شہید یحییٰ السنوار کی زندگی کا ایک منفرد پہلو اُن کی مسئلہ فلسطین سے متعلق وہ خدمات ہیں جو انہوں نے ایک مصنف اور مترجم کی حیثیت سے انجام دیں۔ جہاں وہ حماس کے مرکزی قائد و رہنما بن کر ابھرے، وہاں وہ قلم کے مجاہد بھی رہے۔ ان کی چار اہم تصانیف اور عبرانی سے عربی میں ترجمہ کردہ چار کتابیں ان کی فکری اور ادبی خدمات کا حصہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں سب سے معروف ناول ’’الشوک والقرنفل‘‘ ہے۔ یہ کتاب فلسطینی مزاحمت کے آغاز سے لے کر پہلی تحریک تک کے واقعات کو بیان کرتی ہے۔ انہوں نے نہایت مہارت سے فلسطینی جدوجہد کی تصویرکشی کی ہے۔ کتاب کے مقدمے میں وہ لکھتے ہیں:
’’یہ میری ذاتی کہانی نہیں ہے، اور نہ ہی کسی ایک شخص کی کہانی ہے، اگرچہ اس کے تمام واقعات حقیقی ہیں، ہر واقعہ یا واقعات کا مجموعہ کسی نہ کسی فلسطینی کا ہے۔ تخیل صرف اس حد تک ہے کہ اسے ناول کی شکل دی گئی، تاکہ یہ کسی خاص کہانی اور اس کے کرداروں کے گرد گھومے‘‘۔
یحییٰ السنوار شہید کی زندگی کے یہ پہلو اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ محض ایک جنگجو ہی نہیں بلکہ ایک دانشور بھی تھے، جنہوں نے مسئلہ فلسطین کو مختلف زاویوں سے اجاگر کیا۔ یہ کتاب ان کی سیاسی بصیرت اور فکری گہرائی کی عکاسی کرتی ہے۔
وہ اپنی کتاب ’’کانٹے اور پھول‘‘ (الشوک والقرنفل) میں لکھتے ہیں:’’1967ء کی سردیاں بہت بھاری گزریں، بہار آنے کا نام ہی لے رہی تھی کہ اچانک بارش شروع ہوگئی اور غزہ شہر کے مہاجر کیمپ کے کچے گھر پانی میں ڈوب گئے۔ سیلابی پانی ہمارے گھر میں داخل ہوگیا‘‘۔
وہ لکھتے ہیں کہ ”اس وقت میں گھر میں اپنے تین بڑے بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ موجود تھا جو سیلاب سے خوف زدہ ہوگئے۔ میرے والد اور والدہ نے فرش گیلا ہونے سے پہلے ہمیں بازوئوں میں اٹھالیا۔ میری ماں نے گھر میں پانی داخل ہونے سے پہلے بستر اٹھا لیا۔ میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے اپنی ماں کے ساتھ چمٹ گیا۔ رات کو میری ماں چھت کے نیچے ایلمونیم کے برتن رکھتی تاکہ چھت سے ٹپکتی بوندیں ان میں گریں۔ میں جب بھی سونے کی کوشش کرتا، پانی کی ٹپ ٹپ مجھے سنائی دیتی۔ جب برتن بھر جاتے تو میری ماں انہیں خالی کردیتی‘‘۔
الشوک و القرنفل بلاشبہ ایک ناول ہے، لیکن اس کے مندرجات سچے اور برحق ہیں، اندازِ تحریر ضرور ناول نگاری کا ہے، مگر اس کی تہہ میں حقائق بیان کیے گئے ہیں۔
یہ کتاب الشوک والقرنفل مجاہد ِ فلسطین، قائد ِ تحریک حماس شیخ یحییٰ سنوار کی ہر آنکھ کو اشکبار کردینے والی سوانح حیات ہے جو ناول کی صورت میں ہے، اگر کوئی سچے دل سے مکمل پڑھ لے تو دل کی دنیا بدل جائے۔ واقعی یہ کتاب اقصیٰ کی بازیابی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی آئینہ دار ہے۔ یہ ناول عربی زبان میں ہے جس کا ترجمہ انتہائی جانفشانی سے اردو میں کیا گیا ہے تاکہ مطلب فہمی میں مدد ملے۔
خوب صورت سرورق، اعلیٰ کاغذ، مشینی کتابت کے ساتھ کتاب اچھی شائع ہوئی ہے۔