کمانے کے لیے کچھ بھی کرنا درست نہیں۔ انسان کو وہ کام کرنا چاہیے جو مزاج سے مطابقت رکھتا ہو اور قابلیت سے بھی ہم آہنگ ہو
aنئی نسل کے لیے دوسری بہت سی پیچیدگیاں اپنی جگہ، اور عملی زندگی کے تقاضوں کا بوجھ اپنی جگہ۔ جو بھی نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے یا رکھتی ہے اُس کے لیے سب سے بڑا سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ ایسا کیا کرے جس سے لوگ متوجہ بھی ہوں، سراہیں بھی، اور زندگی میں کچھ معنویت بھی پیدا ہو۔
کم و بیش ہر معاشرے میں جاب مارکیٹ عمومی سطح پر ڈانواں ڈول ہی رہتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی ڈھنگ کی جاب تلاش کرنا آسان نہیں۔ نئی نسل کے لیے یہ مرحلہ انتہائی آزمائشی نوعیت کا ہوتا ہے۔ اُن سے بہت سی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں، اہلِ خانہ اور اہلِ خاندان ہی نہیں بلکہ دوستانہ تعلقات کے حامل تمام افراد بھی یہ دیکھنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں کہ کوئی بھی نوجوان اپنے آپ کو معاشی جدوجہد کے لیے کس حد تک قابل بناتا ہے، کتنا مقابلہ کر پاتا ہے۔
ہر معاشرے میں نئی نسل کا ذہن الجھا ہوا ہوتا ہے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد سے جو لاڈ پیار پایا ہوتا ہے وہ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد ختم ہو رہتا ہے۔ اب توقعات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اہلِ خانہ یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں کہ جس پر شفقت اور محبت نچھاور کی گئی ہے وہ اب کیا کر دکھاتا ہے، احسانات کا بدلہ کس حد تک اور کس طور چکاتا ہے۔
ہر اُس نوجوان کو غیر معمولی ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اپنے والد کے بعد گھر چلانے کا سب سے زیادہ یا واحد ذمہ دار ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی نوجوان والد کے بعد گھر کا واحد کفیل ہو تو وہ کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ کمانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ زندگی ڈھنگ سے بسر ہو۔ اس کوشش میں وہ کبھی کبھی بدحواسی کا بھی شکار ہوتا ہے۔ یہ بدحواسی اگرچہ معاملات کو بگاڑتی ہے تاہم یہ فطری ہوتی ہے۔ بہت زیادہ گھبراہٹ کا شکار ہونے کے بجائے اِس بدحواسی سے نپٹنے کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے تاکہ معاملات کو مزید بگڑنے سے روکا جاسکے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہر نوجوان کسی نہ کسی طور کچھ کرنے لگتا ہے تاکہ کمائی ہونے لگے اور اہلِ خانہ کی توقعات کسی حد تک بر آئیں۔ یہ بھی کچھ غلط نہیں، مگر یہ کافی نہیں۔ سوال کچھ نہ کچھ کرنے کا نہیں بلکہ وہ کرنے کا ہے جس کے ذریعے زندگی میں معنویت پیدا ہو۔
دنیا بھر میں نئی نسل کے لیے سوچا جاتا ہے۔ نئی نسل میں کچھ کردکھانے کا بھرپور جذبہ ہوتا ہے۔ جوش زیادہ اور ہوش کم ہوتا ہے، اس لیے نئی نسل کو راہ نمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی نوجوان کے لیے کیریئر کا انتخاب سب سے پیچیدہ مرحلہ ہوتا ہے۔ کرنے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے مگر طے کرنا ہوتا ہے کہ کرنا کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انسان کچھ بھی کرنے لگے اور زندگی کامیابی کے ساتھ بسر ہو۔ جب تک ہم طے نہیں کرتے کہ کرنا کیا ہے تب تک ہماری زندگی میں معنویت بھی پیدا نہیں ہوتی اور معاملات خاطر خواہ حد تک بارآور بھی ثابت نہیں ہوتے۔
نئی نسل پر چونکہ کچھ نہ کچھ کر دکھانے کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے وہ کچھ بھی کرنے لگتی ہے اور پھر اُسی شعبے کی ہوکر رہ جاتی ہے۔ کام کرنے کا یہ طریقہ غلط ہے۔ کوئی بھی شعبہ بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں کسی بڑی الجھن کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں حکومتیں نئی نسل کے لیے سوچتی ہیں، اہداف مقرر کرتی ہیں، حکمتِ عملی ترتیب دیتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ کسی بھی معاشرے کی نئی نسل اپنے طور پر بہت کچھ طے نہیں کرپاتی۔ اُسے قدم قدم پر راہ نمائی درکار ہوتی ہے۔ یہ راہ نمائی اس لیے ناگزیر ہے کہ زندگی کا سفر خاصا طویل ہوتا ہے۔ اس میں کئی سخت مقام بھی آتے ہیں۔ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ہاتھوں کچھ بدلتا رہتا ہے۔ ایسے میں نئی نسل کے ذہن پر دباؤ بڑھتا رہتا ہے۔ وہ کیریئر کے انتخاب کے معاملے میں غیر معمولی مشکلات محسوس کرتی رہتی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں کیریئر کے انتخاب کا مرحلہ بعد میں آتا ہے، کمائی کا سلسلہ پہلے شروع کرنا پڑتا ہے۔ والدین کا عمومی رویہ یہ ہے کہ بچہ جب نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھے تو بس کمانا شروع کردے۔ اس بات کو سمجھنے والے خال خال ہیں کہ مزاج سے ہم آہنگ شعبے کا انتخاب انسان کو ڈھنگ سے کمانے کے قابل بناتا ہے۔ ہمارے ہاں نوجوانوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ جلد از جلد کمانا شروع کردیں۔ اس حوالے سے دباؤ ڈالے جانے پر نوجوان کچھ بھی کرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی پسند اور مرضی کے شعبے کی طرف جانے میں بھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ جب کمانے کا دباؤ بہت زیادہ ہو تو انسان اپنے مزاج سے ہم آہنگ شعبہ منتخب کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتا۔
ہمارے ہاں ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے نوجوان اپنے مزاج سے ہٹ کر کام کرتے ہوئے اپنے کیریئر کی راہ مسدود کرتے چلے جاتے ہیں۔ بیشتر کا یہ حال ہے کہ اُس شعبے میں قدم رکھ دیتے ہیں جو اُن کا نہیں ہوتا۔ اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ قابلیت سے کمتر نوعیت کی ملازمت کرنا پڑتی ہے۔ یہ پورے وجود پر ظلم ہے۔
بسا اوقات نوجوان اپنی قابلیت سے کہیں کم درجے کی ملازمت بھی کرلیتے ہیں۔ ایسا بالعموم اُس وقت ہوتا ہے جب یا تو کمانے کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے یا پھر بات انا پر آگئی ہو، عزتِ نفس کا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہو۔ ہمارے ہاں عمومی سطح پر نئی نسل چونکہ کمانے کے حوالے سے غیر معمولی دباؤ کی زد میں رہتی ہے، اس لیے متعلقین کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے کچھ بھی کرنے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔
ایسے بہت سے معاملات سامنے آتے رہتے ہیں جن کے ذریعے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے اپنی قابلیت سے کمتر ملازمت قبول کی، اور یوں اپنی زندگی ہی داؤ پر لگادی۔ دوسری طرف بہت سوں کو اُن کی قابلیت سے کہیں بڑھ کر نوکری ملتی ہے اور پھر اُن کے معاملات میں بھی بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے۔
آئیے، قابلیت سے کمتر ملازمت کے ایک کیس کا جائزہ لیں۔ گوگل کی ایک انجینئر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں بتایا ہے کہ جب اس نے ملازمت کے لیے درخواست دی تھی تب ریکروٹر نے کہا تھا کہ وہ چونکہ مطلوب قابلیت سے کہیں زیادہ قابلیت کی حامل ہے اس لیے اُسے ملازمت نہیں دی جاسکتی۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی انو شرما نے گوگل کی طرف سے جواب میں آنے والی ایکس پوسٹ شیئر کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جاب کے لیے جو قابلیت مانگی گئی تھی آپ میں اس سے زیادہ قابلیت ہے اور ہمارا تجربہ یہ ہے کہ اگر زیادہ قابلیت والے کسی فرد کو رکھا جائے تو وہ دل جمعی سے کام نہیں کرتا اور بالآخر (مطلب کی ملازمت ملنے پر) ادارہ چھوڑ دیتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انو شرما کی ایکس پوسٹ پر تبصروں میں بھی بہت سے لوگوں نے کہا کہ بات بالکل درست ہے کہ زیادہ قابلیت والوں کو ملازمت نہیں دی جاتی۔ اس کا بنیادی سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ موجودہ ملازمت سے غیر مطمئن ہوکر نئی ملازمت تلاش کرتے رہتے ہیں اور یوں موجودہ ملازمت میں خاطر خواہ حد تک دلچسپی نہیں لیتے۔
کیا گوگل کی پالیسی غلط تھی؟ جی نہیں۔ گوگل نے جو پالیسی اپنائی وہ کسی بھی اعتبار سے غلط نہیں تھی۔ اس طرح کے معاملات میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ قابلِ رشک تنخواہ پانے والوں کو اگر چھانٹی کا سامنا کرنا پڑے تو وہ بے روزگاری سے گھبراکر کوئی بھی جاب کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں مگر لوگ انہیں آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ آجروں کا نظریہ یہ ہے کہ جو بہت اچھا کماتے رہے ہوں وہ کہیں کمتر تنخواہ کو دل سے قبول نہیں کرتے اور اپنی مرضی کی ملازمت تلاش کرتے رہتے ہیں۔
روزگار اور انسانی وسائل کی ترقی کے شعبے سے وابستہ ماہرین کی رائے یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص اپنی قابلیت سے کمتر اور کمتر معاوضے والی ملازمت حاصل کرتا ہے تو کارکردگی کا گراف گرتا ہے کیونکہ وہ پوری دلچسپی کے ساتھ کام نہیں کرپاتا۔ بیشتر اداروں میں ایسے لوگ معمولی نوعیت کی کارکردگی کا مظاہرہ کرپاتے ہیں۔
ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو ایسے بہت سے معاملات ہمیں دکھائی دیتے ہیں کہ لوگ اپنی قابلیت سے کمتر ملازمت قبول کرتے ہیں اور پھر کڑھتے رہتے ہیں، ڈھنگ سے کام نہیں کرپاتے، اور یوں اُن کا محض وقت ضایع نہیں ہوتا بلکہ زندگی بھی ضایع ہوتی رہتی ہے۔
معاشی معاملات ہم سے پوری توجہ چاہتے ہیں یعنی منصوبہ سازی ہونی چاہیے اور وہ بھی تمام تقاضوں کے مطابق۔ نئی نسل کے لیے یہ لازم نہیں کہ جو بھی موقع ملے اُسے حتمی سمجھ کر قبول کرلے۔ عملی زندگی بسر کرنے کا یہ طریقہ کسی بھی اعتبار سے معیاری نہیں۔ عملی زندگی ہم سے شعور کی طالب رہتی ہے۔ عملی زندگی یعنی زندگی کا معاشی پہلو۔ نئی نسل پر چونکہ اس حوالے سے دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے اس لیے سب سے زیادہ راہ نمائی کی ضرورت بھی اُسی کو ہوتی ہے۔
منظم معاشرے اپنی نئی نسل کو مستقبل کے لیے بہتر طور پر تیار کرنے کے لیے تمام بنیادی تقاضے پورے کرنے کا خیال رکھتے ہیں۔ جس طور والدین اولاد کی عملی زندگی کے لیے سوچتے اور تیاری کرتے ہیں بالکل اُسی طور معاشرے اور ریاست کو بھی سوچنا ہی چاہیے۔
نئی نسل چند ایک معاملات میں انتہائی نوعیت کی پیچیدگی کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ یہ ذہنی پیچیدگی اس لیے ہوتی ہے کہ وہ طے نہیں کرپاتی کہ اُسے کیا کرنا ہے، کس طرف جانا ہے، خود کو کیسے آزمانا ہے۔ ہمارے ہاں نئی نسل کا اچھا خاصا وقت طبع آزمائی میں گزر جاتا ہے۔ طبع آزمائی یعنی مختلف شعبوں میں اپنے آپ کو آزماتے جانا۔
آج کی دنیا میں وقت کے ضیاع کی گنجائش برائے نام بھی نہیں۔ وقت انسان کے لیے سب سے بڑی دولت ہے۔ یہ بات ٹائم لیس ہے یعنی ہر دور میں انسان کے لیے سب سے بڑی دولت وقت ہی تھا، مگر اب معاملہ بہت زیادہ پیچیدہ اور نازک ہے۔ روئے ارض پر ایسے ادوار گزرے ہیں جب لوگ کیریئر کی منصوبہ بندی کے لیے وقت بھی بہت لیا کرتے تھے اور اپنے آپ کو کئی شعبوں میں آزمانے کے بعد معاملات درست کرنے میں کامیاب ہوپاتے تھے۔
اب تجربے کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ اب منصوبہ سازی ہونی چاہیے اور اُس پر عمل بھی۔ کیریئر کے معاملات میں سب سے ضروری نکتہ یہ ہے کہ نئی نسل اپنی صلاحیت کے مطابق کام کرے۔ کسی بھی شعبے میں مطلوب قابلیت پیدا کی جائے اور اس کے مطابق کام کرنے کی کوشش کی جائے۔
نئی نسل کو شعبے کے تعین کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی دھیان دینا چاہیے کہ ملازمت یا جاب قابلیت سے مطابقت رکھتی ہوئی ہو۔ اگر قابلیت غیر معمولی نوعیت کی ہے تو چھوٹی ملازمت پر اکتفا کرنے کے بجائے اچھی، معیاری ملازمت تلاش کرنی چاہیے جو صلاحیت و سکت کو بھرپور انداز سے بروئے کار لانے کی گنجائش بھی پیدا کرتی ہو۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ منظم معاشروں میں اس بات کا پورا خیال رکھا جاتا ہے کہ انسان اپنی قابلیت کے مطابق کام کرے اور معاوضہ بھی معقول پائے۔
کیریئر کے حوالے سے راہ نمائی کا فریضہ انجام دینے والوں کا فرض ہے کہ نئی نسل کو بھی بتائیں کہ وہ جب بھی کوئی ملازمت تلاش کریں تو اپنی قابلیت اور ملازمت میں ہم آہنگی کا پہلو بھی ذہن نشین رکھیں۔
جاب مارکیٹ کبھی آسانیوں سے مزین نہیں ہوتی۔ جن شعبوں میں ملازمت کے مواقع نکلتے رہتے ہیں وہ بھی انسان کو پوری طرح آزمانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے میں وہی لوگ کامیاب ہو پاتے ہیں جو اپنی قابلیت سے ہم آہنگ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوں۔ جاب کے حوالے سے کامیاب لوگ وہ ہیں جو اپنے کام میں راحت محسوس کریں، کام کرتے ہوئے دل خوش رہے اور نتائج سے بھی اطمینانِ قلب کی راہ ہموار ہو۔ صحیح معنوں میں کیریئر وہ ہے جو قابلیت اور ملازمت کے تال میل پر مبنی ہو۔ غیر معمولی قابلیت کے حامل افراد کو کمتر نوعیت کی جاب سے بچنا چاہیے اور دوسری طرف کمتر قابلیت کی صورت میں بلند درجے کی ملازمت بھی ذہن میں خلل پیدا کرکے دم لیتی ہے۔ ایسی حالت سے بھی بچنا ہی چاہیے۔