ڈاکٹر ف عبدالرحیمؒ: زبانِ وحی کے عظیم شناور

گزشتہ سال رمضان المبارک میں عمرہ پر جانا ہوا تو خیال تھا کہ ڈاکٹر ف عبدالرحیم صاحب سے مدینہ منورہ میں ایک بار پھر شرفِ ملاقات حاصل ہوگا،لیکن فون پر آپ کا پیغام آیا کہ آپ اپنے آبائی قصبے وانمباڑی میں برادرِ خورد احمد اقبال صاحب کے یہاں ٹھیرے ہوئے ہیں۔ غالباً اس وقت وہ علاج معالجے کے لیے ہندوستان آئے تھے، اور آج مورخہ 19 اکتوبر رات گئے خبر آگئی کہ ڈاکٹر صاحب مدینہ منورہ میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ڈاکٹر صاحب نے امام نوویؒ اور امام ابن تیمیہؒ کی طرح ایک مجرد زندگی گزاری، اور اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ زبانِ وحی اور قرآن کریم کی خدمت میں صرف کیا۔ وہ ارضِ ہند سے تعلق رکھتے تھے، لیکن یہاں والوں کی معلومات ان کے بارے میں بڑی محدود رہیں۔ وہ نام ونمود اور شہرت سے زندگی بھر دور رہے، اور جنوبی ہند کے بہت سے انمول رتنوں کی طرح یہاں پر زیادہ تر گمنام ہی رہے، بس ان کا تذکرہ کبھی کبھار عربی ریڈروں کے مصنف کی حیثیت سے آتا رہا، یا کچھ جاننے والوں نے شاہ فہد قرآن کمپلیکس سے ان کے تعلق کا ذکر کردیا۔ حالانکہ وہ مسلمانانِ ہند کے لیے ایک قیمتی علمی سرمایہ اور دنیا بھر میں ان کا نام سربلند کرنے والی ایک عظیم شخصیت۔ اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام تھے۔

ڈاکٹر صاحب کو ہم نے آج سے نصف صدی پیشتر1971ء میں پہلی بار اُس وقت دیکھا تھا جب وہ عمر کی چالیسویں دہائی میں تھے۔ ہمارے استاد مولانا عبدالرافع نائطی باقوی نے ہمیں آپ سے ملایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب جب بھی وطن آتے تو ہماری مادرِ علمی جمالیہ عربی کالج چنئی (مدراس) ضرور تشریف لاتے، یہاں پر ہمارے مشفق پرنسپل مولانا سید عبدالوہاب بخاری مرحوم سے ان کےبڑے گہرے مراسم تھے، غالباً پریزیڈنسی کالج میں انہیں آپ سے شرفِ تلمذ بھی حاصل ہوا تھا۔ ہمارے استاد نے اس وقت ہمیں بتایا تھا کہ چند سالوں سے آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تدریس سے وابستہ ہیں۔ ہمارے لیے اُس وقت بھی آپ کی ملاقات بڑے فخر کی بات تھی۔

ڈاکٹر صاحب نے 7 مئی1933ءکو آرکاٹ کے قصبے وانمباڑی میںآنکھیں کھولی تھیں، اس لحاظ سے آپ نے 90سال کی عمر پائی جو آج کے لحاظ سے ایک طویل عمر شمار ہوتی ہے۔ ارکاٹ کا یہ علاقہ طویل عرصے سے مسلم اکثریتی علاقہ اور دیرینہ اسلامی روایات کا امین رہاہے۔ آپ کے والدِ ماجد کا نام عبدالسبحان تھا، جو ایک تجارت پیشہ شخص تھے۔وانمباڑی نام کے پہلے انگریزی حرفV جسے عربی میں ”ف“ لکھا جاتا ہے، اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ اپنے نام سے آگے جنوب کی روایت کے مطابق یہ حرف بڑھا کر ”ف عبدالرحیم“ لکھا کرتے تھے۔ چند سال قبل جب آپ کے توسط سے ہمیں شاہ فہد مصحف کمپلیکس جانا ہوا تو آپ کو سعودی اسٹاف میں بڑے احترام سے دکتور ف کہتے سنا۔

مسجد میں ناظرہ قرآن پاک سے حسبِ روایت آپ کی تعلیم کا آغاز ہوا تھا، پھر آپ نے وانمباڑی کے اسلامیہ ہائی اسکول میں داخلہ لیا، جہاں بارہ سال تک ثانوی تعلیم حاصل کی، اس دوران ذاتی محنت سے عربی سیکھنی شروع کی،اس کے لیے آپ نے عربی زبانوں کی آسان کتابوں،پھر سفارت خانوں سے عربی اخبارات اور مجلات منگواکر، اور صوت العرب القاہرہ، نداءالاسلام جدہ وغیرہ سے پروگرام سن سن کر عربی زبان سے مانوسیت حاصل کی۔اس دوران مدینہ منورہ سے آئی ہوئی تبلیغی جماعت ، اور بحرین سے آئے ہوئے ایک فقیر کی صحبت سے آپ کو عربی بول چال کی شدبد ہونے لگی۔

پی یوسی کے بعد آپ نے باوقار پریزیڈنسی کالج چنئی میں داخلہ لیا اور بی اے آنرز کی سند حاصل کی۔ اور پھر اسلامیہ کالج وانمباڑی میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ اس کالج کے قیام میں مولانا سید عبدالوہاب بخاریؒ اور ڈاکٹر عبدالحق کرنولیؒ کا بڑا ہاتھ رہا تھا۔

جب اسلامیہ کالج میں عربی زبان کی ڈگری کلاس شروع کرنے کا وقت آیا تو ڈاکٹر صاحب نے مدراس یونیورسٹی سے افضل العلماء کا امتحان پاس کیا اور علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر عربی زبان میںایم اے کی سند حاصل کی۔

1963ء میں آپ کو عالمِ عرب کی کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا، اور آپ نے عیدالفطر کی مناسبت سےصدرِ مصر کرنل جمال عبدالناصر کو پیغام تہنیت بھیجا، جس میں آپ نے ازہر شریف میں اپنی عربی تعلیم مکمل کرنے کے اشتیاق کا اظہار کیا۔یہ مبارک باد ایسی نہیں تھی کہ اسے یاد بھی رکھا جاتا، لہٰذا اسے بھیج کر بھول گئے، لیکن آپ کو اچانک دو ہفتے بعدمصر کے نائب صدر حسین الشافعی کا جواب موصول ہوا، جس میں آپ کو مصری سفارت خانے میں اپنی تعلیمی اسناد اور کاغذات پیش کرنے کو کہا گیا تھا۔آپ نے ضروری سفر کی کارروائی کی اور جنوری1964ء میں ازہر شریف میں تعلیم کا آغاز کردیا۔ آپ کا قیام اُس وقت مدینۃ الناصر للبحوث میں تھا۔ چونکہ اُس وقت تک علی گڑھ یونیورسٹی کی اسانید کا یہاں اعتراف نہیں ہوا تھا، لہٰذا آپ کا داخلہ امتحان لے کر کیا گیا۔

1966ء میں آپ کو ایم فل کرنے کا خیال آیا، اس وقت شیخ محی الدین عبدالحمید شعبے کے سربراہ تھے، ان کا اپنا ایک مزاج تھا،انہوں نے ایم فل کے لیے آپ کی سند کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس پر آپ نے طے کیا کہ اس سلسلے میں وزیر ازہر شریف شیخ احمد حسن الباقوری سے بات کی جائے۔ آپ باقوری صاحب کے آفس گئے، وہاں دربان سیکریٹری وغیرہ کوئی نہیں تھا، آپ آفس میں سیدھے بلا روک ٹوک داخل ہوئے، وہاں ایک بڑے مرتبے کے فوجی افسر بیٹھے ہوئے تھے، شیخ صاحب نے آپ کی درخواست ہمدردی سے سنی اورجواب دیا کہ آپ اس کے لیے فلاں افسر کے پاس جائیں، تو ڈاکٹر صاحب نے ہمت کرکے کہا کہ مجھے ثوری( انقلابی) جواب چاہیے، تو شیخ صاحب نے فوجی افسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام بیٹھے ہوئے انقلابی افسر کرسکتے ہیں۔ تو جواباًاس افسر نے فوراً آپ کو کالج کے دفتر جانے کو کہا۔ جب آپ کالج کے متعلقہ دفتر پہنچے تو وہاں افسران آپ کے لیے نگاہیں بچھائے ہوئے تھے، اور ان میں ایک کہہ رہا تھا کہ جلدی کیجیے ابھی تک آپ نے رجسٹر کیوں نہیں کیا؟ اس طرح آپ نے ایم فل میں داخلہ لیا، اور تحقیقی مقالہ پورا کیا جس کا عنوان تھا ”الکلمات الفارسیہ المعربہ“۔

اسی سال سوڈان حکومت کا ایک اعلان آپ کی نظرسے گزرا کہ حکومت جامعۃ ام درمان الاسلامیہ کے نام سے ایک نئی یونیورسٹی قائم کرنے جارہی ہے، جس کے لیے انگریزی زبان کےایک ایسے استاد کی ضرورت ہے، جسے عربی بھی آتی ہو۔ موقع غنیمت جان کر آپ نے درخواست دی جو قبول ہوگئی،1966ء میں آپ جامعہ ام درمان سے منسلک ہوگئے، یہاں آپ کی گہری دوستی شام کے مشہوراسلامی ادیب استاد محمد المبارک سے ہوئی، جنہوں نے پھر جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں پڑھانا شروع کیا تھا، اور جو شیخ عبدالعزیز بن بازؒ کے معتمد دوستوں میں تھے۔

1961ء میں شاہ فیصلؒ کے زمانے میں جب جامعہ اسلامیہ مدینہ کا قیام عمل میں آیا تھا، تو یہ جامعہ بنیادی طور پر غیر ملکی طلبہ کے لیے تھی، اور یہاں پر تعلیم گریجویشن سے شروع ہوتی تھی، اس میں تعلیم پانے کے لیے جو طلبہ اپنے اپنے ملکوں سے ثانوی تعلیم مکمل کرکے آتے تھے انہیں گریجویشن کے لیے عربی میڈیم میں تعلیم پانے کے قابل بنانے کے لیے عربی زبان میں مہارت پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی، اس ضرورت کے ماتحت جامعہ نے ”تعلیم اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بھا“ کے عنوان سے ایک تمہیدی درجہ قائم کیا تھا، جس میں غیر ملکی طلبہ صرف عربی زبان کی صلاحیت پیدا کرتے تھے، اس شعبے میں صرف ایک استاد شیخ محمد الاحمد پڑھاتے تھے، اُسوقت اس کے لیے کوئی خاص کورس تیار نہیں تھا،جب جامعہ نے اس درجے کو منظم کرنے کا ارادہ کیا اور اس کی اطلاع ڈاکٹر صاحب کو پہنچی تو آپ نے اُس وقت کے رئیس الجامعہ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ کے نام ایک درخواست بھیجی جس میں اس شعبے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں، شیخ علیہ الرحمہ نے اس سلسلے میں استاد محمد المبارکؒ سے رائے مانگی، اور ان کی بھرپور سفارش پر آپ1969ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے اس شعبےسے منسلک ہوگئے، اور جامعہ کے اس شعبے اور کلیۃ اللغۃ میں اپنی خدمات پیش کیں۔ 1992ء میں جب جامعہ میںSaudization کا قانون نافذ ہوا، تو آپ کو دوسرے غیر ملکی اساتذہ کے ساتھریٹائرڈ ہونا پڑا۔

1973ء میں آپ نے استاد ابراہیم ابوالنجا کی زیر نگرانی جامعہ ازہر سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی تھی۔ آپ کو بچپن ہی سے مختلف زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ اردو، تامل، انگریزی، عربی، فارسی، یونانی اور لاطینی زبانوں سے شدبد وطن میں قیام ہی کے دوران ہوگئی تھی، لیکن چونکہ آپ پر دنیا بھر کے غیر ملکی طلبہ کو عربی سکھانے کی ذمہ داری عائد تھی، لہٰذا ترک، افریقی، فرانسیسی، جس زبان کے بھی طلبہ آپ کے حلقہ تلمذ میں شامل ہوتے آپ ان کی زبانیں سیکھتے۔ آپ کو عربی زبان کے مختلف کورسز کی تدریس کے لیے جرمنی جانا پڑتا تو اس کے لیے آپ نے جرمن زبان بھی سیکھ لی تھی۔ اس طرح آپ کو عبرانی اور سریانی سمیت جملہ 12 سے زیادہ زبانوں پر عبور حاصل ہوگیا تھا۔

آپ بنیادی طور پر علم لسانیات کے فرد تھے، اس کا ایک اہم شعبہ فیلولوجی (Philology)کہلاتا ہے، اس شعبے کا عالم مختلف زبانوں سے شامل ہونے والے اجنبی الفاظ کی بنیاد جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس موضوع پر یورپ نے بڑی ترقی کی ہے، عربی اور اردو میں اس میدان کے ماہر شاذو نادر ملتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس میدان میں اپنی نوعیت کے منفرد عالم تھے۔ اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کے لیے آپ نے ابو منصور جوالیقی کی کتاب ”المعرب من الکلام الاعجمی علی حروف المعجم“ کو تحقیق کے لیے منتخب کیا، آپ سے پہلے مشہور محقق شیخ احمد محمد شاکر نے اسے ایڈٹ کرکے شائع کیا تھا۔ عام طور پر کسی ایڈٹ شدہ کتاب کو وہ بھی احمد شاکر جیسے محقق کے قلم سے ہو، ڈاکٹریٹ میں دوبارہ تحقیق کے لیے قبول نہیں کیا جاتا تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب کو اس میں استثناء مل گیا، وہ اس لیے کہ ایک تو احمد شاکر قدیم عربی زبان میں دوسری زبانوں سے شامل الفاظ کی شمولیت کو نہیں مانتے تھے، لہٰذا انہوں نے کتاب کی صحتِ عبارت پر اکتفا کیا تھا، دوسری زبانوں کے الفاظ کی گہرائی تک پہنچنا ان کے بس کی بات نہیں تھی، یہ ف عبدالرحیم کا میدان تھا، لہٰذا آپ نے اپنی کتاب میں ایک ایک لفظ کی تحقیق پیش کی، اور دوسری زبانوں کے الفاظ سے اس کا موازنہ پیش کیا ہے۔

قرآن کریم میں کیا دوسری زبانوں کے الفاظ پائے جاتے ہیں؟ یہ ایک دقیق علمی بحث ہے، جس میں علماء کا موقف یہ ہے کہ اسلام سے پہلے غیر زبانوں کے جو الفاظ داخل ہوکر عربی زبان میں گھل مل گئے ہیں، اب ان کے ساتھ معاملہ عربی زبان کے الفاظ ہی کی طرح ہوگا، اور انہیں غیر عربی الفاظ نہیں کہا جائے گا۔ اس سے ”بلسان عربی مبین“کے دعوے کی درستی پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اس موضوع پر امام جلال الدین سیوطیؒ کی کتاب ”المهذب فيما وقع في القرآن من المعرب“ کو بڑی شہرت حاصل ہے، علاوہ ازیں مستشرقین نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے، ان میں ارتھر جفری کی کتاب ”معجم الالفاظ الغربیۃ فی القرآن“ کو شہرت حاصل ہے، لیکن چونکہ اس مصنف کی نیت صاف نہیں ہے اور اس کا رویہ حضور اکرم ﷺ اور قرآن کے تئیں معاندانہ ہے، لہٰذاکتاب کی تیاری میں انتھک محنت کے باوجود یہ کتاب قابلِ قدر نہیں رہی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی اس موضوع پر ”معجم الدخیل فی اللغۃ العربیۃٰ الحدیثہ ولہجاتھا“ اور”سواء السبیل الی ما فی العربیۃ من الدخیل،الاعلام باصول الاعلام“، مستقل اور بڑی قابلِ قدر کتابیں ہیں۔ آپ نے ان کے علاوہ بھی بہت ساری قابلِ قدر تصنیفات یادگار چھوڑی ہیں، اس موضوع پر اردو میں بھی آپ کی دو یادگار کتابیں ہیں ”پردہ اٹھادوں اگر چہرئہ الفاظ سے“اور دوسری کتاب ہے ”گلستانِ الفاظ ومعانی“۔

ہندوستانی علماء میں آپ کو مولانا سید ابوالحسن ندویؒ سے بڑا تعلقِ خاطر رہا، اور سعودی علماء میں شیخ عبدالعزیز بن بازؒ سے وہ بڑے متاثر تھے۔ شیخ بن بازؒ کی زندگی کے چند ایک پہلوئوں سے تو وہ بڑے متاثر تھے، جنہیں جان کر شیخؒ میں کبھی حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی روح چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ ایک چشم دید واقعہ وہ بیان کرتے ہیں کہ:

”جنوبی کوریا کے ایک طالب علم مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے آئے تھے، اس ملک کے پایہ تخت سیول میں ایک جامع مسجد تعمیر کی گئی تھی جس کے بارے میں اس طالب علم نے بتایاکہ یہاں نماز وماز کا زیادہ اہتمام نہیں ہوتا، ہفتے کے چھ روز یہاں کے لوگ کام میں مصروف رہتے ہیں، البتہ اتوار کے روز چھٹی ہوتی ہے، بہت سارے کورین باشندے اس روز شراب لے کر آتے ہیں، اور مسجد کی چھت اور منڈیر پر بیٹھ کر اسے پیتے ہیں۔ یہ سن کر میرا دل کھول گیا، اور شدتِ جذبات سے بے قابو ہوگیا، جب شیخ بن بازؒ نے میری یہ حالت دیکھی تو قریب بلا کر سمجھایا کہ یہ لوگ کفر سے نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں، شراب پینا معصیت ہے، اور معصیت کفر سے ہلکی چیز ہے، ایمان ہے تو معصیت سے توبہ ہوسکتی ہے، اور وہ دھل سکتی ہے، لیکن کفر ہے تو کوئی گناہ نہیں دھل سکتا، اس پہلو سے بھی کبھی سوچنا چاہیے۔

اسی طرح ایک امریکن طالب علم آپ کے پاس جامعہ میں داخلے کا مقررہ وقت گزرنے کے بعد آیا، شیخ بن بازؒ نے آپ کو ترجمانی کرنے کے لیے کہا، اور اس کی بات سن کر شیخ صاحب نے معذرت کرتے ہوئے اسے آئندہ سال آنے کو کہا، تو اس امریکی نے جواب دیا کہ کیا آپ آئندہ سال تک میرے زندہ رہنے کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ اگر میں اس دوران دین کو جانے بغیر دنیا سے گزر گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یہ سن کر شیخ کی آنکھیں آنسوئوں سےبھر گئیں، اور اس کے داخلے کی ہدایت کردی۔“

آپ نے جامعہ میں عربی نہ بولنے والوں کو عربی زبان سکھانے کے لیے ”دروس اللغة العربية لغير الناطقين بھا“ کے عنوان سے جو نصاب تیار کیا ہے، اسے بڑی پذیرائی ملی، اور کئی ملکوں میںآپ کی اطلاع کے بغیر بھی یہ مقبول ہوا، کئی ظالموں نے کتاب سے آپ کا نام حذف کرکے بھی اسے شائع کیا۔

امام مسجد نبوی شریف شیخ علی عبد الرحمٰن الحذیفی حفظہ اللہ شاہ فہد قرآن شریف پریس کے سربراہ ہیں،1992ء میں جامعہ اسلامیہ سے ڈاکٹر صاحب کو ریٹائر کیا گیا توانہوں نے فوراً ہی آپ کو شاہ فہد پریس میں قرآنی تراجم کے شعبے کی سربراہی پر نامزد کردیا، اس عہدے پر آپ وفات تک تیس سال سے زیادہ عرصہ فائز رہے، اور آپ کی سرپرستی میں76 سے زیادہ زبانوں میں قرآن پاک کے ترجمے شائع ہوئے۔ یہ ایسا عزت کا مقام ہے جو شاید ہی کسی کو نصیب ہوا ہو۔

ڈاکٹر ف عبد الرحیم صاحب زندگی بھر وحی الٰہی کی زبان سیکھتے اور سکھاتے، اور قرآن پاک کی تعلیمات کو دنیا بھر میں قابلِ فہم بناتے بناتے اپنے خالق ِحقیقی سے جاملے۔ انہوں نے شہرت اور ناموری سے بلند ہوکر ایک گمنام سپاہی کی طرح اللہ کے کلام کی سربلندی کے لیے زندگی لگادی۔ اب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کی پھیلائی ہوئی خوشبو تاقیامت فضاؤں میں بکھرتی رہے گی۔ کتنا خوش نصیب تھا وہ شخص، ظاہری نظروں میںاپنی کوئی آل اولاد نہیں چھوڑی، لیکن دیکھا جائے تو اس کی چھوڑی ہوئی ہزاروں لاکھوںروحانی اولاد نصف صدی سے زیادہ عرصے سے قرآن کا نور، اور علم کی روشنی دنیا بھر میں پھیلارہی ہے، اِن شاء اللہ نور کی یہ شعاعیں تاقیامت بڑھتی رہیں گی، اور بارگاہِ خداوندی میںان کے درجات بلند کرتی رہیں گی۔ آمین