26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے فوری بعد نئے منصفِ اعلیٰ کے تقرر کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کی دو تہائی اکثریت کی جانب سے نامزد کردہ عدالتِ عظمیٰ میں سینیارٹی کے لحاظ سے تیسرے نمبر کے جج محترم جسٹس یحییٰ آفریدی ہفتے کے روز ایوانِ صدر میں حلف برداری کے بعد بطور منصفِ اعلیٰ پاکستان اپنا منصب سنبھال چکے ہیں، ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اُن کی قیادت میں تیزی سے مثبت جانب سفر شروع کرچکی ہے اور بہت سے لوگوں کی منفی توقعات پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ کو وطنِ عزیز کی بہتری مقصود ہے کہ شر میں سے خیر برآمد ہوتا محسوس ہورہا ہے۔ منصفِ اعلیٰ جسٹس یحییٰ آفریدی کے پیش رو جسٹس (ر) قاضی فائز عیسیٰ جو ریٹائرمنٹ کے بعد اب اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ لندن پہنچ چکے ہیں، کے دور میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ جس طرح گروہ بندی کا شکار رہی اور دھڑے بندی جس حد تک واضح اور نمایا ں رہی اُس سے عدالتِ عظمیٰ کی ساکھ، عزت اور وقار کو شدید نقصان پہنچا۔ ان کے دور میں بعض فیصلوں کے ذریعے عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری بری طرح متاثر ہوئی۔ ان فیصلوں کے ذریعے برسراقتدار گروہ کو فائدہ پہنچانے اور عدالتی غیر جانب داری اور بالادستی کے بجائے حکومتِ وقت کے مفادات کی محافظ کا تاثر ابھر کر سامنے آیا۔ برسراقتدار طبقے اور صاحبانِ اختیار نے 26 ویں ترمیم کے ذریعے اپنی دانست میں عدالتِ عظمیٰ کے اسی نوع کے کردار کو مستقبل میں بھی جاری رکھنے بلکہ اس سے بھی کمتر سطح پر لاکر اپنا تابع مہمل بنانے کی نہایت زبردست اسکیم پر عمل کیا تھا، مگر ترمیم کے بعد ہفتہ عشرہ کی پیش رفت سے ظاہر ہورہا ہے کہ اربابِ اختیار کو ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘ کی کیفیت کا سامنا ہے۔ حکومت نے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے دو سینئر ترین ججوں کے بجائے تیسرے نمبر کے جج کو ملک کا منصفِ اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا تو اس پر بجا طور پر سخت تنقید اور لے دے کی گئی۔ ایک جانب اگر یہ کہا گیا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کو یہ پیشکش قبول نہیں کرنی چاہیے، تو دوسری جانب یہ توقع بھی باندھی گئی کہ دو سینئر جج حضرات اس فیصلے کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں گے۔ مگر داد دینی چاہیے اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات خصوصاً سینئر حضرات کی فہم و فراست کو، جنہوں نے معاملے کو ذاتی انا اور وقار کا مسئلہ بنانے کے بجائے حکمت و تدبر کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ نئے منصفِ اعلیٰ نے نہایت مدبرانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سبکدوش ہونے والے منصفِ اعلیٰ کو جج حضرات کے خرچ پر ظہرانہ دے کر عزت سے رخصت کرکے عدلیہ میں قاضی فائز عیسیٰ کے حامی سمجھے جانے والے ججوں کی خوشنودی اور ہمدردیاں سمیٹنے کا سامان کیا جب کہ دوسری جانب انہوں نے اپنے سے سینئر دو ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی دل جوئی اور مقام و مرتبے کی بحالی کا بھی زبردست اہتمام کیا۔ حکومت نے عدلیہ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کرکے پہلے منصفِ اعلیٰ کے انتظامی اختیارات کو تین رکنی سینئر ججوں کی کمیٹی کے ذریعے چلانے کا قانون بنایا، مگر پھر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی سینیارٹی سے خوف زدہ ہوکر راتوں رات ایک آرڈیننس جاری کرکے اس کے طریق کار کو تبدیل کرکے جونیئر ججوں کی اس کمیٹی کی رکنیت کا راستہ کھولا، جس کا سبکدوش ہونے والے منصفِ اعلیٰ نے بھرپور فائدہ اٹھاکر حکومت کو نوازنے، من مانی کرنے اور پارلیمنٹ میں لوٹا کریسی کی حوصلہ افزائی کا بھرپور سامان کیا۔ تاہم نئے منصفِ اعلیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں اپنے ساتھ دو سینئر ترین ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو شامل کرکے نہ صرف انصاف کا بول بالا کیا بلکہ حکومتی صفوں میں بھی کھلبلی مچا دی، اور بے چاری حکومت کے لیے ’’جن پہ تکیہ تھا، وہی پتّے ہوا دینے لگے‘‘ کی صورتِ حال پیدا کردی۔ یہی نہیں، انہوں نے منصب سنبھالتے ہی کام کے پہلے ہی روز عدلیہ کا ’’فل کورٹ‘‘ اجلاس منعقد کر ڈالا جس کا مطالبہ جج حضرات کی طرف سے طویل عرصے سے کیا جا رہا تھا مگر سابق منصفِ اعلیٰ اسے مسلسل معرضِ التواء میں رکھے ہوئے تھے۔ اس فل کورٹ اجلاس میں عدالتِ عظمیٰ کے تمام ججوں اور جسٹس منصور علی شاہ نے عمرہ کی خاطر بیرونِ ملک ہونے کے باوجود ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کرکے اپنی جانب سے نئے منصفِ اعلیٰ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا، پھر اس اجلاس میں سونے پہ سہاگہ والا معاملہ یہ ہوا کہ اجلاس نے عدلیہ میں زیرالتوا مقدمات میں کمی لانے کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کا پیش کردہ ’’کیس مینجمنٹ سسٹم‘‘ ایک ماہ کے لیے نافذ کرنے کا فیصلہ کرلیا جس سے عدلیہ کی یکجہتی اور اتحاد و اتفاق نمایاں ہوا۔
26ویں آئینی ترمیم کا ایک اہم حاصل، عدالت ہائے عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ میں آئینی بنچوں کی تشکیل ہے جس کا مرحلہ اب درپیش ہے۔ عدالتِ عظمیٰ میں اس ’آئینی بنچ‘ کی تشکیل ایک جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تکمیل کو پہنچے گی، اسپیکر نے حکومت اور حزبِ اختلاف سے کمیشن کے ارکان کے نام طلب کرلیے ہیں۔ تحریک انصاف نے منصفِ اعلیٰ کے لیے بننے والی پارلیمانی کمیٹی میں اپنے ارکان نامزد تو کیے مگر کمیٹی کی کارروائی کا حصہ نہیں بنی، جس کا حکومتی اتحاد نے فائدہ اٹھایا، تاہم اب تحریک انصاف نے جوڈیشل کمیشن کا حصہ بننے، مجلسِ شوریٰ کے ایوانِ بالا سینیٹ اور ایوانِ زیریں قومی اسمبلی سے اپنے ارکان نامزد کرنے اور کمیشن کی کارروائی میں سرگرم حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ کمیشن کی ہیئتِ ترکیبی کو پیش نظر رکھا جائے تو غالب امکان ہے کہ حکومت کو یہاں پارلیمانی کمیٹی کی طرح من مانی کرنے کا موقع نہ ملے، یوں بھی قواعد کی رو سے عدالتِ عظمیٰ کے منصف ِاعلیٰ کے تقرر کے برعکس آئینی بنچ کے سربراہ سینئر ترین جج ہی ہوں گے۔ یوں بڑی امنگوں، آرزوئوں، توقعات اور اصرار کے ساتھ بنوائے گئے ’آئینی بنچ‘ میں حکومت کو لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کیا بھی جا چکا ہے اور تحریک انصاف کے علاوہ جماعت اسلامی بھی اس ترمیم کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے اعلانات کرچکی ہیں۔ اس ترمیم کا معاملہ بھی ’آئینی بنچ‘ ہی میں زیر سماعت آئے گا، جہاں سے فیصلہ حکومتی امنگوں کے برعکس بھی آسکتا ہے کہ اب عدلیہ میں حکومت کو کوئی قاضی فائز عیسیٰ ممکن ہے دستیاب نہ ہوسکے۔ یوں عدالتِ عظمیٰ میں منصفِ اعلیٰ کی تبدیلی کے بعد حالات خاصی مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ نئے منصفِ اعلیٰ اندرونی تقسیم ختم کرکے عدلیہ میں ہر طرح کی سوچ رکھنے والے ججوں کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ماحول اب خاصا بہتر اور خوش گوار ہے۔ اللہ کرے ہماری معزز عدالتِ عظمیٰ کی آزادی و خودمختاری، عزت اور وقار کی بحالی کی کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوں۔ آغاز تو اچھا ہے، انجام خدا جانے۔(حامد ریاض ڈوگر)