سندھ میں پھیلتا ہوا مہلک ملیریا

ملیریا ایک جان لیوا بیماری ہے جو مچھر کے ذریعے پھیلتی ہے، اور حالیہ رپورٹوں کے مطابق سندھ بھر میں اس کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سندھ میں جنوری سے اکتوبر تک 2 لاکھ 49 ہزار 151 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں کراچی کے مختلف اضلاع بھی شامل ہیں۔ ملیریا کی ابتدائی علامات میں تیز بخار، سردی لگنا، پسینہ آنا اور جسم میں درد شامل ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ عوام کو اس کے خطرات اور بچاؤ کے طریقوں سے آگاہ کیا جائے۔

ڈاکٹر اظہر چغتائی اس ضمن میں کہتے ہیں:
”ملیریا کے جراثیم جنہیں ”پلازموڈیم“ کہا جاتا ہے، خاص قسم کی مادہ مچھر کے ذریعے انسانی جسم میں منتقل ہوتے ہیں۔ یہ مادہ مچھر عام طور پر غروبِ آفتاب سے لے کر طلوعِ آفتاب کے درمیان، یعنی رات کے وقت انسانی جسم کو کاٹتی ہے، اور اسی دوران ملیریا کے جراثیم انسانی خون میں داخل ہوتے ہیں۔ پلازموڈیم جراثیم کی زندگی دو مراحل میں تقسیم ہوتی ہے: ایک مچھر کے جسم میں اور دوسرا انسانی جسم میں۔ اگرچہ پلازموڈیم کی کئی اقسام ہیں، مگر ان میں سے صرف پانچ اقسام ایسی ہیں جو انسانوں میں ملیریا کا باعث بنتی ہیں۔

ڈاکٹر اظہر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے علاقوں میں دو اقسام بہت عام ہیں: پلازموڈیم فیلسیپرم (Plasmodium Falciparum) اور پلازموڈیم واویکس (Plasmodium Vivax)۔ جب مادہ مچھر انسان کو کاٹتی ہے یا خون چوستی ہے تو دراصل وہ اپنے تھوک کے ذریعے پلازموڈیم کو انسانی جسم میں داخل کرتی ہے، اور وہ جراثیم وہاں سے خون کے ذریعے سفر کرتے ہوئے انسانی جگر میں پہنچتے ہیں جہاں ان کی افزائش بہت تیزی سے ہوتی ہے۔ وہاں سے یہ واپس خون کے خلیات (Cells) میں داخل ہوتے ہیں، اور ان کی مزید افزائش خون کے خلیات میں ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں خون کے خلیات جراثیم سے بھر جاتے ہیں اور پھٹ جاتے ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان تیز بخار، کپکپاہٹ اور شدید سردی محسوس کرتا ہے۔

اسی چکر کے دوران کچھ خلیات میں جراثیم ایک خاص شکل اختیار کرلیتے ہیں، اور جب وہ مادہ مچھر دوبارہ اس انسان کا خون پیتی ہے تو وہ خاص شکل کے خون کے خلیات مچھر کے پیٹ میں منتقل ہوجاتے ہیں اور اپنی زندگی کا ایک حصہ مچھر کے پیٹ میں مکمل کرتے ہیں، جس کے بعد وہ مادہ مچھر کے تھوک میں شامل ہوجاتے ہیں، اور جب وہ مادہ مچھر کسی دوسرے شخص کا خون چوستی ہے تو اُس کے جسم میں منتقل ہوکر اسے ملیریا کا شکار بنادیتے ہیں۔ اس پورے عمل میں مادہ مچھر صرف سہولت کار ہے، اور پلازموڈیم کی تیاری کا کام کرتی ہے، یعنی ایک شخص سے دوسرے شخص تک۔“

آپ کا کہنا ہے کہ ”مچھر کے کاٹنے کے بعد چند دن سے لے کر ہفتوں مہینوں تک وہ درمیانی وقفہ ہے جس میں انسان بیماری کا شکار ہوسکتا ہے۔ Vivax اور Falciparum پاکستانی بچوں میں بہت عام ملیریا ہیں، جو کہ گرمی کے دنوں میں اور بارشوں کے فوراً بعد بہت تیزی سے پھیلتے ہیں اور پانچ سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار ہوتے ہیں۔“

عموماً جمع شدہ پانی، گندے پانی کے جوہڑوں اور نالوں کے آس پاس ان مچھروں کی افزائشِ نسل ہوتی ہے، اس لیے معاشی طور پر کمزور طبقات کے علاقوں میں ملیریا صفائی کے فقدان، کم جگہ پر زیادہ افراد کی رہائش کی وجہ سے پایا جاتا ہے۔

ملیریا موجودہ صورتِ حال میں ایک بڑا خطرہ ہے ، اس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ ہم کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کریں تاکہ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی اس بیماری سے محفوظ رکھ سکیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق رات کو سوتے وقت مچھر دانی کا استعمال کریں، خصوصاً اُن علاقوں میں جہاں ملیریا کے کیسز زیادہ ہیں۔ مچھر دانی میں سوتے وقت مچھر سے بچاؤ میں مدد ملتی ہے اور یہ ایک مؤثر طریقہ ہے۔ اسی طرح گھر میں مچھر مار اسپرے کریں اور اپنے جسم پر مچھر بھگانے والا لوشن لگائیں۔ یہ مچھر کے کاٹنے سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اپنے گھر اور آس پاس کے علاقوں میں صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ کھڑے پانی کو صاف کریں کیونکہ یہ مچھر کی افزائش کا ذریعہ بنتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ اگر مکمل آستین والے کپڑے پہنیں تو بچت کے بہت امکانات ہیں، اور شام کے وقت اور رات میں باہر نکلتے وقت تو ضرور پہنیں، اس سے مچھر کے کاٹنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

ڈاکٹر اظہر چغتائی کا کہنا ہے کہ
”ایک مرتبہ ملیریا کی تشخیص ہوجائے تو پھر اس کا علاج فوراً شروع کردینا چاہیے، تاکہ جلد از جلد اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔ ملیریا کی ادویہ عام طور پر خاصی سستی ہوتی ہیں اور چند دن کی خوراک سے مرض میں افاقہ ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی ملیریا خراب صورتِ حال پیدا کردیتا ہے اور دماغ پر اثر کرتا ہے۔ اس کو دماغی ملیریا (Cerebral Malaria) کہتے ہیں، جس میں بچہ کوما کا شکار ہوجاتا ہے، اور خاصے لمبے علاج کے باوجود اعصابی نظام میں خلل واقع ہوجاتا ہے۔

ملیریا ایک قابل علاج بیماری ہے، مگر اس کے لیے احتیاط اور بروقت علاج انتہائی ضروری ہے۔ ہمیں خود بھی محتاط رہنا چاہیے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی ملیریا سے بچاؤ کے طریقوں سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ سندھ سمیت پورے ملک میں اس بیماری کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔