سیاست میں ڈوبی عدلیہ

ہمارا ہر ادارہ خرابیوں کے گندے جوہڑ میں ڈوبا ہوا ہے۔

ملک میں ایک ہیجان کی سی کیفیت ہے، اگر پورا دروازہ کھول کر ہیجان کا منظر دیکھنے کی کوشش کی جائے تو اس کی گہرائی کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ یہ ہیجان کسی بھی آئینی ترمیم سے دور ہونے والا نہیں ہے، سیاسی راہنماؤں کے رویّے سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے، اور اسٹیبلشمنٹ اپنے لیے سیاست میں جس کردار کی متمنی ہے، ہیجان کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اگر گہرائی میں جاکر اس ہیجان کا تجزیہ کیا جائے تو اس کا ایک حل اڈیالہ جیل کا پھاٹک کھولنے سے بھی مل جانے کی امید اور توقع ہے، لیکن اگر حقائق سامنے رکھیں تو جیل کا پھاٹک کھول دینے سے بھی یہ ہیجان ختم ہونے والا نہیں ہے۔ اصل سچ یہ ہے کہ ملک میں ہیجان اس لیے ہے کہ عالمی ساہوکاروں سے مسلسل قرض لیے جانے کی وجہ سے ہماری قومی سیاست اور حکومتی فیصلوں میں غیر ملکی مداخلت مسلسل بڑھ رہی ہے، یہ مداخلت براہِ راست بھی ہے اور بالواسطہ بھی۔ ایک ہمسایہ اور ایک مسلم ملک خواہش مند ہیں کہ جب تک پاکستان میں ان کے منصوبوں میں حتمی پیش رفت نہیں ہوجاتی، جیل کا پھاٹک نہ کھولا جائے۔ دوسری اہم بات سی پیک کے منصوبے کے لیے سیکورٹی کے ایشوز سے متعلق ہے، اس معاملے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کا بھی اندازہ وزیراعظم شہبازشریف کے آئندہ دورہ چین سے ہوجائے گا۔ یہ دورہ بہت جلد متوقع ہے۔ سی پیک منصوبے کی سیکورٹی بہت حساس معاملہ بن کر سامنے آرہا ہے، اس پر لکھا جاسکتا ہے نہ بولا جاسکتا ہے، خاموش رہنے میں ہی عافیت ہے، کیونکہ اس موضوع پر گفتگو انتہا سے زیادہ خطرناک ہے، اس بات کو یہیں ختم کرکے آگے بڑھتے ہیں۔

اِس وقت ملک کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ معیشت ہے، آج ہم جس نہج پر کھڑے ہیں اس کی تمام تر ذمہ داری ایک سابق اعلیٰ عسکری شخصیت پر عائد کی جاسکتی ہے کہ اُن کے دباؤ میں پاکستان میں اُس وقت کی حکومت نے ایک بلین ڈالر کی خطیر رقم ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والی ایک غیر ملکی فرم کو دی تھی اور یہ ادائیگی کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں تھی، اس وجہ سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے اور ملک کے نادہندہ ہوجانے کا شور اٹھا۔ اس فیصلے کا بے رحم احتساب ہونا چاہیے تھا جو نہیں ہوا۔ اسلام آباد کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کسی کا احتساب نہیں ہوتا، بلکہ احتساب کا عمل جیل سے سیدھا کابینہ میں شامل ہوجانے کا زینہ ضرور بن جاتا ہے۔

ملک میں بجلی کے فی یونٹ نرخ ایک نہایت اہم اور عوامی نوعیت کا حساس معاملہ بنا ہوا ہے۔ اس کی حساسیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرکار کے اپنے ریکارڈ کے مطابق صارفین سے بجلی کے بلوں میں کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں آئی پی پیز نے جولائی 2023ء سے جون 2024ء 9 کھرب 79 ارب 29 کروڑ روپے وصول کیے ہیں۔ چائنا پاور حب جنریشن کمپنی نے کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 137 ارب، ہیونخ شندوم انرجی نے 113 ارب، پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی نے120 ارب 37 کروڑ،کوئلے سے چلنے والی 8 آئی پی پیز نے 7 کھرب 18 ارب،گیس سے چلنے والی 11 آئی پی پیز نے کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 72 ارب 63 کروڑ روپے وصول کیے ہیں۔ اسی طرح پن بجلی سے چلنے والی 3 آئی پی پیز نے 106 ارب روپے، اورفرنس آئل سے چلنے والی 11 آئی پی پیز نے کپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 81 ارب 60 کروڑ وصول کیے۔ کون ہے جو ان بجلی گھروں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا؟ کسی جانب سے کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے، لیکن دیگر بہت سے معاملات ہیں جن میں تیزی سے پیش رفت ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے، اسلام آباد میں کچھ ایسی ہوا کا جھونکا محسوس ہونے لگا ہے کہ اگلے سال مارچ اپریل تک اڈیالہ جیل کا پھاٹک کھل سکتا ہے، اس کا ایک اظہار گزشتہ ہفتے ہوا ہے کہ حالات نے اچانک پلٹا کھایا اور چشم زدن میں بشریٰ بی بی کی ضمانت منظور ہوگئی اور انہیں کسی تردد کے بغیر رہا کردیا گیا، اور پھر اگلے روز عمران خان کی دو گرفتار بہنوں کو بھی ضمانت پر رہا کردیا گیا۔

نظریہ سازش پر یقین رکھنے والے سیاسی کارکن ہر سیاسی فیصلے پر اپنی ذاتی منفی یا مثبت رائے قائم کرنا اور اس پر غلط یا صحیح سوچ مسلط کرنا اپنی سیاسی دانش وری تصور کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے کے دوران بڑے واقعات رونما ہوئے، ایک بشریٰ بی بی کی رہائی اور دوسرا وفاقی دارالحکومت سنگجانی پولیس اسٹیشن کی حدود میں پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ قیدیوں کی تین قیدی وینوں پر مبینہ طور پر چھڑانے کے لیے حملہ… یہ دونوں واقعات نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہیں بلکہ سرنگ کے پار روشنی کی علامت محسوس ہورہے ہیں۔ بشریٰ بی بی کی رہائی، اور تحریک انصاف کے لیے ریلیف کی ایک وجہ حالیہ دنوں میں ہونے والی کچھ اہم تقرریاں ہیں، لہٰذا بشریٰ بی بی کی رہائی ڈیل بھی ہے اور ڈھیل بھی۔ تحریک انصاف کے گروپ جس طرح کھل کر ایک دوسرے کے خلاف سامنے آئے ہیں یہ بھی بلا سبب نہیں ہے، اور وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا علی امین گنڈاپور کے باغیانہ رویّے میں واضح تبدیلی بھی کسی اَن دیکھی قوت کی اطاعت قبول کرنے کی جانب واضح اشارہ ہے۔ بشریٰ بی بی سے متعلق کہا جارہا ہے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بنیں گی تاہم وہ ’’محفوظ مقام‘‘پر ضرور پہنچ چکی ہیں، اور قیدیوں کی وین پر حملے پر پہلے پی ٹی آئی نے بہت شور مچایا، اب خاموش ہوگئی ہے، جس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پولیس، پرزنر وینز حملہ کیس کے پیچھے ایسے کرداروں کی تلاش میں ہے جن کے ہاتھ میں حملہ آوروں کا ریموٹ کنٹرول ہے، قیدیوں کی وین پر حملہ یقیناً قانون کا ایک امتحان ہے، لیکن جو حملہ آئین پر ہوا ہے اس کا کون حساب لے گا؟

آئینی ترمیم کے بعد ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سربراہ کی حیثیت سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سبک دوش ہوگئے ہیں، ان کا دور مدوجزر کا شکار رہا، جس میں ان کی شخصیت اور مزاج کا بہت دخل تھا۔ مبارک ثانی کیس ان کے فیصلوں پر ایک دھبہ تھا، بہتر ہوا کہ وہ رائے عامہ کے دباؤ میں اپنے دیے ہوئے فیصلے کی اصلاح کرگئے۔ ملکی عدلیہ ہمیشہ انتظامیہ اور غیر مرئی قوتوں کے دباؤ میں رہی ہے، اس میں بھی زیادہ قصور وار عدلیہ خود ہی ہے۔ ہماری عدلیہ صرف ایک اللہ کا خوف اپنے دل میں بٹھالے تو دنیا کے سارے ڈر ختم ہوجائیں گے، ہمارا عدالتی نظام اگر اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑا ہوجائے تو پھر فیصلے بھی قانون کے تابع رہیں گے اور کسی کی جرأت نہیں ہوگی کہ عدلیہ سے اپنے مقصد اور مفاد کے تحت فیصلہ کروائے۔ لیکن ہم مغرب اور اُس کی نام نہاد انسانی حقوق کی تحریک اور مالی تازیانوں کے دباؤ کا شکار رہتے ہیں اور پوری طرح مرعوب ہں، لہٰذا ہمارا ہر ادارہ خرابیوں کے گندے جوہڑ میں ڈوبا ہوا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی ایک کردار تھے، اسٹیج پر آئے، اپنا کردار نبھایا اور چلے گئے، پارلیمان کو اس کا اصل مقام دینے کے لیے نتیجہ خیز فیصلے کیے اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے آئین کو ازسرنو لکھے جانے کا جو سلسلہ جاری تھا، اس کی مؤثر طور پر حوصلہ شکنی کی۔ اب ان کی جگہ جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس بن گئے ہیں، ان کے تقرر سے ہماری عدالتی تاریخ کا ایک ہنگامہ خیز اور چیلنجوں سے بھرپور دور اپنے اختتام کو پہنچا، اور 26 ویں آئینی ترمیم کے تابع رہ کر آئین آگے بڑھے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں انتہائی حساس مقدمات تک کی کارروائی کو میڈیا پر براہِ راست دکھائے جانے اور چیمبر میں سماعت کی روایت مکمل طور پر ختم کردینے کی شکل میں سپریم کورٹ میں شفافیت لانے کی کوشش کی گئی، تاہم ماتحت عدلیہ کا نظام تبدیل نہیں ہوسکا، جہاں ہر قسم کی کرپشن ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے ملک کی عدلیہ بھی سیاسی اثرات کا شکار رہی ہے، عوامی نمائندگی کے آرٹیکل کے تحت اہلیت اور نااہلیت سے متعلق مقدمات میں آئین میں تشریح کے نام پر متنازع فیصلے دیے گئے، اس کے نتیجے میں سیاست میں بے قراری میں اضافہ ہوا۔ یہ بھی ایک بدقسمتی رہی کہ جسٹس رفیق تاڑر، یعقوب علی خان، سجاد علی شاہ، سعید الزماں صدیقی سمیت بے شمار جج الوداعی ریفرنس لیے بغیر رخصت ہوگئے، گزشتہ ہفتے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی خدمات کا بھرپور اعتراف سپریم کورٹ میں اُن کے اعزاز میں منعقد کیے گئے الوداعی ریفرنس میں تمام ہی شرکاء کی جانب سے کیا گیا۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے پیشرو کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے خواتین کے وراثتی جائداد میں حق سے متعلق بہترین فیصلے کیے۔ نئے چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں اس عزم کا پُرزور اظہار کیا کہ اللہ کی تائید و نصرت سے پاکستان کے عوام کے لیے قانون کی حکمرانی یقینی بنائی جائے گی، عدالت کے تقدس اور ہر جج کے وقار کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ تاہم سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے ریفرنس میں سپریم کورٹ کے 6 ججوں کی عدم شرکت اور ایک جج کی جانب سے اُن کے خلاف الزامات پر مبنی خط سامنے لائے جانے سے عدالتِ عظمیٰ میں تقسیم و تفریق کا جو تاثر مزید گہرا ہوا ہے، وہ بہرحال افسوس ناک ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی ہر قسم کی گروہ بندی سے بالاتر رہنے اور سختی سے آئین اور قانون کی پابندی کرنے والے جج کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے پاس کام کرنے کے لیے تین سال کی طویل مدت بھی ہے، توقع ہے کہ وہ عدالتی نظام میں اصلاحات کرنے میں کامیاب ہوں گے، ان کے دور میں اعلیٰ عدلیہ میں سیاسی پسند ناپسند کے بجائے فیصلے حقیقی معنوں میں آئین اور قانون کی پاس داری کا فرض منصبی انجام دیتے ہوئے کرنے کی روایت مستحکم ہوگی۔

جن خرابیوں کی وجہ سے ہمارے عدالتی نظام خصوصاً ماتحت عدلیہ میں کرپشن اور بدانتظامی کا ایسا دور دورہ ہے کہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آج پاکستان دنیا کے 142 ملکوں میں سے 129ویں، اور خطے کے 6 ملکوں میں مختلف حوالوں سے چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہے، ان تمام نقائص اور خامیوں کا مستقل بنیادوں پر ازالہ کرکے قوم کو خامیوں سے پاک عدالتی نظام کب دیا جائے گا؟ عدلیہ کو تو ملک میں جاری فائلر اور نان فائلر کی بحث کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ نان فائلر جائداد خرید سکتا ہے نہ گاڑی۔ مگر اس معاملے میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ملک میں کوئی ایسا قانون موجود نہیں کہ حکومت کسی کو جائداد خریدنے سے روک سکے، اگر حکومت نے یہ فیصلہ کرلیا ہے تو پھر اسے قانون سازی بھی کرنا ہوگی، اس کے بغیر حکومت کے اقدامات غیر قانونی تصور ہوں گے۔