معروف تھنک ٹینک ’’مسلم انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد‘‘ کے زیرانتظام گورنر ہاؤس پشاور میں ’’علامہ اقبال اور خوشحال خان خٹک کے افکار کی موجودہ دور میں اہمیت‘‘کے عنوان سے ایک روزہ کانفرنس منعقد کی کی گئی۔ اس کے مقررین میں گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم خان کنڈی، چیئرمین مسلم انسٹی ٹیوٹ صاحب زادہ سلطان احمد علی، سینیٹر فرحت اللہ بابر، ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی پروفیسر عبدالرئوف صدیقی، وائس چانسلر گندھارا یونیورسٹی پشاور، معروف معالج، شاعر، محقق اور مصنف ڈا کٹر اعجاز خٹک، سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اور وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز، ڈی جی ادارہ برائے فروغ ِ اردو پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر، سابق وی سی اسلامیہ کالج پشاور پروفیسر ڈاکٹر نوشاد خان، ممبر کے پی کے اسمبلی احمد خان کنڈی، سی ای او اٹک ریفائنری عدیل خٹک، سابق ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی ڈاکٹر سلمیٰ شاہین، چیئرمین پشتو اکیڈمی اسلامیہ کالج پشاور ڈاکٹر جاوید اقبال اور ڈائریکٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان ڈاکٹر محمد حنیف خلیل شامل تھے۔
مقررین نے کہا کہ پشاور تہذیبوں کا سنگم ہے، جس کی آبادی قبل از مسیح بھی لاکھوں میں تھی اوریہ دنیا کا ساتواں بڑا شہر تھا، پشاور تہذیب اور کلچر کا گہوارہ تھا۔ افغان اور ترک سپہ سالار جنوبی ایشیا میں خوشحالی لائے لیکن بھارتی فلموں میں افغانوں کی تضحیک کی جاتی ہے، ہمیں اپنی شناخت اور ثقافت کی حفاظت کرنی ہے اور دنیا کو اپنی تہذیب دکھانے کی ضرورت ہے۔ آج بھارت افغانوں کو ڈاکو اور قابض کی صورت میں پیش کرتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ معروف تاریخ دان ششی تھرور نے کہا کہ مغل دور میں برصغیر کا حصہ دنیا کی جی ڈی پی کا 29 فیصد تھا، ہم جہاں بھی گئے وہاں دنیا کو ترقی دی نہ کہ لوٹ مار کی، کیونکہ افغان قوم نے حریت اور حمیت کے باعث دنیا پر اپنے جھنڈے گاڑے، لیکن بھارتی شدت پسند افغانوں کی شناخت کو مسخ کرتے ہیں۔ علامہ اقبال نے خوشحال خان خٹک کے پشتو کلام کا انگلش میں ترجمہ کرنے کے لیے افغانستان کے حکمرانوں سے درخواست کی، لیکن افسوس کہ آج تک ایسا نہیں ہوسکا، اسی طرح خدیجہ فیروزالدین کو علامہ اقبال نے خوشحال خان خٹک پر تحقیق کرنے کا مشورہ دیا تاکہ ایک بڑا دانشور دنیا کے سامنے آشکارا ہوسکے۔ موجودہ دور میں نوجوانوں کو دونوں مفکرین خوشحال خان خٹک اور علامہ اقبال کی تعلیمات سے روشناس کروانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے، اگر ہم آج بھی ان کی تعلیمات پر عمل کریں اور خودداری کو اپنائیں تو ہم اپنے مسائل سے بخوبی نمٹ سکتے ہیں۔ مقررین نے کہا کہ علامہ اقبال اور خوشحال خان خٹک کے مابین حریت، وعدے کی پاس داری اور صداقت جیسی قدریں مشترک ہیں۔ علامہ اقبال نے وحدت کا درس جن مفکرین سے لیا اُن میں خوشحال خان خٹک بھی شامل ہیں۔ دونوں مفکرین کی تعلیمات آزادی، حریت، خودداری، حمیت اور غیرت کا سبق دیتی ہیں۔ اقبال و خوشحال خان خٹک جہدِ مسلسل، سخت کوشی، بہادری اور علمی دیانت داری کا درس دیتے ہیں، دونوں مفکرین بزدلی، کاہلی، تن آسانی اور تفرقہ سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، اقبال کا شاہین اور خوشحال خان خٹک کا باز، دونوں ایک جیسی خصوصیات کے حامل ہیں۔
ہماری تاریخ کی دو یادگار شخصیات خوشحال خان خٹک اور علامہ محمد اقبال کے گہرے ورثے کی اہمیت پر موجودہ حالات کے تناظر میں گفتگو کرنا وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔ درحقیقت ان دو بلند پایہ شخصیات کی ہمارے ثقافتی، فلسفیانہ اور سیاسی منظر میں شراکت سے نہ صرف ان کے اپنے ادوار کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ اِس دور میں بھی یہ دو عظیم شخصیات ڈنکے کی چوٹ پر ہمیں اپنی اہمیت کی گونج سناتی نظر آتی ہیں۔ خوشحال خان خٹک کی شہرت 17 ویں صدی کے محض ایک پشتون شاعر اور جنگجو قائد کے طور پر ہی نہیں ہے بلکہ ان کی ادبی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کا مقام اور مرتبہ پختون قوم کی وحدت اور سماجی انصاف کے لیے اس کی غیر متزلزل جدوجہد کے حوالے سے بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ پختون خوا کے بے آب و گیاہ اور سنگلاخ علاقے میں پیدا ہونے والے خوشحال خان خٹک کی شاعری اور نثر محض فنکارانہ کوششیں نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے ایک واضح وژن اور لائحہ عمل بھی رکھتے تھے۔ ان کے دور میں پشتونوں کو اندرونی اور بیرونی طور پر تقسیم در تقسیم اور تنازعات کا سامنا کرنا پڑا۔ خوشحال خان خٹک کی زندگی ظلم کے خلاف جدوجہد اور اپنے لوگوں میں اتحاد کی جستجو سے عبارت تھی۔ پشتو میں لکھی گئی ان کی تخلیقات میں ہمیں غیرت، خودداری، مزاحمت اور خودارادیت کی جستجو کے موضوعات واضح اور گہرے طور پر پیوست نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری ایک آئینہ اور رہنما دونوں کے طور پر کام کرتی ہے جو اپنے وقت کے سماجی و سیاسی چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہے، جبکہ ان کے انقلابی اشعار اجتماعی طاقت اور لچک کے لیے عمل کو مہمیز عطا کرتے ہیں۔
خوشحال خان خٹک کی تعلیمات اور فلسفہ نمایاں طور پرنہ صرف ہمارے عصری دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں بلکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی تقسیم در تقسیم، سماجی استحصال، تنازعات اور معاشرتی پسماندگی کے خلاف اتحاد، انصاف، جدوجہد اور پسماندہ برادریوں کو بااختیار بنانے کی وکالت بھی کرتے ہیں۔ ان کی آواز عالمی سطح پر جاری ظلم و ناانصافی کے خلاف ایک مربوط شناخت اور مزاحمت کے طور پر گونجتی ہوئی نظر آتی ہے۔ تعلیم، سماجی اصلاح اور عزتِ نفس کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر ترقی اور مساوات کے لیے کوشاں رہنے والوں کے لیے آج بھی مشعلِ راہ ہے۔ خوشحال خان خٹک کے دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے علامہ محمد اقبال کی فلسفیانہ بلندیوں کی طرف بڑھتے ہوئے ہمیں ایک ایسی ہمہ جہت اور نابغہ روزگار شخصیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے فکری اور روحانی وژن نے جدید جنوبی ایشیائی فکر پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ علامہ اقبال بیسویں صدی کی وہ انمول ہستی ہے جس کی سوچ نے برصغیر پاک و ہند کی ہزار سالہ تاریخ کو ایک نئے نقشے میں تبدیل کرکے رکھ دیا۔ آپ بلاشبہ مصورِ پاکستان ہیں اور پاکستان کے روحانی باپ کہلائے جانے کے حق دار ہیں۔
اقبال کا فلسفۂ خودی اور خودمختاری برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں اور دیگر مظلوم اقوام کو بااختیار بنانے اور ان کے اندر سماجی و سیاسی بیداری کا عنوان نظر آتا ہے۔ روحانی اور فلسفیانہ بصیرت سے مالامال ان کی شاعری نے افراد اور معاشروں کو چیلنج کیا کہ وہ اپنی حقیقت پہچانیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور اپنے گرد لپٹی ہوئی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی پیہم اور منظم جدوجہد کریں۔ یہ علامہ اقبال کی اسی انقلابی سوچ کا نتیجہ تھا کہ آج ہم ایک آزاد اور خودمختار وطن پاکستان میں اپنا 78 واں یوم آزادی قومی جوش و جذبے سے منا رہے ہیں۔ دراصل اقبال کا نظریہ کسی ایک قوم یا نسل تک محدود نہیں تھا، بلکہ یہ خودی کے کٹھن راستوں پر چلتے ہوئے اجتماعی ترقی کو آگے بڑھانے کا ایک عالمگیر مطالبہ تھا۔ خودی یا خودداری کے اُن کے خیالات نے افراد کو اپنی اندرونی طاقت اور مقصد کو فروغ دینے کی ترغیب دی، جب کہ سماجی و سیاسی دائرۂ کار میں اُن کے خیالات نے قومی شناخت اور ثقافتی نشاۃ ثانیہ کے لیے نہ صرف عملی تحریکوں کو منظم کیا بلکہ اس حوالے سے اپنے اشعار کے ذریعے راہنمائی کا گراں قدر فریضہ بھی سرانجام دیا۔ آج کی دنیا میں جب ایک جانب عالمی چیلنجز اکثر ناقابلِ تسخیر نظر آتے ہیں اور انفرادی خواہشات اقوام کے اجتماعی تنزل کی نشاندہی کرتی ہیں ایسے میں علامہ اقبال کا فلسفہ خودی و خوداختیاری تحریک اور رہنمائی دونوں اشکال میں کارفرما نظر آتا ہے۔ خود کو بااختیار بنانے اور تخلیقی توانائی پر اس کا اثر ہمیں واضح طور پر ایک مضبوط اور توانا آواز کے طور پر گونجتا ہوا سنائی دیتا ہے جس میں جدت، لچک اور مقصدیت کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا نظر آتا ہے۔ اسی طرح ان کا ایک متحرک اور ترقی پسند معاشرے کا وژن ہمیں جمود پر قابو پانے اور تعمیری تبدیلی کی راہ پر گامزن ہونے کا چیلنج اور حوصلہ دیتا ہے۔
خوشحال خان خٹک اور علامہ محمد اقبال کی فکر کے مشترکات پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ واضح حقیقت نظرانداز نہیں کرنی چاہیے کہ ان دو عظیم شخصیات کے افکار کی میراث محض ماضی کے آثار نہیں ہیں بلکہ ایک ایسا زندہ و تابندہ فلسفۂ حیات ہے جو نہ صرف ہمارے شاندار ماضی سے ہمارا رشتہ جوڑے رکھتا ہے بلکہ یہ فلسفہ ہمیں ایک روشن اور تابناک مستقبل کی نوید بھی سناتا ہے۔ ان دونوں عظیم شخصیات کے فلسفہ ہائے حیات ہمیں اتحاد کی طاقت، خود کو بااختیار بنانے کی اہمیت اور انصاف کے مسلسل حصول کی یاد دلاتے ہیں۔جب ہم اپنے عصری دور کے پیچیدہ مسائل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کی تعلیمات سے لازوال حکمت اور پائیدار الہام کی واضح اور وسیع راہنمائی ملتی ہے۔ حرفِ آخر یہ کہ آج ہم اپنا 78 واں یوم آزادی ایسے نازک دوراہے پر کھڑے ہو کر منا رہے ہیں جب ہمیں سامنے بظاہر اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے، لہٰذا ہمیں اس موقع پر من حیث القوم یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم ان دو عظیم شخصیات کی اقدار کو اپناتے ہوئے نہ صرف ان کی لازوال فکری وراثت کا دل و جان سے احترام کریں گے بلکہ ایک ایسی دنیا بسانے کی کوشش بھی کریں گے جو اتحاد، انصاف اور خودی کے ان کے وژن کی عکاسی بھی کرتی ہو۔