پینتیسویں قسط
پروفیسر خالد علوی صاحب کا اندازِ بیاں میٹھا جیسے شہد، طرزِ استدلال دل و دماغ کے لیے مؤثر جیسے زمین کے لیے ابرِ رحمت، اور زورِ خطابت باطل کے لیے شمشیر برہنہ! جامعہ کے کمیونسٹ اور ترقی پسند اساتذہ اور طلبہ کو یہ خطاب اپنے لیے پیغامِ موت نظر آتا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ جامعہ کے اندر جمعہ کی نماز کے ذریعے جمعیت طلبہ کی پروموشن اور جماعت اسلامی کا پرچار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے بارہا پروگرام میں گڑبڑ کرنے کی کوشش کی، مگر ان کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی، بالآخر انھوں نے علامہ صاحب پر زور ڈالا کہ خالد علوی کا خطاب بند کیا جائے، وہ فرقہ وارانہ اور جانب دارانہ تقریر کرتے ہیں۔ چوں کہ یہاں باقاعدہ مسجد تو نہیں تھی، اس دبائو کے تحت علامہ صاحب نے علوی صاحب کو خطاب کرنے سے روک دیا۔ پتا نہیں کیوں علامہ صاحب ترقی پسندوں سے اس قدر دبتے تھے؟
ماہِ رمضان کا یہ جمعۃ الوداع تھا جب علوی صاحب کو خطاب سے منع کیا گیا اور عجیب بات یہ کہ اُن کی جگہ کوئی متبادل انتظام بھی نہ کیا گیا۔ غالباً یہ سمجھ لیا گیا ہوگا کہ کوئی یہاں باقاعدہ مسجد تو ہے نہیں کہ متبادل انتظام ضروری ہو، یا خیال کیا گیا ہوگا کہ متبادل انتظام سے یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ علوی صاحب کو روکا گیا ہے۔ جب علوی صاحب نہیں آئیں گے تو سمجھا جائے گا کہ وہ کسی مجبوری کی وجہ سے غیر حاضر ہوگئے ہیں۔ اس لیے خودبخود کوئی اور شخص خطبہ پڑھ کے جماعت کرا دے گا یا لوگ کسی اور مسجد میں چلے جائیں گے۔ یونیورسٹی کی جامع مسجد ابھی تعمیر نہ ہوئی تھی۔ ہاسٹلوں میں پانچوں وقت کی نماز باجماعت کرنے کے لیے عارضی سی مساجد کچھ بڑے بڑے کمروں میں بنائی گئی تھیں۔ ہم نے ہاسٹل نمبر ایک کی مسجد میں نمازِ تراویح پڑھی تھی۔
جمعرات کی شام کو اسلامی جمعیت طلبہ نیوکیمپس یونٹ نے افطار کا پروگرام بنا رکھا تھا اور افطار سے پہلے اجتماع تھا۔ اجتماع اور افطار کے بعد میں نیو کیمپس ہی میں تھا، نماز اور تراویح کے بعد پتا چلا کہ جناب علوی صاحب کو اگلے روز کے خطبۂ جمعہ سے روک دیا گیا ہے۔ مجھے اس بات پر بڑا دکھ ہوا۔ میں نے دوستوں سے کہا کہ کل جمعہ ہے، آئو ابھی علامہ صاحب سے جاکر بات کریں۔ ہم اسی وقت علامہ صاحب کی کوٹھی پر پہنچے، ان سے ملاقات کی اور صورتِ حال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ علامہ صاحب نے بڑی معصومیت سے فرمایا کہ ’’نہیں بیٹے! ایسی کوئی بات نہیں، علوی صاحب ہی جمعہ پڑھاتے ہیں اور وہی پڑھائیں گے۔‘‘ علامہ صاحب کی زبانی یہ بات سن کر ہم مطمئن ہوگئے اور واپس آگئے۔ وہ رات میں نے نیوکیمپس ہاسٹل نمبر ایک ہی میں گزاری۔
اگلے روز علوی صاحب خلافِ معمول نیوکیمپس میں نہ پہنچے حالاں کہ وہ ہر جمعہ کو وقت سے پہلے ہی آجایا کرتے تھے اور اسٹوڈنٹس ٹیچر سینٹر (S.T.C) کے کسی دفتر میں بیٹھ جاتے تھے۔ علوی صاحب کی رہائش، اونچی مسجد، اندرون بھاٹی گیٹ میں تھی۔ ہم نے دو طلبہ کو رکشے پر روانہ کیا اور کہا کہ بھاٹی گیٹ سے ٹیکسی لے کر علوی صاحب کو فوراً ساتھ لے آئیں۔ ان سے یہ بھی کہا کہ علامہ صاحب سے رات کی میٹنگ کا حوالہ بھی علوی صاحب کو دے دینا۔ ہم چشم براہ تھے کہ تقریر کا وقت ہوگیا اور جانے والے ساتھی واپس نہ آئے۔ اُس روز ایک تو جمعۃ الوداع تھا جس میں روایتی طور پر مسلمان قضائے عمری پڑھنے کے لیے بڑی تعداد میں آتے ہیں، دوسرے ترقی پسندوں کی بن آئی تھی اس لیے وہ بھی ’’نمازیوں‘‘ کے روپ میں آج دریوں پر براجمان تھے۔ ہم نے فوری اور ہنگامی مشاورت کرکے فیصلہ کیا جس کے مطابق طے ہوا کہ میں تقریر شروع کردوں، اگر علوی صاحب آگئے تو ان کو خطاب کی دعوت دوں گا ورنہ میں ہی خطبہ اور نماز پڑھائوں گا۔
علوی صاحب کو نہ آنا تھا نہ آئے، مجھے ہی سارے فرائض انجام دینے پڑے۔ میرے نشست پر بیٹھنے اور تقریر شروع کرنے کے وقت ایک آدھ ’’نمازی‘‘ نے کچھ کہنا چاہا، مگر دیگر نمازیوں نے انھیں چپ کرا دیا۔ بقول برادرِ محترم افتخار فیروز ’’ترقی پسندوں کی چھاتی پہ آج مونگ دلی گئی ہے۔‘‘ ہمارے ایک اور دوست رحیم الدین کا تبصرہ اسی کے الفاظ میں سنیے ’’یہ آم سے ڈرتے تھے اب تربوز سے انھیں سابقہ پیش آیا ہے۔‘‘ اس کا مفہوم معلوم نہیں کیا تھا مگر بعض دوستوں نے جو تشریح کی، وہ ذرا زیادہ ہی کرخت تھی۔ میں نے اس تبصرے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور دوستوں کو پیار سے سمجھایا کہ ہمیں ایسے تبصرے کرنے کے بجائے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ کسی ہنگامہ آرائی کے بغیر یہ کام بخیرو خوبی سرانجام پا گیا ہے۔
جمعہ کی جماعت کھڑی ہورہی تھی کہ اقامت کے وقت دونوں فرستادگان خالی ہاتھ واپس آئے۔ نماز کے بعد انھوں نے بتایا کہ علوی صاحب نہیں مل سکے، نہ اپنے گھر میں تھے اور نہ شعبہ اسلامیات (اولڈ کیمپس) میں۔ معمول یہ تھا کہ ہر جمعہ کو یونیورسٹی کی گاڑی علوی صاحب کو ان کے گھر یا اولڈ کیمپس سے لے کر نیوکیمپس آتی تھی اور نماز کے بعد واپس بھاٹی گیٹ، اونچی مسجد میں چھوڑنے کے لیے جاتی تھی۔ اُس روز گاڑی وہاں گئی تو سہی مگر معمول کے برعکس علوی صاحب کو علامہ صاحب نے اپنے پاس ہائی کورٹ کے قریب والی مسجد (جامع مسجد شاہ چراغ) میں بلا بھیجا۔ ہم جامعہ ہی کی ایک پک اپ نما گاڑی میں دس بارہ طلبہ مسجد شاہ چراغ روانہ ہوئے۔ علامہ صاحب مدت مدید سے اس مسجد میں جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ آپ کا خطاب بلاشبہ بہت دل نشین ہوا کرتا تھا اور لوگ جوق در جوق اس مسجد میں جمعہ پڑھنے آیا کرتے تھے۔
ہم محترم علامہ صاحب سے شکایت کرنے گئے تھے، وہاں پہنچے تو نماز ہوچکی تھی، ایک حجرے میں مجمع لگا تھا اور عام نمازی جا چکے تھے، صرف چیدہ چیدہ لوگ بیٹھے تھے اور علامہ صاحب کی فرمائش پر علوی صاحب پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کا مسحور کن نعتیہ کلام پنجابی زبان میں سنا رہے تھے۔ علامہ صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنے قریب بلایا اور میری پیٹھ پر محبت و شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے پاس بٹھا لیا۔ علوی صاحب نے اپنے تسلسل، سوز و گداز اور خوش الحانی میں فرق نہ آنے دیا، مگر زیر لب میری طرف دیکھ کر عجیب انداز میں مسکرائے۔ اسی مسکراہٹ میں وہ مجھ سے سب کچھ کہہ گئے۔
علامہ صاحب ذہین آدمی تھے اور پھر رات والی گفتگو بھی ابھی تازہ تھی، آپ سمجھ گئے کہ ہم کیوں وہاں حاضر ہوئے ہیں۔ آپ نے نعت خوانی کے بعد علوی صاحب کے نیوکیمپس نہ جانے کی توجیہ کی جو ممکن ہے بعض لوگوں کو قائل کرنے والی ہو، بہرحال مجھے تو سخت افسوس اور مایوسی ہوئی۔ استادِ محترم کے وہ الفاظ مجھے پوری طرح یاد نہیں تاہم مفہوم کچھ یوں تھا کہ جمعۃ الوداع کو نعت خوانی کی محفل بعض دوستوں کی فرمائش پر رکھی گئی تھی جس کے لیے دوستوں نے یہ کلام علوی صاحب کی صوت و لحن میں سننے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
میں کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر اس قدر بددل ہوا کہ زبان کھولنے کو جی نہ چاہا۔ دوستوں کی زبانی یہ سن کر کہ جمعہ میں نے پڑھایا تھا، فرمانے لگے ’’ہاں جی ماشاء اللہ حافظ محمد ادریس صاحب کے ہوتے ہوئے کسی چیز کی کمی نہ تھی…‘‘ مجھے یہ بناوٹی تعریف بھی زہر لگی۔ پھر علامہ صاحب نے ہمیں افطار کی دعوت دی۔ روزہ کھلنے میں بہت کم وقت باقی تھا، چناں چہ ہم نے عصر اور مغرب وہیں پڑھیں اور وہ روزہ ہم نے علامہ صاحب کے ساتھ وہیں افطار کیا۔
میں واقعات کا جو سلسلہ بیان کر رہا ہوں اس میں قارئین کرام کو محسوس ہوا ہوگا کہ ’’میں‘‘ کا تذکرہ بہت زیادہ ہے۔ چوںکہ یہ یادداشتیں ہیں اس لیے ایسا ہورہا ہے ورنہ خدا گواہ ہے کہ ’’میں‘‘ کا تذکرہ میرے لیے کوئی خوش گوار امر نہیں ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں کہ کبھی خودپسندی اور انانیت کا بت سینے میں پالنے کا جرم کروں۔ والد صاحب سے بچپن میں جو مسنون دعا بار بار سنی اور اسی دور میں یاد ہوگئی، الحمدللہ! میری زبان پر جاری اور دل پر طاری رہتی ہے: الھم اجعلنی شکّاراً واجعلنی ذکاّرا واجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَّفِیْ أَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا۔ اے اللہ! مجھے اپنا بہت شکر کرنے والا اور بہت صبر کرنے والا بندہ بنا اور مجھے میری اپنی نگاہ میں چھوٹا اور دوسرے لوگوں کی نگاہ میں بڑا بنا۔ (مسند البزار، 315؍10)
تو آئیے اب اس یادگار رات کی بات کریں جس کی تمہید پچھلے صفحات میں آچکی ہے اور جو اوپر بیان کردہ واقعے کے کئی دن بعد پیش آئی۔ اس وقت یونین کے انتخابات ہوئے دو دن گزر چکے تھے۔ وہ عجیب رات جس کو یار لوگوں نے بقول کسے افسانہ بنا دیا اور بقول من بھوت پریت کی کہانی میں تبدیل کردیا۔ اس رات ہم لوگ علامہ صاحب کے ہاں پہنچے، ہم نے چوکیدار کے ذریعے اپنی آمد کی اطلاع بھجوائی، علامہ صاحب نے دروازہ کھلوایا اور ہمیں اندر بلوایا۔ ان کے صاحب زادے برادرم نعمان بھی موجود تھے۔ میں نے علامہ صاحب سے عرض کیا کہ استادِ محترم اپنی آج کی جاری کردہ پریس ریلیز واپس لے لیں کیوںکہ وہ ہمارے مطالبات کو بالکل نظرانداز کرکے یک طرفہ فیصلے پر مبنی ہے۔
میں نے علامہ صاحب سے یہ بھی درخواست کی کہ پروفیسر امتیاز علی شیخ صاحب کو بھی بلا لیا جائے اور ان سے بھی اس موضوع پر مشورہ کرلیا جائے۔ شیخ صاحب کی رہائش بھی قریب بالکل سامنے ہی تھی۔ آپ جامعہ کے انتخابات میں چیف الیکشن کمشنر تھے۔ چناں چہ شیخ صاحب کو بلوایا گیا، مگر علامہ صاحب نے پریس ریلیز واپس لینے سے بالکل انکار کردیا۔ خدا کی قدرت وہ علامہ صاحب جو ڈپلومیسی کے بادشاہ تھے اور ہر کسی کو بیٹا ہی کہا کرتے تھے اُس رات عجیب سخت موڈ میں تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ تقدیر ہر چیز پر حاوی اور محیط ہے۔
جب یہ نظر آنے لگا کہ علامہ صاحب کسی صورت بات ماننے کو تیار نہیں تو ایک جوشیلے نوجوان نے ڈرائنگ روم میں پڑی ہوئی تپائی اٹھا کر لکڑی کی اسکرین پر دے ماری۔ اسکرین بطور پارٹیشن کے ڈرائنگ روم کے درمیان رکھی ہوئی تھی۔ یہ اسکرین کہیے یا کرٹین… نیچے گرا، اخروٹ کی لکڑی سے بنا ہوا کرٹین پاس پڑے ہوئے ٹی وی سیٹ سے بھی ٹکرایا۔ عین اسی لمحے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے ایک نوجوان نے دروازے کی سیڑھیوں پر پڑا ہوا ایک گملا دوسرے گملے کے اوپر دے مارا۔ ایک لمحے میں یہ سب کچھ ہوا جس کا مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں نے یہ ناروا حرکت کرنے والوں کو ڈانٹا اور اس صورتِ حال کو فوراً قابو میں کرلیا۔ مگر جو کچھ ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔
مجھے اس واقعے پر اُس وقت بھی افسوس تھا، اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ میں اصل واقعات اپنی یادداشت کی حد تک بلاکم و کاست پیش کررہا ہوں، مجھے ان میں سے کچھ بھی قارئین سے چھپانا نہیں۔ جو کچھ ہوا وہ میرے نزدیک میرے نہایت درخشندہ تعلیمی اور سیاسی ریکارڈ پر ایک دھبہ ہے، مگر جو مرچ مسالہ اور حاشیہ آرائی اخباری اور زبانی بیانات میں کی گئی اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ نہ تو کوئی باقاعدہ اسکیم تھی کہ ایسا کیا جائے گا، اور نہ ہی میرے وہم و گمان میں تھا کہ علامہ صاحب اس قدر سختی دکھائیں گے اور میرے ساتھی اپنے ہوش کھو کر جوش میں بہہ جائیں گے۔
میںدوبارہ بھی اگر الیکشن لڑتا تو یقیناً زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوتا، جیسا کہ اگلے سال جہانگیر بدر دوبارہ میدان میں آیا اور ہمارے نامزد کردہ نمائندے حفیظ خاں کے ہاتھوں بہت بڑے مارجن سے شکست کھا گیا۔ موصوف کے ووٹ پہلے سال سے بہت کم ہوگئے حالاں کہ جامعہ کے مجموعی ووٹ اب زیادہ ہوچکے تھے۔ میں جس وجہ سے اس فیصلے کو تبدیل کرانا چاہتا تھا وہ یہ تھی کہ میرے خیال میں سید عارف کی کامیابی کے بعد ہونے والا ڈرامہ دوبارہ اسٹیج کیا جارہا تھا، یعنی یہ کہ یونین ہی بین کردی جائے۔ میں چاہتا تھا کہ وہی ڈرامہ اب پھر نہ دہرایا جائے مگر وماتشاؤون الا ان یشاء اللہ!
جب وہ افسوس ناک واقعہ ہوچکا تو علامہ صاحب نے کہا اچھا میں پریس ریلیز واپس لیتا ہوں، اخبارات کو ٹیلی فون کرو۔ میرے مطالبے پر محترم پروفیسر امتیاز علی شیخ بھی آچکے تھے، میں نے شیخ صاحب کو پورا واقعہ سناتے ہوئے علامہ صاحب سے اس وقت کہا ’’استادِ محترم! آپ نے اپنی بھی سبکی کرائی اور میرے بھی پلے کچھ نہیںچھوڑا، کیا اچھا ہوتا آپ بروقت یہ عرض مان لیتے۔‘‘ ہمارے ایک ساتھی اشفاق حسین نے اخبارات کو ٹیلی فون کیے اورعلامہ صاحب نے تمام اخبارات کے ذمہ داران سے خود بات کی کہ میں نے جو پریس ریلیز بھیجا تھا اسے اخبار میں شائع نہ کیا جائے۔ (جاری ہے)