پانچ سال سے جاری کشیدگی کے بعد چین اور بھارت لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر ایک محدود اور مشروط قسم کی مفاہمت پر پہنچ گئے ہیں، جسے سرِدست اعتماد سازی کا پہلا قدم ہی کہا جا سکتا ہے۔ آنے والے سفر کا تعین اس پہلے قدم کی کامیابی پر منحصر رہے گا۔ روس کے شہر قازان میں برکس کانفرنس کے موقع پر چینی صدر شی جن پنگ اور نریندر مودی کے درمیان ملاقات طے تھی، اس ملاقات میں اس معاہدے کی توثیق کی گئی۔
5 اگست2019ء کو کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کیے جانے کا سارا ردعمل لائن آف کنٹرول کے بجائے لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر پھوٹ پڑا تھا۔ چینی فوج نے لداخ کے علاقوں میں پنگانگ جھیل اور گلوان وادی پر سرعت کے ساتھ پیش قدمی کی تھی اور اس دوران تصادم میں بھارت کے 20 اورچین کے 4 فوجی مارے گئے تھے۔ ڈنڈوں، مُکّوں اور پتھروں سے پیپلزلبریشن آرمی کے کمانڈوز نے نہ صرف بھارتی فوجیوں کی دُرگت بنائی تھی بلکہ اُن کی زخمی حالت میں چیختے، چلاتے اور آنسو بہاتے وڈیوز بھی جاری کی تھیں۔ بھارت نے چین کی طرف سے آہنی ہاتھ کے اس استعمال پر خاموشی اختیار کرلی تھی ۔ مودی حکومت نے تو داخلی دبائو اور تنقید سے بچنے کے لیے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ کسی طاقت نے بھارت کی سرزمین پر قبضہ نہیں کیا۔ یہ دوسرے لفظوں میں چینی مؤقف کی ہی تائید تھی، کیونکہ چین کا کہنا تھا کہ اس نے کسی کی سرزمین پر پیش قدمی نہیں کی بلکہ اپنے ہی علاقے کا دفاع کیا ہے، کیونکہ چین نے پیش قدمی ہی اس مؤقف کے تحت کی تھی کہ یہ اس کے اپنے علاقے ہیں۔ اسی دوران جب بھارت نے اکسائے چن کے علاقے کو اپنے نقشے میں یعنی لداخ کے حصے کے طور پر ظاہر کیا تھا تو چین نے اس قدم کو سختی سے مسترد کردیا تھا، جس پر ایس جے شنکر سے چینی اقدام کے بارے میں سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے مونچھ نیچی کرنے کے انداز میں کہا تھا کہ اکسائے چن تو چین کا حصہ ہے، ہم اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے۔ یہی وہ وقت تھا جب بھارتی اپوزیشن کے راہنما نریندرمودی پر باربار یہ طنز کررہے تھے کہ وہ اپنا چھپن انچ کا سینہ اور لال آنکھ چین کو کب دکھا رہے ہیں ؟ یوں چھپن انچ کا سینہ چین کے معاملے میں مودی کی چڑ بن کر رہ گیا تھا۔ اس کے بعد دونوں ملکوں میں یہ تنازع طے کرنے کے لیے کمانڈروں کی سطح پر مذاکرات کے ایک درجن سے زیادہ ادوار ہوتے ہوئے مگر پانچ برس تک یہ ساری مشق بے نتیجہ رہی۔ اب حالیہ معاہدے کے نتیجے میں صورتِ حال میں معمولی سی تبدیلی آگئی ہے، مگر یہ اس قدر وسیع اور جامع تبدیلی بھی نہیں جو ساری صورتِ حال کو ریورس کرنے کی بنیاد بنے۔
اس معاہدے کے مطابق دونوں فوجیں اپنی پوزیشنوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گی بلکہ صرف آگے کی طرف گشت سے متعلق کچھ اصول طے کیے گئے ہیں۔ پہلے چینی فوجی بلااطلاع کچھ علاقوں میں گشت کرتے ہوئے آگے آجاتے تھے جس سے دونوں فوجوں میں کشیدگی پیدا ہوتی تھی۔ اس معاہدے کے بعد دو مخصوص مقامات پر ایک دوسرے سے دو کلومیٹر کی دوری پر پٹرولنگ ہوگی، اور اگر کسی فوجی کے لیے دو کلومیٹر سے اندر جانا ناگزیر ہوگا تو دوسرے فریق کو پیشگی اطلاع کرے گا۔ پٹرولنگ کے اس طریقہ کار کا مقصد اعتماد سازی ہے۔ اعتماد بڑھنے کے بعد چار کلومیٹر بفر زون قائم کیے جائیں گے جن میں کوئی فریق پٹرولنگ نہیں کرسکے گا۔ گویا کہ نومینز لینڈ تیار کیے جائیں گے۔ اس معاہدے کے بعد دونوں ملکوں کے سربراہان نے برکس اجلاس کے دوران ملاقات کی۔
چین اور بھارت کے درمیان اس محدود مفاہمت سے کوئی بڑی توقع وابستہ نہیں کی جا سکتی کیونکہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر دونوں فوجوں نے مضبوط تنصیبات کررکھی ہیں۔ انفرااسٹرکچر بھی کھڑا کردیا گیا ہے۔ زیادہ تر فوجی تنصیبات کنکریٹ کی ہیں جنہیں مسمار کرنا اب عام حالات میں ممکن نہیں، مگر اس مفاہمت سے پہلے کشمیر کے اندر کچھ معمولی واقعات رونما ہوئے۔ بھارت کا میڈیا چونکہ بری طرح کنٹرولڈ اور خوف زدہ ہے اس لیے وہ ان واقعات کی آزادانہ رپورٹنگ کرسکا اور نہ ہی اس کا آزادی سے تجزیہ ہوسکا۔ ان میں ایک اہم واقعہ کشمیر کو لداخ سے ملانے والی ایک سرنگ پر حملہ تھا جس میں 6 مزدور اور ایک ڈاکٹر ہلاک ہوا۔ ان میں اکثر مزدور غیر مقامی تھے۔ کشمیر کو لداخ سے ملانے والی شاہراہ سردیوں میں برف باری کے باعث بند رہتی ہے، اور یوں اس صورتِ حال سے بچنے کے لیے بھارت نے یہاں ٹنل تعمیر کی ہے۔ یہ دفاعی لحاظ سے بھی خاصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اسی راستے سے چین کی سرحد کے قریب بھارتی فوجیوں کو کمک حاصل ہوتی ہے۔ پنگاگ جھیل اور گلوان وادی کے گرم محاذوں کو بھی اسی راستے سے رسد پہنچتی ہے۔ یوں یہ ٹنل ہائی سیکورٹی زون میں شامل ہے کیونکہ یہ بھی ایک طرح کی فوجی تنصیب ہی ہے۔ گوکہ اس واقعے کے خلاف ردعمل کے طور پر ڈاکٹر فاروق عبداللہ پاکستان پر خوب گرجے اور برسے، مگر کشمیری حریت پسندوں کی طرف سے سید صلاح الدین کا ایک بیان سامنے آیا جس میں عام شہریوں کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا۔ ایک فرضی سی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی مگر اس بیان کی صحت پر سوالات اُٹھائے گئے جن کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ یہی وہ کارروائی تھی جس کے فوراً بعد دونوں ملکوں کے کمانڈروں نے لداخ میں دو متنازع چوٹیوں پر گشت کے اصول طے کرنے کے لیے معاہدے کا اعلان کیا۔گویاکہ بھارت اور چین نے فوجی طور پر انگیج ہونے کا اعلان کیا۔ بھارت چونکہ اس وقت کسی حد تک کینیڈا اور دوسرے مغربی ملکوں کے دبائو کا شکار ہے اس لیے چین نے انعام کے طور پر اسے عجلت میں ایک محدود سے معاہدے کے ذریعے فیس سیونگ دی ہے، اور یہی فیس سیونگ آگے چل کر برکس کانفرنس میں دونوں سربراہان کے درمیان ملاقات اور خیرسگالی کے مزید اظہار کی بنیاد بھی بن گئی۔ یوں لگتا ہے کہ چین اور بھارت کے تعلقات کی اصل اُلجھنیں اپنی جگہ نہ صرف موجود رہیں گی بلکہ ان میں مسلسل اضافہ بھی ہوتا رہے گا، یہاں تک کہ بھارت علاقائی امن اور سلامتی کے چینی انتظام کو قبول کرکے اپنے جامے میں واپس آجائے۔