وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے باوجود اب سود کے خاتمے کو آئین میں شامل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
26 ویں آئینی ترمیم منظور ہوچکی اور نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی بھی اپنے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں۔ اب حکومت27 ویں آئینی ترمیم پر کام کرے گی جس میں بلدیاتی اداروں کو وفاق کی جانب سے صوبائی حکومتوں کے بجائے براہِ راست فنڈز مہیا کرنے اور کے پی کے میں شامل کیے جانے والے فاٹا کے اضلاع میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کی سفارش کی جاسکتی ہے۔ ان دونوں ایشوز پر اتحادی جماعتوں میں بہت حد تک اتفاق ہوچکا ہے۔26 ویں آئینی ترمیم میں یہ بات طے کردی گئی ہے کہ پارلیمنٹ میں یکم جنوری 2028ء تک ملکی معیشت سے ’ربا‘ یا سود کو ختم کرنے کی قانون سازی ہوگی اور مدارس کے لیے بھی قانون تبدیل ہوگا کہ چار کے بجائے اب ایک جگہ مدارس کی رجسٹریشن ہوگی۔ وفاقی شرعی عدالت پہلے ہی 2022ء میں حکومت کو پاکستانی معیشت سے 2027ء تک اسلامی احکامات کے مطابق سود کے نظام کو ختم کرنے سے متعلق فیصلہ دے چکی ہے، یوں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے ایک سال مزید آگے بڑھا دیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے باوجود اب سود کے خاتمے کو آئین میں شامل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اگر اس پر عمل نہیں ہوتا تو کیا یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی اور اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ اگر یکم جنوری 2028ء تک آئین کے مطابق سود کا نظام ختم نہ ہوا تو ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہوگا، یہ صورتِ حال ملک میں ایک ہیجان پیدا کردے گی۔ اس سوال کا سادہ اور حقائق پر مبنی جواب یہ ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں اس بات پر متفق ہیں اور عملی کوشش میں ہیں کہ ملک میں سود سے پاک معاشی نظام لایا جائے، یہ محض ایک دعویٰ نہیں ہے بلکہ ملک میں بینکنگ نظام سے آگاہ تمام حلقے اس بات کی مکمل آگاہی رکھتے ہیں کہ بینکنگ سیکٹر میں بلاسود معاشی نظام کے لیے بہت سنجیدگی سے کام ہورہا ہے اور بینکنگ سیکٹر کو یہ ہدف دیا جاچکا ہے کہ وہ 2027ء کے آخر تک ملک میں بلاسود معیشت کے لیے دیے جانے والے ہدف کو پورا کریں۔ جے یو آئی اگر کریڈٹ لینا چاہتی ہے تو اس کی مرضی ہے، تاہم اُسے اچھی طرح معلوم ہے اور حالیہ ترمیم کے وقت بتایا بھی گیا ہے کہ بلاسود معاشی نظام کے لیے ملک کے اصل فیصلہ ساز سنجیدہ ہیں کہ سود سے پاک معاشی نظام ملک میں نافذ ہوجانا چاہیے، اب اسے آئینی تحفظ بھی دے دیا گیا ہے تو ربا کے خاتمے کے لیے حکومت کو اب پہلے سے بھی زیادہ سنجیدہ ہونا پڑے گا کہ 2027ء کے اختتام تک سود کا خاتمہ ہوجائے۔ وفاقی شرعی عدالت پہلے ہی سود کو ختم کرنے کا فیصلہ دے چکی ہے لیکن اس فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیلیں دائر کی گئی ہیں جن کی وجہ سے فیصلے پر عمل درآمد رک چکا ہے۔ ان اپیلوں پر بھی اس طے شدہ تاریخ سے قبل حتمی فیصلہ آجائے گا۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ملک میں اب اسلامی بینکاری کی جانب پیش رفت ہورہی ہے لیکن وفاقی شرعی عدالت کے سامنے یہ سوالات آئے تھے کہ سود کا نام تبدیل کرکے کسی اور طریقے سے اس کو جاری رکھا جائے، جس کا جواب دیا گیا کہ سی پیک کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں نے بلاسود نظام سے اتفاق کیا، بالکل اسی طرح عالمی بینک اور آئی ایم ایف میں بھی بلاسود بینکاری کی گنجائش موجود ہے، حتیٰ کہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں بلاسود بینکاری کے بینک کام کررہے ہیں۔ بہرحال وفاقی شرعی عدالت نے بھی 26 ویں آئینی ترمیم کو سراہا ہے، وفاقی شرعی عدالت کے سینئر ریسرچر ڈاکٹر مطیع الرحمان نے کہا ہے کہ آرٹیکل 38 ایف میں ترمیم کے مطابق یکم جنوری 2028ء تک سود کا مکمل خاتمہ پاکستان میں اسلامی مالیاتی اور بینکاری نظام کے فروغ کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے، آئینی ترمیم سے اسلامی مالیات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ ہوتا ہے، یہ ترمیم وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے 28 اپریل 2022ء کو سنائے گئے فیصلے کا نتیجہ ہے، جو جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور نے لکھا تھا، جس میں عدالت نے ملک کے مالیاتی نظام سے ’ربا‘ کے مکمل خاتمے کے لیے پانچ سال کی مدت کا تعین کیا تھا۔ اس ترمیم کے ذریعے اب یہ فیصلہ آئین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ یہ قانون سازی کی تاریخ میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ سود سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ آئین کا حصہ بنا تو دیا گیا ہے، لیکن نظام یونہی چلتا رہے گا، ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر جو پالیسی انٹرسٹ ریٹس ہیں ان کا نام تو بدل نہیں سکتے کیونکہ آئی ایم ایف یہ کرنے نہیں دے گا۔ اب ملک میں دو بینکنگ نظام چل رہے ہیں۔ کچھ بھی ہو، آئینی ترمیم میں اب قدغن لگادی گئی اور شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کی وفاقی حکومت پابند بن گئی ہے، آئین کا حصہ بننے کے بعد وفاق پر اس پر عمل کرنا لازم ٹھیرے گا، اب اسے فیصلہ لاگو کرنا پڑے گا یا آئین میں دوبارہ ترمیم کرنا ہوگی۔ متعدد ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی نظام سے سود کے خاتمے کا فیصلہ آئین میں شامل کیا جانا اس مرحلے پر محض ایک سیاسی ہتھیار کے سوا کچھ نہیں۔ سود کے خلاف سینیٹ میں بھی قانون سازی کی گئی تھی۔ ملک میں انفرادی حد تک قرض پر سود لینا جرم ہے، پنجاب کے 2007ء کے قانون کے تحت سود پر پیسہ نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن بینکنگ کے نظام میں اس کی اجازت موجود ہے۔ بینک اپنے اکاؤنٹ ہولڈرز کے ڈپازٹس کا 10 سے 20 فیصد اپنے پاس ریزرو رکھ کر باقی آگے قرض کی صورت میں استعمال اور اس قرض پر سود حاصل کرتے ہیں۔ مختلف بینکوں میں اس کا متبادل متعارف ہوچکا ہے، جس میں سود کے بجائے جائداد کی مالیت کا تعین کرکے سروس چارجز یا کرائے کے نام پر پیسے لیے جاتے ہیں۔ روایتی بینک جب آپ کو کسی بھی شکل میں ایک کنٹریکٹ کے تحت محدود مدت کے لیے پیسہ دیتا ہے تو وہ قرض کہلاتا ہے۔ اس پیسے کے اوپر جب بینک کچھ بھی اور چارج کرتا ہے اُسے ربا کہتے ہیں۔ روایتی بینک میں انڈرلائن کنٹریکٹ قرض کا ہوتا ہے، اور قرض کی رقم کے اوپر جو بھی رقم ادا کی جاتی ہے وہ ربا کے زمرے میں آتی ہے۔ اسلامک بینک رسک اور ایوارڈ شیئرنگ کا معاہدہ کرتے ہیں۔ اسلامک بینک آپ کو پیسے نہیں دیں گے بلکہ وہ مرابحہ، سلم یا استثنیٰ کرتے ہیں جس کے تحت آپ کے ساتھ اس پراڈکٹ کا رسک بھی شیئر کررہے ہوں گے اور پھر اس کے اوپر وہ فیس لیتے ہیں۔ بینکاری نظام کے اسلامک ہونے کی صورت میں ربا خودبخود ختم ہوجائے گا۔
پارلیمان نے 26ویں ترمیم کے ذریعے آئین کے پرنسپلز آف پالیسی کے باب کے سیکشن ایف کو تبدیل کیا ہے، جس میں پہلے لکھا تھا کہ حکومت ربا کو فوری ختم کرے گی۔ آئین کا پرنسپلز آف پالیسی کا چیپٹر انسانی حقوق سے متعلق شقوں سے مختلف ہے، بنیادی حقوق پر حکومت کو عمل کرنا ہی کرنا ہے چاہے کچھ بھی ہوجائے، ڈیڈلائن کوئی لازم نہیں ہوجاتی۔