھی بہت سے معنوں میں عام استعمال ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی دائرے، حلقے یا حدود سے باہر، الگ، بیرونی، داخل کی ضد یا وہ جو شامل نہ ہو۔ اسی برصغیر میں جب کسی کو شہر بدر کیا جاتا تھا تو اُسے ’خارج البلد‘ قرار دیا جاتا تھا۔ عربوں کے ہاں غیر ملکی کو بھی خارجی کہتے ہیں، جب کہ اصطلاحاً وہ لوگ ’خارجی‘ ہیں جو سیدنا علیؓ کی خلافت کو برحق نہیں مانتے۔ ان کی جمع خوارج ہے۔ خارجہ کا لفظ بھی بہت بولا جاتا ہے۔ اُمورِ خارجہ، وزارتِ خارجہ اور وزیرِ خارجہ۔ ان سب کا تعلق خارجی یعنی غیرملکی معاملات سے ہے۔ مخرج کا لفظ بھی خوب استعمال ہوتا ہے جس کے معنی ہیں نکلنے کی جگہ۔ جمع اس کی مخارج ہے۔ خروج باہر نکلنا یا ظاہر ہونا۔ ’تحقیق‘ سے ہم مانوس ہیں، لیکن ’تخریج‘ سے نہیں، جس کا مطلب ہے نصوص سے احکام اخذ کرنا یا حوالہ نکالنا۔ ہر وقت استعمال کرنے کی وجہ سے لفظ ’استعمال‘ نامانوس نہیں رہا کہ استعمال کا مخرج ’عمل‘ ہے، یعنی کسی چیز کو عمل یا مصرف میں لانا اور برتنا۔ لیکن ’استخراج‘ کو نہ جانے کیوں نامانوس کہا گیا جس کے معنی ہیں اخذ کرنے کا عمل، نتیجہ نکالنے کا عمل یا استنباط کرنے کا عمل۔ ایک دلچسپ بات آپ کو اور بتاتے چلیں کہ عربی میں ’ر‘ ساکن کے ساتھ ’خرج‘ بولا جاتا ہے جو اُردو میں آکر ’خرچ‘ بن گیا ہے اور خرّاج [بہت زیادہ خرچ کرنے والے] شخص کو ہم بھی ’خرّاچ‘ کہنے لگے ہیں۔
محترم گلزار احمد صاحب نے حاصل پورمنڈی، بہاول پور سے ہمیں ایک نہایت طویل خط بھیجا ہے۔ خط کیا لکھا ہے، ’خطِ استوا‘ لکھ دیا ہے، جو پورے کرۂ ارضی کا احاطہ کرتا ہے۔ اس خط سے ہم اپنی اور اپنے قارئین کی اصلاح پر مشتمل ایک مختصر اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، کہ ان کالموں کا مقصد ہی ’غلطی ہائے مضامین‘ کی اصلاح ہے :
’’۱۸؍اکتوبر۲۰۲۴ء کو شائع ہونے والا ’’غلطی ہائے مضامین‘‘ بہ عنوان ’الفاظ کے سر پر نہیں اڑتے معنی‘ حسب سابق معلومات کا ذخیرہ تھا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سماجی رابطوں کے ذرائع ابلاغ میں لفظ ’بالکل‘ کا املا جس تیزی سے ’بلکل‘ رواج پا رہا ہے، اس کی اصلاح کے لیے ہر صاحبِ علم کو اپنا فریضہ ادا کرنا چاہیے۔ وطنِ عزیز میں اس وقت جو کھلواڑ اُردو کے ساتھ روا رکھا گیا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہماری ’فیس بک‘ کے علم سے ’نشو و نَما‘ پانے والی نوجوان نسل مستقبل میں ’بلکل‘ ہی کو سند قرار دینے پر مصر دکھائی دے۔ آپ کا یہ لکھنا کہ ’ال‘ تخصیص کے لیے آتا ہے ‘The’کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ بے شک و شبہ درست ہے، مگر بالکل میں ’ال‘ تخصیص کے لیے استعمال نہیں ہوا، بلکہ یہ ’ال‘ تعریفی ہے، جو حرفِ جر ’بِ‘ کو ،کُل کے ساتھ ملانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جیسے: بالقرآن، بالقلم، بالکتاب، بالتفصیل، بالعموم اور بالخصوص وغیرہ میں۔ ان الفاظ (قلم، کتاب، تفصیل، عموم اور خصوص) کے شروع میں ’ال‘ لگا کر انھیں اسمِ مَعرِفَہ نہیں بنایا گیا، بلکہ عربی زبان کا اُصول یہ ہے کہ جب کسی اسم کے ساتھ کوئی بھی حرفِ جر ملایا جاتا ہے تو اُس اسم سے پہلے ’ال‘ لگایا جاتا ہے۔ بعض اسما میں یہ ’ال‘ لکھنے، پڑھنے اور بولنے یعنی تینوں صورتوں میں آواز دیتا ہے اور بعض اسما میں یہ ’ال‘ لکھنے میں تو آتا ہے مگر بولنے اور پڑھنے میں نہیں آتا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کے حروفِ تہجی کی تعداد اٹھائیس ہے۔ (بعض ہمزہ کو شامل کرکے اس کی تعداد اُنتِیس شمار کرتے ہیں، مگر ہمزہ حرفِ اصلی نہیں ہے۔ کیوں کہ جب الف پر زبر، زیر یا پیش آجائے تو عربی میں اُس ’الف‘ کو ہمزہ پڑھا جاتا ہے) ان اٹھائیس حروفِ تہجی میں سے چودہ حروف قمری ہیں اور چودہ شمسی۔ قمری حروف کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولنے اور پڑھنے میں آتا ہے، جیسے القمر، الکاتب اور الحق وغیرہ، مگر شمسی حروف کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولنے اور پڑھنے میں نہیں آتا، جیسے الشمس، الرشید اور الثاقب وغیرہ۔ کسی ادیب نے ’’حق کا خوف عجب غم ہے‘‘ کَہ کر ان حروفِ قمری کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ یعنی اس جملے’حق کا خوف عجب غم ہے‘ میں چودہ حرف استعمال ہوئے ہیں، جو کہ قمری حروف ہیں۔ ان کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولا بھی جائے گا اور پڑھا بھی، جب کہ باقی رہ جانے والے چودہ حرف شمسی ہیں، ان کے شروع میں لکھا جانے والا ’ال‘ بولا اور پڑھا نہیں جائے گا۔ لفظ’بالکل‘ میں یہی اصول کارفرما ہے۔ یعنی ’الکل‘ میں ’ک‘حرفِ قمری ہے۔ اس کے شروع میں ’بِ‘ حرفِ جر لگانے کے لیے ’ال‘ لکھا گیا ہے،جوحرفِ جَر ’ب‘ لگانے کے بعد (بالکل) بولنے اور پڑھنے میں آرہا ہے۔ جب کہ ’تفصیل‘ میں ’ت‘ حرفِ شمسی ہے۔ اس کے شروع میں ’بِ‘ حرفِ جر لگانے کے لیے ’ال‘ لکھا گیا ہے،جوبولنے اور پڑھنے میں (بالتفصیل)کی آواز دے رہا ہے۔ یعنی ’ل‘ لکھا ہونے کے باوجود (لام) کی آواز پیدا نہیں ہورہی۔ پس جان لیجیے کہ’بالکل‘ میں’کُل‘ سے پہلے ’ال‘ تعریفی ہے، تخصیصی نہیں‘‘۔