نہ اسیر گنبدِ شاہ کا ، نہ فقیر حُسنِ نگاہ کا
نہ حریص تاج و کلاہ کا نہ، مرید دولت و جاہ کا
نہ سکندری سے کوئی غرض، نہ مریض خوفِ سپاہ کا
نہ مفکروں میں شمار کر، نہ مناظروں میں تلاش کر
جو ڈٹی ہوئی ہیں محاذ پر، مجھے ان صفوں میں تلاش کر
ابھی شوق ہے میرا نا رسا ، ابھی نیم رس میرا میکدہ
یہ حنین و بدر کے راستے، کہیں تشنگی کہیں کربلا
میرا سر گرے تیری راہ میں، یہی آرزو یہی التجا
وہ جو شب سے برسرِ جنگ ہیں انھیں جگنوؤں میں تلاش کر
جو ڈٹی ہوئی ہیں محاذ پر مجھے ان صفوں میں تلاش کر
میرے راستوں میں قدم قدم جو لہو کے نقش و نگار ہیں
تری چاہ ہیں، ترا شوق ہیں، ترا عشق ہیں، ترا پیار ہیں
مجھے خوفِ طولِ سفر نہیں، کہاں منزلیں کہاں دار ہیں
کبھی خیبروں میں تلاش کر، کبھی حیدروں میں تلاش کر
جو ڈٹی ہوئی ہیں محاذ پر، مجھے ان صفوں میں تلاش کر
جو فصیلِ شہر پہ جگمگاتی سی روشنی کا ظہور ہے
ترے جگنوئوں کا طفیل ہے، مری بے خودی کا ظہور ہے
ترے کج کلاہوں کے سامنے مری کج روی کا ظہور ہے
وہ جو کٹ مریں ترے نام پر، انھیں بے خودوں میں تلاش کر
جو ڈٹی ہوئی ہیں محاذ پر، مجھے ان صفوں میں تلاش کر
تیری جستجو، تیری آرزو، تیری بندگی، میری آبرو
میں حقیر قطرئہ آبِ جو، تُو ہی یم بیم تُو ہی جو بجو
ہے پیام تیرا ہی کو بکو، ہے نظام تیرا ہی چار سو
مجھے مثلِ نکہتِ گل کہیں تیری خوشبوؤں میں تلاش کر
جو ڈٹی ہوئی ہیں محاذ پر، مجھے ان صفوں میں تلاش کر
نہ شفق میں ہے کوئی سرمگی، نہ گلوں میں ہے کوئی تازگی
یہ جلے جلے کہیں آشیاں، یہ بجھی بجھی کہیں روشنی
کہ حدی کی لَے، ذرا تیز کر، کہیں سو نہ جائے ضمیر بھی
وہ پرند نغمہ سرا ہوئے، وہ نقاب روئے سحر اٹھی
وہ نقاب روئے سحر اٹھی، میرے ولولوں میں تلاش کر
جو ڈٹی ہوئی ہیں محاذ پر، مجھے ان صفوں میں تلاش کر
اسے عزمِ قلبِ صہیب دے ، اسے سوزِ روحِ بلال دے
وہ یقین دے، وہ کمال دے، وہ عزیمتوں کی مثال دے
جو فرازؔ دار ہو سامنے ، تو ہجوم شوقِ وصال دے
میں ہوں تیرا بزمیِ ناتواں، ترے مجرموں میں تلاش کر
جو ڈٹی ہوئی ہیں محاذ پر، مجھے ان صفوں میں تلاش کر