کیا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا پورا کھیل ختم ہو گیا؟
پاکستان کے ریاستی نظام میں وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس کی تقرری کو ہمیشہ اقتدار کے کھیل یا طاقت کے مراکز میں بڑے فیصلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داخلی اور خارجی محاذ پر یہ بات عام ہے کہ پاکستان میں بڑے فیصلے یا بڑی تقرریاں میرٹ یا عوامی مفاد کے بجائے سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے ملک میں نئے چیف جسٹس، جسٹس یحییٰ آفریدی کی تقرری کو بھی ایک بڑے سیاسی کھیل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ان کی تقرری کا یہ فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے سے پہلے ہی ہوگیا تھا،کیونکہ ریاست اور سیاست کے مراکز نے یہ بات بھی پہلے سے ہی طے کرلی تھی کہ نئے چیف جسٹس کے طور پر جسٹس منصور علی شاہ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اسی کی بنیاد پر 26ویں آئینی ترمیم کا کھیل بھی کھیلا گیا، اور اس کھیل کا مرکزی نکتہ جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنا تھا۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے اپنی پوری طاقت سے یہ کھیل کھیلا اور مطلوبہ نتائج حاصل کرلیے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی ایک بہترین جج ہیں، ان کی شخصیت متنازع نہیں، اور ان کی تقرری پر بھی بہت زیادہ تنقید نہیں ہوئی، مگر ان کی تقرری کے عمل میں سیاست بہت زیادہ بالادست تھی اور سینیارٹی کے اصول کو پامال کرکے وہی کھیل کھیلا گیا جو ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس لیے نئے چیف جسٹس کی تقرری کو ایک بڑے سیاسی کھیل یا بڑے فریم ورک میں دیکھ کر نتائج اخذ کرنا ہوں گے۔
سابقہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوگئے، مگر وہ ایک متنازع حیثیت سے گئے ہیں اور ان کے بارے میں جو خط جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے وہ خاصا سنگین ہے۔ اس خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے نہ صرف اُن کے اعزاز میں دی جانے والی الوداعی تقریب میں شرکت نہ کرنے کا جواز پیش کیا بلکہ سابقہ چیف جسٹس پر الزام لگایا کہ وہ عدلیہ میں بیرونی مداخلت کے دروازے کھول کر گئے ہیں، اور اس طرح عدلیہ کی سطح پر ہونے والی مداخلتوں کو روکنے کے بجائے سابق چیف جسٹس نے شتر مرغ کی طرح سرریت میں دبا لیا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے سابقہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی الوداعی تقریب میں شرکت سے انکار کیا جن میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاد شامل تھے۔ یہ طرزعمل عدلیہ میں پہلے سے موجود تقسیم کو مزید نمایاں کرتا ہے جس کا ردعمل مستقبل میں بھی عدالتی امور میں دیکھنے کو ملے گا۔ نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا یہی سب سے بڑا امتحان ہے کہ وہ پہلے سے موجود اس تقسیم کو کم کرتے ہیں یا اسے مزید گہرا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ بنیادی طور پر نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی تقرری پر اعتراض اُن کی قابلیت کے حوالے سے نہیں، بلکہ اُن کی تقرری کے عمل میں شفافیت یا سینیارٹی کے اصول کو نظرانداز کرنے پر ہورہا ہے۔ بعض لوگوں نے کہا تھا کہ شاید نئے چیف جسٹس خود یہ عہدہ لینے سے انکار کردیں، مگر ایسا نہیں ہوا، اور اب وہ ملک کے نئے چیف جسٹس ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ اُن کا دور پہلے سے موجود عدالتی تنازعات کو کیسے کم کرے گا۔ اسی طرح حکومت اور عدلیہ کے درمیان جو ٹکرائو ہے اس میں کیسے کمی آئے گی، کیونکہ خدشہ ہے کہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان ابھی بہت سے معاملات میں خرابی پیدا ہونی ہے۔ نئے چیف جسٹس کے سامنے پانچ طرح کے چیلنجز ہیں:
(1) عدالتی ساکھ، (2) عدلیہ کی داخلی کشمکش، (3)ملک میں انسانی حقوق کی بدترین صورتِ حال، (4) عدالتی امور میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اور دبائو، (5) عدالت میں موجود سیاسی مقدمات اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونا۔
پہلے ہی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی پر الزام ہے کہ حکومت اپنی پسند کی بنیاد پر اُن کو بطور چیف جسٹس لائی ہے اور اس کے پیچھے سیاسی مقاصد ہیں۔ اس لیے دیکھنا ہوگا کہ نئے چیف جسٹس خود کو حکومتی حمایت سے کس حد تک دور رکھ سکیں گے۔ یہ بات یقینی ہے کہ نئے چیف جسٹس کی کوشش ہوگی کہ وہ پرانے چیف جسٹس کے مقابلے میں خود کو سیاسی معاملات یا حکومتی یا اسٹیبلشمنٹ کے کیمپ سے دور رکھیں اور تنقید کرنے والوں کو یہی جواب دیں کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مختلف چیف جسٹس ہیں اور تمام امور پر وہ غیر جانب دارانہ کردار ادا کریں گے اور خود کو سیاسی چیف جسٹس کے طور پر پیش کرنے سے گریز کریں گے۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں ایک بڑی سیاسی لڑائی عدالت میں ہی لڑی جائے گی اور حکومت کوشش کرے گی کہ وہ عدلیہ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر اپنا سیاسی مفاد حاصل کرے، جس سے نیا ٹکرائو پیدا ہوگا۔ اسی طرح چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر پی ٹی آئی اور عمران خان کے سخت تحفظات تھے، اب نئے چیف جسٹس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو بھی عدالتی عمل کی بنیاد پر یہی پیغام دیں کہ وہ پی ٹی آئی سمیت سیاسی معاملات میں آئین و قانون کے تحت اپنا کام کریں گے۔ سابقہ دور میں کئی ججوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو عدالتی امور میں مداخلت اور بالخصوص ایجنسیوں کے کردار پر خط لکھا تھا، مگر سابقہ چیف جسٹس نے ان معاملات کو مکمل طور پر دبائے رکھا، اب نئے چیف جسٹس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان معاملات پر بھی توجہ دیں جو عدلیہ کی خودمختاری اور انسانی حقوق سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک مخصوص جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ انسانی حقوق کی بنیاد پر ہورہا ہے اس پر بھی عدالتوں کو نوٹس لینا چاہیے، اور یہ تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے کہ ریاست یا حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف ہونے والے انتقامی عمل میں عدلیہ بھی بطور سہولت کار شامل ہے۔ اگرچہ نئے چیف جسٹس نے قانون کی حکمرانی کے عزم کو دہرایا ہے، مگر یہ عمل محض نعروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کی عملی شکل واضح طور پر ملک کے سیاسی اور قانونی نظام میں نظر آنی چاہیے۔کیونکہ اگر واقعی عدالتی نظام اور قانون کی حکمرانی کی ساکھ کو قائم کرنا ہے تو اس کے لیے عدالتی محاذ پر غیر معمولی فیصلوں اور شفافیت پر مبنی اقدامات کو بنیاد بناکر آگے بڑھنا ہوگا۔
نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے حلف اٹھاتے ہی چند بڑے فیصلے کیے ہیں۔ انہوں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیلِ نوکی ہے اور اس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو شامل کیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے فل کورٹ اجلاس منعقد کیا اور جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بھی 8 نومبر کو طلب کرلیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو دوبارہ کمیٹی میں شامل کرنے کے فیصلے پر چیف جسٹس کی تعریف کی جارہی ہے اور اس سے عدالتی تنائو میں کمی بھی ہوسکتی ہے۔ جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں ایجنسیوں کی مداخلت پر لکھے جانے والے خط اوراسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت چیف الیکشن کمشنر کے خلاف شکایات بھی رکھی گئی ہیں۔اسی طرح نئے چیف جسٹس نے اینٹی دہشت گردی کورٹس کے انتظامی ججوں کا اجلاس بھی 7 نومبر کو طلب کرلیا ہے اور ان کی کارکردگی کی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ اگرچہ سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کا ایجنڈا جاری نہیں ہوا مگر وکلا کا خیال ہے کہ وہ ایجنسیوں کی مداخلت پر اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ سپریم اور ہائی کورٹس کے جج اس اہم معاملے پرنئے چیف جسٹس کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیا قدم اٹھاتے ہیں۔ ویسے بھی نئے چیف جسٹس پر اپنے دو سینئر ججوں جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا دبائو ہوگا کہ وہ ان کو مطمئن کیے بغیر یا ان پر اعتماد کیے بغیر عدالتی امور اپنی قیادت میں بہتر طور پر نہیں چلاسکیں گے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اگر 26ویں ترمیم چیلنج ہوتی ہے تو عدلیہ کہاں کھڑی ہوتی ہے! مگر ایک بات سمجھ میں آرہی ہے کہ 26ویں ترمیم سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا پورا کھیل ختم نہیں ہوا، اور کچھ باقی ہے جس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کی جانب سے ملٹری کورٹس کی حمایت میں27ویں ترمیم کا شوشا چھوڑا جارہا ہے۔ لگتا ہے کہ حکومتی کھیل سے پسِ پردہ طاقتیں مکمل خوش نہیں اور حکومت کو یہ نیا اسکرپٹ دیا گیا ہے کہ وہ 27ویں ترمیم کی مدد سے فوجی عدالتوں کی تشکیل کو یقینی بنائے، اوراگر ایسا ہوتا ہے تو کھیل کا دوسرا مرحلہ بھی ہوگا جو ایک نئے ٹکرائو کی جانب بڑھے گا۔ بظاہر حکومت 26ویں ترمیم کے بعد خود کو محفوظ سمجھ رہی ہے اور اُس پر یہ جو خطرہ تھا کہ اگر نئے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہوں گے تو حکومت کو انتخابات کے مقدمے میں گھر بھیجا جاسکتا ہے۔ مگر اب بھی حکومت پر یقینی طور پر خوف کا سایہ ہے۔ حکومت کو لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس سے زیادہ خوش نہیں ہے، اور دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے اب 27ویں ترمیم لانے کی کوشش کی تو اس پر بھرپور مزاحمت کی جائے گی، اور مولانا کے بقول اس ترمیم کی منظوری کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس سے قبل مولانا کی جماعت مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو تنقید کا نشانہ بناچکی ہے کہ ہمیں جسٹس منصور علی شاہ کا کہا گیا تھا کہ وہی چیف جسٹس ہوں گے مگر دونوں جماعتوں نے ہم سے کیے گئے وعدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ مولانا خود کو ابھی بھی اپوزیشن کے طور پر پیش کررہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سمیت اپوزیشن کے محاذ پر نئی سیاسی اور عدالتی کشیدگی کو بھی دیکھنے کا موقع ملے گا۔ کیونکہ حکومت کو صرف اپوزیشن سے ہی خطرہ نہیں بلکہ وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی خوف زدہ ہے، اوراس کی کوشش ہوگی کہ کسی بھی طریقے سے مولانا فضل الرحمٰن کو پی ٹی آئی کی سیاست سے دور رکھا جائے۔ ویسے بھی حکومت پر یہ ڈر غالب ہے کہ جس طریقے سے پی ٹی آئی کے معاملا ت چل رہے ہیں اور جس طرح سے ان کے لوگوں کو ریلیف مل رہا ہے اس کے پیچھے کوئی کھیل ہے جو ہم سے چھپایا جارہا ہے۔ خاص طور پر بشریٰ بی بی کی رہائی پر حکومت زیادہ خوش نہیں، اور اپنے خلاف اس نئے کھیل کو سمجھنے کی کوشش کررہی ہے۔ حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ نئے چیف جسٹس کی مدد سے عدالت کے نظام پر اپنے کنٹرول میں اضافہ کرے اور خاص طور پر عدالتوں سے پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی یعنی عمران خا ن کو کوئی ریلیف نہ ملے، کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ اگر اسے عدالت کا تحفظ حاصل رہا تو وہ عدالتی کنٹرول کی مدد سے اپنی حکومت قائم رکھ سکتی ہے۔ ایک بڑا امتحان مخصوص نشستوں کا ہے جہاں عدالتی فیصلے کے بعد کہ یہ نشستیں پی ٹی آئی کا حق ہے، اس پر حکومت، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے درمیان سرد جنگ ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ کیا نئے چیف جسٹس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرسکیں گے؟ اور اگر اس پر عمل نہیں ہوتا تو کیا عمل نہ کرنے والوں پر توہینِ عدالت لگے گی؟کیونکہ حکومت کی یہی کوشش ہے کہ یہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو نہ ملیں وگرنہ حکومت کی دو تہائی اکثریت متاثر ہوگی۔ حکومت کا پلان یہ ہے کہ ہمیں مخصوص نشستیں مل جاتی ہیں تو اس سے ہم 27 ویں ترمیم کی منظوری کے لیے اپنی دو تہائی اکثریت یقینی بنالیں گے اور یہ عمل مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت کے بغیر بھی ممکن ہوجائے گا۔ دوسری طرف حکومتی محاذ پر نوازشریف کی لندن روانگی پر بھی کئی طرح کی سیاسی خبریں قائم کی جارہی ہیں اور کہا جارہا ہے کہ وہ کافی مایوسی کے بعد لندن جارہے ہیں۔ سیاسی سطح پر ان کے قریبی دوستوں نے مشورہ دیاہے کہ اگر وہ سیاسی ریلیف چاہتے ہیں تو حکومت چھوڑ دیں کیونکہ اِس حکومت میں ان کے پاس سوائے اسٹیبلشمنٹ کی ڈکٹیشن کے، کچھ نہیں ہے، اور یہ حکومت ان کی سیاست اور جماعت کی اہمیت کو کم کررہی ہے۔لیکن نوازشریف کے سامنے ان کی بیٹی کا بھی چیلنج ہے جو اس وقت پنجاب کی وزیراعلیٰ ہے، اگر نوازشریف نے ریڈلائن کراس کرنے کی کوشش کی تو ان کی بیٹی کو پاکستان میں سیاسی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ویسے بھی نوازشریف پاکستان کی سیاست اور حکومت میں سیاسی تنہائی کا شکار ہوگئے ہیں اور ان کی سیاسی اہمیت ان کی سمجھوتوں کی سیاست کی وجہ سے غیر اہم ہوگئی ہے، اس کے ذمہ دار محض شہبازشریف یا مریم نواز ہی نہیں بلکہ خودنوازشریف بھی ہیں، اور جو کچھ مسلم لیگ ن یا نوازشریف کے ساتھ ہورہا ہے اس پر بے بسی کی ایک جھلک قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں نوازشریف کی شرکت اور اُس شعر سے ملتی ہے جس میں سوائے بے بسی کے اورکچھ نہیں ہے۔