حیرت انگیز سفر پر مبنی کتاب ’’زبانِ یارِ من ترکی‘‘ پاکستان اور ترکی کے درمیان عمیق تعلقات کی عکاسی کرتی ہے، اور ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ کا قلم تاریخ، ثقافت اور دونوں ممالک کے مابین گہرے جذباتی بندھن کو نمایاں کرتا ہے۔
’’زبانِ یارِ من ترکی‘‘ محض ایک کتاب نہیں بلکہ دو قوموں کے درمیان موجود بے پناہ محبت، احترام اور باہمی اشتراک کی ایک زندہ مثال ہے۔ اس سفرنامے کے ذریعے مصنف نے ترکی کی زمینوں پر اپنے قدم رکھنے کے لمحات کو بیان کیا ہے، جہاں ہر گوشہ، ہر بستی اور ہر شہر پاکستان اور ترکی کے مابین دیرینہ دوستی کی کہانیاں سناتا ہے۔ یہ ترکی پر ایک تحقیقی سفرنامہ ہے جو تین سال میں مکمل ہوا۔ مصنف نے اس کتاب میں عثمانی ترکوں کے دورِ حکومت کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ مصنف کی یہ کتاب تہذیب، ثقافت، تاریخ اور مسلم عظمت کی آئینہ دار ہے۔
کتاب میں ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ کا اندازِ بیان انتہائی سادہ اور دلچسپی سے بھرپور ہے۔ وہ ایسے خوب صورت انداز میں اپنے مشاہدات بیان کرتے ہیں کہ قاری غیر محسوس طریقے سے خود کو اُن کا شریکِ سفر محسوس کرتا ہے۔
یہ صرف ایک سفرنامہ ہی نہیں بلکہ ترکوں کی تاریخ بھی ہے اور مسلمانوں کی تاریخ بھی، جو ہمیں اپنے عظیم الشان اور درخشندہ ماضی کی یاد دلاتی ہے۔ وہ گمشدہ تاریخ جو اب صرف کتابوں تک محدود ہوگئی ہے۔ اسلاف کی وہ بھولی بسری کہانیاں جو وقت کی گرد میں کہیں گم ہوکر رہ گئی ہیں۔ مسلمانوں کے ایسے کارنامے جن کی دنیا آج بھی مداح ہے، جن سے ہماری نوجوان نسل آج ناآشنا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو اپنی مثالی تاریخ بتانے کی اشد ضرورت ہے۔
زیر نظر کتاب ’’زبانِ یارِ من ترکی‘‘ ترکی کے سفرکی یادداشتوں پر مبنی ہے۔ یہ ایسے جذبات اور احساسات پر مشتمل ہے جو ایک مسلمان سیاح اپنے سفر کے دوران محسوس کرتا ہے۔ یہ صرف ایک سفرنامہ ہی نہیں بلکہ ترکی کے عروج و زوال کی داستان ہے۔ مصنف نے اس میں ترکی اور ترکوں کے متعلق ہر سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
کتاب کے پہلے حصے میں انہوں نے استنبول (قسطنطنیہ) کے معروف مقامات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس عظیم شہر کی تاریخ بھی انتہائی دل نشین پیرائے میں بیان کی ہے۔ استنبول کے بارے میں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، اوریہ عظیم فضیلت حاصل کرنے کے لیے حضرت امیر معاویہؓ، حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سمیت بے شمار بادشاہوں اور جرنیلوں کا تذکرہ بہت احسن انداز میں کیا ہے۔
جس فتح کے مسلمان صدیوں سے منتظر تھے، وہ اللہ تعالیٰ نے ایک اکیس سالہ نوجوان کے ہاتھوں لکھی تھی۔ سلطان محمد فاتح نے کس دلیری، جانبازی اور تڑپ کے ساتھ قسطنطنیہ کی فتح کا اعزاز اپنے سر سجایا، ڈاکٹر صاحب نے بہت ہی دلچسپ انداز میں اسے بیان کیا ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ نے کیپاڈوشیا اور اس کے زمین دوز شہروں کے مشاہدات بیان کیے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت مریمؑ کا گھر، اصحابِ کہف کا غار، سلجوق بیگ، سلجوق سلطنت اور ایفس شہر پر بھی قلم کشائی کی ہے۔
مصنف ترکی کے اس سفر میں خلافتِ عثمانیہ کے بانی ارطغرل غازی کے وطن بورصہ بھی جاتے ہیں اور وہاں کے مشاہدات اور تاریخ کو ایسے دلنشین انداز میں بیان کرتے ہیں کہ آپ خود کو اس منظر میں محسوس کرتے ہیں، اور پھر ارطغرل غازی اپنے ڈیڑھ ہزار ساتھیوں کے ساتھ ’’سوت‘‘ کی طرف ہجرت کرتا ہے اور پھر شجاعت و بہادری کی ایسی تاریخ رقم کرتا ہے جس کے بعد خلافتِ عثمانیہ جنم لیتی ہے اور مسلم دنیا کی امامت کا فریضہ انجام دیتی ہے۔
مصنف مولانا رومؒ کے مزار پر حاضری نہ دے سکے جس پر انہیں شدید افسوس ہے، لیکن انہوں نے مولانا جلال الدین رومیؒ، شمس تبریزؒ اور علامہ اقبالؒ کا تذکرہ بڑے ذوق و شوق سے کیا ہے۔ مصنف نے ترک تہذیب اور ترک قوم کی خاصیت پر بہترین انداز میں روشنی ڈالی ہے۔
البتہ ایک مقام پر آکر وہ خود کو زیادہ خوش قسمت سمجھتے ہیں جب ایک تختی پر موجود خلافتِ عثمانیہ کی تحریر وہ پڑھ لیتے ہیں۔ ان کا ترک دوست پوچھتا ہے کہ آپ کو یہ زبان آتی ہے؟ تو انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا ’’کمال پاشا نے ایک ہی فیصلے سے عربی اور فارسی رسم الخط پر پابندی لگادی تو ہم راتوں رات یتیم ہوگئے اور اپنے مذہب اور ثقافت سے محروم ہوگئے۔ آج ہمارے پاس ہزار سالہ تاریخ تو ہے لیکن ہم اپنے بزرگوں کی قبروں پر لکھی تحریر بھی نہیں پڑھ سکتے۔‘‘
ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ کا سفرنامہ ’’زبانِ یارِ من ترکی‘‘ بہت ہی بہترین انداز میں شائع کیا گیا ہے۔ خوب صورت سرورق، ترکی کی پُرشکوہ، حسین عمارات و مناظر کی رنگین اور بے حد دلکش تصویروں سے مزین 663 صفحات پر مشتمل اس سفرنامے کو تین حصوں اور 66 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر باب دلچسپ اور معلومات کا جہاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ محتویات کے تین حصوں میں یہ ابواب شامل ہیں:
حصہ اول: نیلی مسجد، کوسم سلطان (ماہ پیکر)، آیا صوفیہ، قسطنطین کا ستون، آبنائے باسفورس، قصہ استنبول کے سوہنی مہیوال کا، ہزار فن احمد چلیبی، ترکی کا ابن بطوطہ، قصہ چہار درویش، حضرت ابو ایوب انصاریؓ، استنبول کی زیر زمین مسجد، سلطان فاتح اور اس کی مسجد، توپ کاپی محل، استنبول کے چار میوزیم، استنبول کا نیول (بحری) میوزیم، پنورما 1453 میوزیم، مینیا ترک، گرینڈ بازار، حضرت عثمانؓ کا قرآن، نبی پاکؐ کی تلواریں، رسول اکرمؐ کا خط، چمچہ بنانے والے کا ہیرا، سرخ داڑھی والا، ڈولما باغیچہ محل اور کمال پاشا، سلطان سلیم اول، مرکز آفندی او جشن مسیر، سلیمانیہ مسجد، یحییٰ آفندی، سلطان عبدالحمید اور ضیا گوکلیپ، معمار سنان طبریزی، شہزادوںکے جزیرے، کمال پاشا کا ترکی یا اردگان کا ترکیہ، طیب اردگان کی مسجد، سلطانیت، قسطنطنیہ سے استنبول تک۔
حصہ دوئم:پریوں کے دیس میں، کیپا ڈوشیا کے زمین دوز شہر، ایک بوڑھے ترک سے ملاقات، اپالو کا شہر،روئی کے قلعے، اوغوز خان اور ترک، سلجوق بیگ سے منزکرت تک، اناطولیہ اور انطالیہ، ایفنیسس، حضرت مریم کا گھر، اصحاب کہف کی غار، ڈائنا کا مندر، قونیہ، رومی اور اقبال۔
حصہ سوئم: بورصہ، علی اور اس کا گائوں، ارطغرل غازی، عثمان غازی، عثمان غازی کی تلوار، شیخ ادا بیلی، اور
خان غازی، نیلوفر خاتون، علا الدین پاشا، سلطان مراد اول،لالہ شاہین پاشا، جامعہ اولیٰ، امیر سلطان، سلطان محمد اول، سلطان مراد ثانی، بورصہ کا چھ سو سالہ درخت، ہر کمالے را زوالے، خدا حافظ ترکی
پوری کتاب ترکی کی سیر کے ساتھ ساتھ آپ کو اس کی مکمل تاریخ سے آگاہ کرتی ہے۔ تاریخ کے جھروکوں سے جھانک کر حال کی ایسی منظرکشی کہ دیکھ کر دل خوش ہوجائے اور پڑھ کر روح سرشار ہوجائے۔ کتاب پڑھیں تو ایسے لگتا ہے کوئی قیمتی خزانہ آپ کے ہاتھ لگ گیا ہو۔ عمیق مطالعے، محتاط مگر گہری تحقیق اس کتاب کی خاصیت ہے، جس کی بنیاد پر اسے سفرنامہ کم تاریخ قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ سفرنامہ پڑھ کر قارئین کے دل میں بھی اس دیس جانے کی خواہش اور کئی خوابیدہ آرزوئیں بیدار ہوجاتی ہیں۔ یہ کتاب پاکستان اور ترکیہ کے درمیان تعلقات میں ایک نیا باب رقم کرنے کا سبب بنے گی اور ایک دوسرے کی ثقافت اور عوام کے مابین محبت اور احترام کو مزید مضبوط بنائے گی۔
’’زبانِ یارِ من ترکی‘‘ کے ذریعے قارئین کو نہ صرف ترکیہ کی خوب صورتی اور اس کی غنی ثقافت کا تجربہ ہوگا بلکہ انہیں بھی معلوم ہوگا کہ کس طرح دونوں ممالک اپنی مشترکہ تاریخ اور مقاصد کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ سفرناموں کی دنیا میں اس نئے اور خوب صورت اضافے پر مصنف، پبلشر دونوں ہی مبارک باد کے حق دار ہیں۔
سیاح جہاں بھی جاتا ہے وہاں کے انسانی ماحول کو ایک سیدھے، سچے اور کریم النفس لہجے میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ قاری کے سامنے ہر منظر جان دار اور زندگی حرکت میں نظر آتی ہے، اور اس سارے منظر کے پیچھے سیاح کی اپنی شخصیت کا الائو روشن رہتا ہے۔ سفرنامے لکھنے کا اصل طریقہ یہی ہے اور اس طرح کے لکھے ہوئے سفرنامے ہی ہمارے تصور کو مالا مال کرتے اور ہماری روایت کا حصہ بنتے ہیں۔