شجاعت کے پیکر غزہ کے بہادر ماں اور بیٹا

شجاعت و بہادری کی حقیقی داستان رقم کرنے والے غزہ کے باسیوں نے اس دور کے انسان کو حیران کردیا ہے کہ غزہ میں موجود ہر شخص اس جذبے سے سرشار ہے کہ زندگی کے تمام شعبہ جات میں رہتے ہوئے فلسطین کی آزادی کے لیے خدمات پیش کرتے رہنا ہے۔ وہ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر جدید ٹیکنالوجی سے لیس اسرائیلی فوج کو شکست سے دوچار کررہے ہیں۔

7 اکتوبر2023ء کے بعد سے اسرائیل نے جس درندگی اور وحشیت کا مظاہرہ کیا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، لیکن مدمقابل اہلِ فلسطین نے اولوالعزمی اور ثابت قدمی سے پورے عالم کو متعارف کرادیا ہے۔ ان حالات میں غزہ کے ڈاکٹرز، اساتذہ اور انجینئرز وغیرہ نے زخموں سے چُور اہلِ غزہ کی خدمت کرکے انسانیت کے لیے اعلیٰ مثال قائم کردی ہے۔ ذیل میں ایک ماں اور بیٹے کی داستان رقم کی جارہی ہے جنہوں نے دہشت اور خوف کے اس ماحول میں اپنے فلسطینی بھائیوں کی خدمت کی اور اس دوران انہوں نے شہادت کا جام پی لیا۔

ڈاکٹر یسریٰ اور ان کے بیٹے ڈاکٹر احمد کا تعلق مقادمہ خاندان سے تھا، جس کا شمار شجاع اور انسان دوست خاندانوں میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر احمد سرجری کے اسپیشلسٹ تھے، اپنا کام بہت محنت کے ساتھ سرانجام دیتے تھے۔ 2021ء میں طیلہ اسپتال میں مریضوں اور زخمیوں کی خدمت کے لیے انہوں نے اپنے آپ کو وقف کردیا، اور طوفانِ اقصیٰ کے بعد تو زخموں سے چُور لوگوں کی طبی ضروریات پوری کرنے کے لیے سرگرداں ہوگئے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو غزہ کے محفوظ جنوبی علاقے میں منتقل کردیا۔ اہلِ غزہ کی خدمت کی خاطر 6ماہ تک ان سے ملاقات بھی نہ ہوسکی، اس کے بعد وہ شہید کردیے گئے۔

ڈاکٹر احمد نے اپنی رہائش غزہ کے شمالی حصے میں رکھی ہوئی تھی جہاں اسرائیلی درندگی کا سلسلہ جاری تھا، اس کی وحشت کے نتیجے میں عمارتوں کی تباہی جاری تھی، اس کے باوجود انہوں نے وہاں کے ایک فلیٹ میں رہائش رکھی ہوئی تھی، بالآخر وہ عمارت بھی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہوگئی۔ اس بربادی کے نتیجے میں وہاں باقی رہ جانے والے انسان بھوک اور پیاس کی آزمائش میں مبتلا ہوگئے، ایسی صورتِ حال میں 10 اکتوبر 2023ء کو ڈاکٹر احمد نے اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ کی: ”ہر حال میں اللہ رب العزت کے لیے حمد و ثنا ہے۔ میں جس فلیٹ میں رہتا تھا وہ عمارت بمباری سے تباہ ہوچکی ہے۔“

ڈاکٹر احمد اپنے شعبے میں مہارت رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود اپنے دوستوں سے اپنے شعبے سے متعلق امور میں مشاورت کرتے تھے تاکہ اس میں مزید مہارت حاصل کی جاسکے۔ اسرائیلی فوج نے جب الشفاء اسپتال کو تباہ کردیا تو اس کے بعد انہوں نے انصار نامی محلے پر حملہ کیا جس میں ڈاکٹر احمد اور اُن کی والدہ رہائش پذیر تھیں۔ اسرائیلی فوج نے وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ ہم تمہیں محفوظ مقام پر پہنچائیں گے، یہاں سے سب نکلنے کی تیاری کریں۔ ان مہاجرین میں ڈاکٹر احمد اور اُن کی والدہ ڈاکٹر یسریٰ بھی موجود تھیں۔ اسرائیلی فوج نے حسبِ سابق دھوکہ دیتے ہوئے ’’مول کیرفور‘‘ نامی مقام پر سب کو شہید کردیا۔

ان کی شہادت سے قبل ان کی بیوی ڈاکٹر اسرا نے اپنے شوہر اور ان کے ساتھ لوگوں کی حالتِ زار بیان کرتے ہوئے اپیل کی: ”ڈاکٹر احمد شفاء اسپتال میں زخموں سے چُور لوگوں کی خدمت کررہے ہیں، شفاء اسپتال میں طب کی بنیادی ضروریات دستیاب نہیں ہیں، اسی طرح وہاں ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال تک بھی رسائی ناممکن ہوچکی ہے، وہاں محصور لوگ کھانے اور پینے کی اشیاء سے محروم ہوچکے ہیں۔“ اپنی بات ختم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”افسوس کہ اس دردناک اپیل سے عالمی حقوق کے اداروں کے ضمیر بیدار نہیں ہوں گے، لوگوں سے اپیل ہے کہ ان کے لیے دعا کریں، اس لیے کہ وہی ان کے لیے سبیل پیدا کرنے والا ہے۔“

ڈاکٹر احمد کی والدہ ڈاکٹر یسریٰ مقادمہ اونروا کے اسکولوں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ وہ وہاں کے بچوں اور بچیوں کو اپنی اولاد کی نظر سے دیکھتی تھیں، وہ ہزاروں خاندانوں کے بچوں کی مربی تھیں۔ 7 اکتوبر کے بعد غزہ میں موجود اونروا کے مراکز میں ہی موجود رہیں اور محفوط مقام پر ہجرت کرنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ”میں یہاں سے اُس وقت بھی ہجرت نہیں کروں گی جب سب یہاں سے ہجرت کرجائیں گے۔“ وہ اس عمل کو جہاد فی سبیل اللہ کا تصور لیے جاری رکھے ہوئے تھیں، اور تکرار کے ساتھ یہ الفاط دہراتی تھیں انہ لجہاد نصر او استشہاد (یہ جہاد ہے، اس میں یا تو کامیابی ہوگی یا شہادت مل جائے گی)

انہوں نے اپنے فیس بک پیج سے آخری پوسٹ ان الفاظ میں کی: ”ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، ایک سے دو سیکنڈ میں تباہی مچادی گئی ہے۔

لیکن مسلمانوں کی قوت کو صہیونی و امریکی ختم نہیں کرسکتے۔ ایسی صورتِ حال میں کسی کو انسانیت یاد نہیں آرہی کہ معمدانی اسپتال میں 800 بچوں کو شہید کردیا گیا ہے۔ عموماً جنگی حالات میں اقوام متحدہ کی این جی اوز جنگ کے مقام پر پہنچ کر ان کی مدد کرتی ہیں، لیکن غزہ میں ایسا نہیں ہوا، اہلِ غزہ خود رفح کی طرف ہجرت کرگئے جو مصر کی حدود میں ہے۔ اے اللہ! مجاہدین کو ثابت قدمی عطا فرما، ان کی مدد فرما، اور ان کی صفوں میں اتحاد قائم رکھ۔“

ڈاکٹر یسریٰ کو بھی ’’مول کیرفور‘‘ کے مقام پر اسرائیلی فوج نے گولی مار کر شہید کردیا۔