ّ26ویں آئینی ترمیم میں ربا کے خاتمے کی شق ایک سیاسی فیصلہ نظر آتا ہے
اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینکوں کو اسلامی بینک کہا ہی نہیں جا سکتا
ممتاز بینکار اور ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کراچی کے چیئرمین اور انسٹی ٹیوٹ آف بینکرز پاکستان کے فیلو ہیں۔ آپ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی سنڈیکیٹ کے ممبر رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل بینک آف خیبر کی شریعہ کمیٹی کے چیئرمین اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے بورڈ آف گورنرز اور نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر بھی رہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے پاکستان، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے بینکوں میں اہم انتظامی عہدوں پر 30 سال تک خدمات انجام دی ہیں اور گزشتہ 25 برسوں سے ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں معیشت، اقتصادیات اور بینکنگ بشمول اسلامک بینکنگ پر مقالے پیش کررہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ان موضوعات پر اردو اور انگریزی میں پانچ سو سے زیادہ مضامین اور کالم لکھے ہیں۔ ان ہی موضوعات پر اُن کے تحقیقی مقالے ملکی و غیر ملکی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد کے معاشی و سلامتی امور پر تجزیے ملکی و عالمی میڈیا پر بھی نشر ہوتے رہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے ربا کے مقدمے میں 1999ء میں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ کی معاونت کی تھی، ان کی گزارشات کو بینچ کے سربراہ نے تفصیل کے ساتھ اپنے فیصلے میں جگہ دی تھی۔ آپ نے مندرجہ ذیل کتابیں لکھی ہیں:
Islamic Banking
Paistan: Economic Growth & Stabilization, Myth or Reality?
پاکستان اور امریکہ۔ دہشت گردی، سیاست و معیشت۔
حال ہی میں پاکستان کی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والی 26ویں آئینی ترمیم میں ربا کے خاتمے کی شق کو شامل کیا گیا ہے، جس کے تحت حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یکم جنوری 2028ء سے پہلے ملک سے ربا کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا۔ اس سے قبل 2022ء میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کے نظام کے خلاف جماعت اسلامی سمیت دیگر درخواست گزاروں کی اپیلوں پر دائر درخواستوں پر ایک فیصلہ سنایا، جس میں وفاقی حکومت کو پانچ سال کے اندر ملک سے سود کا مکمل خاتمہ کرنے اور سود سے پاک بینکاری نظام معیشت نافذ کرنے کا حکم دیا گیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں سود سے متعلق تمام معاون قوانین اور شقوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے 28اپریل 2027ء تک تمام مالیاتی نظام کو اسلامی اور بلاسود اصولوں کے مطابق ڈھالنے کا حکم جاری کیا۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی 26ویں آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028ء سے پہلے سود کا خاتمہ ممکن ہوپائے گا؟ اور کس طرح؟
اسی طرح ہمارے یہاں پاکستان میں موجودہ اسلامی بینکاری کو مکمل طور پر سود سے پاک نہیں سمجھا جاتا، اور بعض ماہرین کے نزدیک روایتی بینکاری اور اسلامی بینکاری میں فرق اکثر محض اصطلاحات کا دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک گاڑی بینک کے ذریعے خریدیں تو عام بینک اسے ”لیز“ کہتا ہے، جبکہ اسلامی بینکاری میں اسے ”اجارہ“ کہا جاتا ہے۔ تو کیا یہ اور اس طرح کی تبدیلیاں واقعی اسلامی اصولوں پر مبنی ہیں یا صرف نام کا فرق ہے؟
اسی پس منظر میں ہم نے معروف ماہرِ معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے بات کی ہے تاکہ اُن سے معلوم کریں کہ کیا اسلامی بینکاری واقعی سود سے پاک ہے؟ اور آئین کی اس نئی ترمیم کے تناظر میں اسلامی معیشت کی طرف قدم بڑھانا کتنا ممکن ہے؟ ڈاکٹر صدیقی نے اس حوالے سے کیا کہا، آئیے جانتے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے جب ہم نے پوچھاکہ 2028ء سے پہلے پاکستان سے سود کا مکمل خاتمہ آئین میں شامل ہوچکا ہے، کیا آپ کے خیال میں یہ ہدف حقیقت پسندانہ ہے؟ اور اس کے نفاذ میں کن چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے؟
اس پر آپ کا کہنا تھا کہ ”پاکستان کی حالیہ 26ویں آئینی ترمیم میں ایک اہم تبدیلی آئین کی شق 38 (ایف) کے بارے میں ہے۔ اس ترمیم شدہ شق کے مطابق ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ یکم جنوری 2028ء سے پہلے (معیشت سے) ربا کا مکمل خاتمہ کردیا جائے۔ واضح رہے کہ 1973ء کے آئین کی شق 38 (ایف) میں ترمیم سے پہلے کہا گیا تھا کہ ریاست اس بات کو یقینی بنائے گی کہ معیشت سے جلد از جلد ربا کا خاتمہ کردیا جائے۔“
آپ کا کہنا تھا کہ ”یہ امر افسوس ناک ہے کہ 51 برس کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آئین کی اس شق پر عمل کرنے کی قطعی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ ایک سازش کے تحت اس بات کو متنازع بنادیا گیا ہے کہ آیا اسلام میں سود حرام بھی ہے یا نہیں، کیونکہ قرآن نے اس کے لیے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ”ربا“ ہے۔ اس میں قطعی کوئی شبہ نہیں کہ سود ہر شکل میں ربا کے زمرے میں آتا ہے، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ گزشتہ تقریباً 32 برسوں سے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ اس آئین کی روشنی میں ابھی تک یہ حتمی فیصلہ نہیں دے سکیں کہ سود بھی ربا کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ ربا کی جامع اور حتمی تعریف و تشریح ابھی تک شرعی عدالت اور سپریم کورٹ نے کی ہی نہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سیاسی عزم ہوتا اور انقلابی اقدامات کیے جاتے، تو گزشتہ دہائیوں میں معیشت سے سود کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ لیکن حالیہ ترمیم، حکومت اور اسٹیٹ بینک کی پالیسیوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سوچ کے تحت ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ 2027ء کے آخر تک تو کیا، خدانخواستہ اگلی کئی دہائیوں میں بھی معیشت سے سود کآ خاتمہ نہیں ہوسکے گا، بلکہ خدشہ یہی ہے کہ سودی نظام فروغ پاتا رہے گا اور اسلامی نظام معیشت و بینکاری سودی نظام کے نقشِ پا پر چلتے رہیں گے۔“
آپ کا مزید کہنا تھا کہ:
”ہم برسوں سے یہ تجویز دیتے رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی منظوری سے شق 38 (ایف)میں یہ اضافہ کردیا جائے کہ سود ہر شکل میں ربا کے زمرے میں آتا ہے، تاکہ شرعی عدالتوں کے سامنے سود کے حرام ہونے کا مسئلہ زیر بحث لایا ہی نہ جا سکے۔ اطلاعات کے مطابق آئین کی 26 ویں ترمیم کے مسودے میں یہ شق رکھی گئی تھی کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ یکم جنوری 2028ء تک ربا (سود) کا مکمل خاتمہ کردیا جائے، لیکن جو ترمیم منظور ہوئی اور جس ایکٹ کا اجرا کیا گیا ہے، اس میں حیران کن طور پر سود کا لفظ نکال دیا گیا ہے۔ یہ ایک قومی المیہ ہے اور یہ ایک سربستہ راز ہے کہ پارلیمنٹ نے سود کے لفظ کو شامل کیے بغیر اس شق کی منظوری کیوں دی۔ علما، مفتی صاحبان، ماہرینِ قانون، مسلم قانون دان، مسلم ماہرینِ معیشت، دینی و مذہبی جماعتیں اور اسلامی نظریاتی کونسل اس معاملے میں اب کیوں خاموش ہیں؟ صاف طور پر یہ ایک سیاسی فیصلہ نظر آتا ہے۔“
اس بات کی دلیل میں ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ ”واضح رہے کہ 14 نومبر 1991ء کو وفاقی شرعی عدالت نے جو فیصلہ دیا تھا، اُس میں بھی کہا گیا تھا کہ سود (ربا) کے مقدمے کا فیصلہ ہے، لیکن یہ فیصلہ بھی معطل ہوچکا ہے۔“
بلاسودی بینک یا اسلامی بینک سے متعلق ایک سوال کے جواب میں آپ کا کہنا تھا کہ ”ہم تقریباً 20 برسوں سے یہ کہتے رہے ہیں کہ اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینکوں کو اسلامی بینک کہا ہی نہیں جا سکتا، البتہ ان بینکوں کو بلاسودی بینک کہا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان کے کاروبار میں سود کا شائبہ بھی نہ ہو۔ اس بات کے متعدد شواہد اور ثبوت موجود ہیں کہ ان بینکوں میں سود کا عنصر بھی سرایت کر گیا ہے جسے اسٹیٹ بینک کی تائید حاصل ہے۔ چنانچہ آج 23 برس بعد بھی ملک میں سودی معیشت و سودی بینکاری پروان چڑھ رہی ہے اور اسلامی بینکاری سود کے نقشِ پا پر استوار ہو رہی ہے۔“
ایک اور سوال کے جواب میں آپ کا کہنا تھا ”وزارتِ خزانہ نے 2002ء میں سپریم کورٹ کی شریعت بینچ میں جو حلف نامہ جمع کرایا تھا اس کے اہم نکات میں یہ بات شامل تھی کہ:
سود کی بنیاد پر پاکستان کے داخلی قرضوں کو اسلامی فنانسنگ کے طریقوں کے مطابق تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ واضح رہے کہ 30 جون 2002ء کو ملک کے داخلی قرضوں کا حجم صرف 1800 ارب روپے تھا، جو بڑھ کر اب تقریباً 50 ہزار ارب روپے ہوچکا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے حلف نامے میں مزید کہا گیا تھا کہ اگر ربا کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے 23 دسمبر 1999ء کے فیصلے پر عمل کیا گیا تو اس کے نتیجے میں پاکستان کے معاشی استحکام اور سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوجائیں گے۔
اسی طرح اسٹیٹ بینک نے سپریم کورٹ کی شریعت بینچ میں جو حلف نامہ داخل کرایا اس کے مطابق
بینکاری کے نظام کو مکمل طور پر اسلامی نظام بینکاری میں تبدیل کرنے کے ضمن میں متعدد خطرات ہیں اور نتیجتاً بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوگی، جس سے ملک کی معیشت غیر مستحکم ہوجائے گی۔ اور یہ کہ اگر بینکوں میں نفع نقصان میں شرکت کا اسلامی نظام اپنایا گیا تو وقت گزرنے کے ساتھ لوگ بینکوں سے اپنی رقوم نکال کر جائداد خریدنے کے لیے استعمال کریں گے۔ کچھ لوگ اپنی رقوم سٹے بازی میں لگائیں گے، اور اس طرح اسلامی بینکوں میں رقوم جمع کرانے سے بھی بڑا خطرہ مول لیں گے۔
اس حلف نامے میں یہ بھی تھا کہ اسلامی بینکاری کے ضمن میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد سے پاکستان سے سرمائے کا فرار شروع ہوجائے گا۔
ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ اس حلف نامے کی روشنی میں جو حکمت عملی بنائی گئی وہ یہ ہے کہ اسلامی نظام بینکاری کو سودی نظام کے نقشِ پا پر استوار کیا جائے۔
اسی طرح آئینی ترمیم کے پس منظر میں ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ
”آئین کی شق 38 (ایف) کی حالیہ ترمیم کے ضمن میں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ 1973ء کے آئین کی شق 227 میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق تبدیل کردیا جائے گا، اور کوئی نیا قانون اسلامی احکامات کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ بدقسمتی سے 51 برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود، درجنوں قوانین بدستور اسلامی احکامات کے خلاف ہیں اور نئے قوانین بھی اسلامی احکامات سے متصادم بنائے جارہے ہیں، جبکہ پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیاں، اسلامی نظریاتی کونسل، دینی و مذہبی جماعتیں، علما و مفتی حضرات، میڈیا اور قانون دانوں کی طرف سے کوئی بڑا ارتعاش سامنے نہیں آیا، اور نہ ہی عدالتوں نے گزشتہ 51 برسوں میں آئین کی شق 227 کی خلاف ورزی کے ضمن میں کوئی ازخود نوٹس لیا، جو کہ افسوس ناک امر ہے۔“
ایک اور سوال کے جواب میں آپ کا کہنا تھا کہ
”اسلام نے ربا (سود)کو اس لیے حرام قرار دیا ہے کہ یہ ناانصافی کا سبب بنتا ہے، اور اسلام ایک ایسا عادلانہ نظام چاہتا ہے جس میں ہر شخص کو سماجی انصاف میسر ہو۔ چنانچہ ربا (سود) کے خاتمے کے ساتھ ہی اسلامی نظام معیشت و بینکاری کا نفاذ بنیادی ضرورت ہے۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک نے 2002ء سے ملک میں اسلامی بینکاری کا نظام شروع کرایا ہوا ہے اور سودی بینک اور اسلامی بینک ایک ساتھ متوازی طور پر کام کررہے ہیں۔ یہ متوازی نظام شروع کرنے کا فیصلہ 14 جون 2001ء کو کیا گیا تھا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی تھی کہ پاکستان میں سب سے پہلے ہم نے عرض کیا تھا کہ یہ متوازی نظام سودی بینکاری کو دوام بخشنے کی سازش ہے اور یہ فیصلہ آئینِ پاکستان کی شق 38 (ایف) اور 227 کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بات واضح تھی کہ یہ فیصلے قرآن کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھے اور نہ صرف غیر آئینی بلکہ غیر اسلامی تھے اور ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ پاکستان میں سب سے پہلے ہم نے عرض کیا تھا کہ 4 ستمبر 2001ء کے فیصلے کے تحت متوازی نظامِ بینکاری نافذ کرنا قطعی غیر اسلامی ہے۔ اجلاس میں اپنایا گیا یہ موقف کہ متوازی نظامِ بینکاری شروع کیا جائے، قطعی غیر اسلامی ہے۔ علما اور مفتی حضرات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ متوازی نظامِ بینکاری قطعی طور پر غیر اسلامی ہے، لیکن اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبرز، علما، مفتیان اور دینی و مذہبی جماعتیں گزشتہ برسوں سے اس معاملے میں نہ صرف مکمل طور پر خاموش ہیں، بلکہ عملی طور پر اس غیر اسلامی نظام کی حمایت کررہے ہیں، حالانکہ وہ خود سمجھتے ہیں کہ یہ غیر اسلامی ہے۔ اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔“
آپ واضح کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ
”اس رائج اسلامی بینکاری نظام میں جو متوازی نظام بینکاری کے تحت ہے، جو ممتاز علما اور مفتیان شامل ہیں ان میں سب سے اہم شخصیت مولانا محمد تقی عثمانی کی ہے، جو اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں، اور وہ بھی یقیناً سمجھتے ہیں کہ گزشتہ 22 برس سے چلنے والا یہ متوازی نظام غیر اسلامی ہے۔ لیکن اسلامی نظریاتی کونسل اور اسٹیٹ بینک کا شریعہ بورڈ بھی اس معاملے میں مکمل طور پر خاموش ہیں، جو کہ افسوس ناک امر ہے۔“
اس سوال کے جواب میں کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے باوجود سودی نظام پر عمل درآمد اب بھی جاری ہے، آپ کے خیال میں اسلامی بینکاری اور سودی نظام کا ساتھ چلنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ آپ کا کہنا تھا کہ:
”شرعی عدالت کا فیصلہ معطل ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ نے جون 2002ء میں ربا کے مقدمے کو وفاقی شرعی عدالت کے پاس اس واضح ہدایت کے ساتھ بھیجا تھا کہ وہ بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر کی روشنی میں انڈیکسیشن کے مسئلے پر بھی فیصلہ دے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ تقریباً 20 برس کے بعد سنایا، لیکن اپنے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے اس واضح حکم کی پابندی نہیں کی اور اس اہم مسئلے کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا۔ ہم نے اپنے خط میں اسلامی نظریاتی کونسل کی توجہ بھی اس امر کی طرف دلائی تھی لیکن کونسل نے اپنے 3 اپریل 2024ء کے خط میں جو ہمیں لکھا تھا، اس معاملے کو یکسر نظرانداز کردیا۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ سنگین اور پیچیدہ مسئلہ اب شرعی عدالتوں میں دوبارہ سر اٹھائے گا۔ واضح رہے کہ گزشتہ 32 برسوں سے شرعی عدالتیں اس عدالتی کشاکش کے زیر سایہ سودی نظام معیشت و بینکاری کو پوری آب و تاب سے پروان چڑھتا دیکھ رہی ہیں اور اس دوران متعدد نئے مسائل بھی سامنے آچکے ہیں۔“
ایک اور سوال کے جواب میں آپ کا کہنا تھا :
”پاکستان میں مروجہ اسلامی نظامِ بینکاری خاصی بڑی حد تک سودی نظام کے نقشِ پا پر قائم ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جو مانیٹری پالیسی ہے، وہ شرحِ سود پر مبنی ہے اور اس کو تبدیل کرکے شرعی اصولوں کے مطابق لانے کے لیے مختلف دوسرے طریقے اپنانے پر وہ تیار نظر نہیں آتا۔ چنانچہ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی بدستور سودی نظام پر قائم ہے۔“
آپ کا کہنا تھا کہ ”اس امر کی ضرورت ہے کہ آئین کی شق 38 (ایف) میں فوری طور پر ایک مرتبہ پھر ترمیم کرکے یہ اضافہ کیا جائے کہ سود بھی ہر شکل میں ربا کے ہی زمرے میں آتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ موجودہ اسلامی بینکوں کو بلاسودی بینک قرار دیا جائے اور ان کی پروڈکٹس سے سود کا عنصر بھی مکمل طور پر ختم کردیا جائے، اور تمام بینک اپنے کھاتے داروں کو منافع صرف نفع نقصان میں شراکت کی بنیاد پر دیں، کیونکہ سودی بینکوں کے لیے بھی پاکستان میں یہ قانون موجود ہے کہ وہ کھاتے داروں کو اپنے منافع میں شریک کریں۔ اسلامی بینکاری کے نفاذ کے لیے معاشرے کی اصلاح کو ایک مستقل کام سمجھنا ہوگا اور اسلامی نظام معیشت کو مکمل طور پر اپنانا ہوگا۔ تمام قوانین کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا۔“
اس سوال کے پس منظر میں کہ کیا آپ کے خیال میں حکومت اسلامی بینکاری کے لیے خاطر خواہ پالیسی اور بنیادی ڈھانچہ تیار کرنے میں کامیاب ہوپائے گی،یا یہ محض ایک سیاسی نعرہ ہے؟ آپ کا کہنا تھا کہ:
”اس امر میں شبہ کی قطعی کوئی گنجائش نہیں کہ اگر معیشت سے سود کا خاتمہ ہوجائے اور اسلامی نظام معیشت و بینکاری اسلام کی روح کے مطابق ہو تو پاکستان اور پاکستان کے عوام کی قسمت بدل جائے گی۔ پاکستان میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی میں کمی ہوگی، غریب اور امیر کا فرق کم ہوگا اور پاکستان ملکی و بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرکے اپنی خودمختار پالیسیاں بنا سکے گا، اور اسلامی فلاحی مملکت کی حیثیت سے ایک مضبوط ملک بن کر ابھرے گا۔ لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہیں کیا گیا تو خدشات ہی خدشات ہیں۔“
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ”ہم اس بات کی ایک مرتبہ پھر درخواست کریں گے کہ آئینی ترمیم کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا سفارشات پر عمل کیا جائے، اور ہم میں سے ہر شخص کو سورہ البقرہ کی آیات 275 سے 279 اور سورہ المائدہ کی آیات نمبر 44 اور 45 پر انتہائی دردمندی سے غور کرنا ہوگا اور اس کے مطابق اپنی پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ ورنہ نتائج کا سوچ کر روح بھی کانپ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اسلام کے معاملے میں سیاست کو الگ رکھیں اور تمام فیصلے قرآن و سنت کے مطابق کریں۔“