اخبار الوفیات (1870ء تا 1970ء)

وفیات نگاری (دنیا سے گزرے ہوئے لوگوں کی باتیں، گزر جانے والے دوست احباب بالخصوص مشاہیر کا ذکر) کا شمار تاریخ کے اہم ماخذ میں ہوتا ہے۔ وفیات نگار ی کی روایت کا آغاز عربی زبان میں ہوا، اور اس نے دوسری زبانوں فارسی، ترکی اور اردو کو بھی متاثر کیا۔ اسلامی تاریخ میں وفیات کے موضوع پر لکھی جانے والی کتب میں سب سے زیادہ شہرت جس کتاب کو حاصل ہوئی وہ ابوالعباس شمس الدین احمد المعروف ابن خلکان (م681ھ/1282ء)کی وفیات الاعیان وانباء الزمان ہے۔ ابن خلکان نے اس کتاب میں مختلف طبقات الناس، علماء، شعراء اور وزراء کے حالات جمع کیے ہیں۔ علاوہ ازیں وفیات کے عنوان پر لکھی جانے والی کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے جن سے اہلِ علم بخوبی واقف ہیں۔

مسلمانوں کی اس علمی روایت کوآگے بڑھانے میں اردو کے علمی و دینی جرائد نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ جرائد میں شائع ہونے والی وفیات کی مدد سے تاریخ کی اس صنف پر بہت سی کتابیں مرتب و مدون ہوئی ہیں۔ ایسی ہی ایک کتاب ’’اخبار الوفیات‘‘ پیشِ نظر ہے۔ اخبارالوفیات میں معاصر اخبارات اور جرائد و رسائل سے ماخوذ برصغیر پاک و ہند کے پانچ سو سے زائد مشاہیرکی وفیات سے متعلق اطلاعات، نظمیں اور قطعاتِ تواریخ جمع کیے گئے ہیں، جس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بعض ایسی شخصیات جن کی تاریخِ وصال کے بارے میں کوئی اطلاع نہ تھی یا کتب ِ تاریخ و تذکرہ میں تاریخِ وصال کا غلط اندراج ہوگیا ہے، اس کی تصحیح و تعین کے بارے میں مستند شواہد میسر آگئے ہیں جس کی کئی مثالیں فاضل محقق نے اپنے ’’افتتاحیہ‘‘ میں درج کی ہیں۔

بعض ایسی شخصیات کا تذکرہ بھی اس کتاب میں شامل ہے جن کے احوال کسی دوسری کتاب میں درج نہیں ہیں یا اگر کہیں مذکور بھی ہیں تو بالکل مختصر۔ مثلاً: مولانا عبیداللہ پائلی (مصنف تحفۃ الہند) کے کوائف بہت کم ملتے ہیں، جس قدر ان کی تالیف معروف ہے اتنا ہی ان کے احوال کم کم میسر ہیں، اندریں حالات ان کے وصال کی خبر اور مختصر احوال بھی اہم اور غنیمت ہیں۔ اسی طرح خلیفہ حمید الدین لاہوری (بانی انجمن حمایت اسلام لاہور و مدرسہ حمیدیہ لاہور) کا مفصل تعارف معروف کتب ِ تذکرہ میں نہیں ملتا۔ اس کتاب میں انجمن حمایت اسلام کے ماہوار رسالے سے ان کے وصال کی خبر اور تعارف وغیرہ شامل کیا گیا ہے جس سے خلیفہ حمیدالدین لاہوری کے بارے میں مزید معلومات کے حصول میں رہنمائی مل سکتی ہے۔ بعض مشاہیر کے خاندان کی خواتین کی وفیات بھی اس کتاب میں شامل ہیں۔

اخبار الوفیات کے بنیادی ماخذ ہفت روزہ سراج الاخبار (جہلم)، ہفت روزہ اخبار اہل فقہ (امرتسر)، ہفت روزہ اخبارالفقیہ(امرتسر)، روزنامہ پیسہ اخبار(لاہور)، روزنامہ زمیندار (لاہور)، منشور محمدی (بنگلور)، ہفت روزہ دبدبہ سکندری (رام پور)، ہفت روزہ اودھ اخبار (لکھنو)، اخبار الہدایت (دہلی)، ماہنامہ انوارالصوفیہ (لاہور)، ماہنامہ الرضا (بریلی)، ماہنامہ تحفہ حنفیہ (پٹنہ)، ماہنامہ السوادالاعظم(مراد آباد)، ماہنامہ الہدیٰ (لاہور)، انجمن نعمانیہ کا ماہوار رسالہ (لاہور)، انوارالصوفیہ (سیالکوٹ، لاہور) اور روزنامہ انقلاب (لاہور) وغیرہ ہیں۔ پہلی خبر 1870ء جب کہ آخری خبر 1970ء کی ہے۔

اس کتاب کی تحقیق وتالیف کا فریضہ نوجوان محقق محمد ثاقب رضا قادری (پ:1984ء) نے بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ فاضل محقق و مؤلف نے کہیں کہیں مختصر لیکن مفید حواشی بھی تحریر کیے ہیں اور جن شخصیات کے حالات کسی کتاب یا رسالے میں دستیاب ہیں، حاشیے میں اس کی نشاندہی بھی کی ہے۔624 صفحات پر محیط یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔ زمانۂ ماضیِ قریب کے کتنے ہی اہلِ علم و دانش اور نابغہ روزگار شخصیات، آج جن کے ناموں سے بھی لوگ واقف نہیں ہیں، کا ذکر اس کتاب میں موجود ہے۔ امید ہے وفیات پر یہ کتاب تاریخ کا ایک اہم ماخذ ثابت ہوگی اورمستقبل کے مؤرخ کے لیے حوالے کا کام دے گی۔

محمد ثاقب قادری دینی و عصری علوم سے آراستہ ہیں اور بہت سنجیدگی، خاموشی اور مستقل مزاجی سے کام کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ اس سے قبل متعدد اہم علمی و تحقیقی نوعیت کے کام انجام دے چکے ہیں جن میں’’رسائلِ حسن‘‘(حضرت حسنؔ بریلوی کے نثری رسائل کا مجموعہ)، ’’کلیات حسن‘‘(حضرت حسنؔ بریلوی کی منظومات کا مجموعہ)، ’’رسائل محدث قصوری‘‘ (مفتی غلام دستگیر قصوری کے 16 رسائل کا مجموعہ)، ’’مفتی سید غلام معین الدین نعیمی(حیات و خدمات)‘‘، ’’احوال و آثارِ فیضی‘‘ (مولانا محمد حسن فیضی کے احوال و آثار اور تحقیقی مقالات و منظومات کا مجموعہ)، ’’حسن رضا بریلوی… فن اور شخصیت‘‘، ’’تاریخ مباحثہ لاہور‘ُ (پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی اور مرزا غلام قادیانی کے مابین طے پانے والے مناظرے کی مستند تاریخی روداد)، ’’تحریکِ ختمِ نبوت اور نوائے وقت‘‘، ’’ردِّ قادیانیت اور سنی صحافت‘‘ (تین جلدیں)، ’’تحریکِ ختمِ نبوت 1974ء‘‘، ’’غازیانِ ناموسِ رسالت‘‘ اور ’’مرزا قادیانی حاضر ہو‘‘ (مرزا قادیانی کے مقدمات کی روداد) بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے۔ آمین