’’سنہری اینٹ‘‘ عقیدہ ختمِ نبوت پر بطورِ خاص بچوں کے لیے لکھی جانے والی غالباً پہلی کتاب ہے۔ بچوں کے لیے لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ بڑوں کو بچوں کی عمر اور ان کی ذہنی سطح کو مدِنظر رکھتے ہوئے لکھنا پڑتا ہے اور یہ کوئی آسان کام ہرگز نہیں ہے۔ اور جب معاملہ محض قصے کہانیوں کا نہ ہو بلکہ بچوں کی اسلامی تربیت اور نظریاتی بنیادوں کا ہو تو مشکل سوا ہوجاتی ہے۔
پیشِ نظر کتاب کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر اسمٰعیل بدایونی کو اللہ تعالیٰ نے خاص صلاحیت سے نوازا ہے۔ انھیں بچوں کے لیے اسلامی موضوعات پر کہانیاں لکھنے میں ملکہ حاصل ہے اور اس میدان میں وہ مسلسل سرگرمِ عمل ہیں۔ اس سے قبل بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی متعدد کتابیں شائع ہوکر قبولِ عام کا درجہ حاصل کرچکی ہیں جن میں ’’سنہری تفسیرِ قرآن‘‘ (دس جلدیں)، ’’سنہری صحاح ستہ‘‘ (ایک حدیث، ایک کہانی)، ’’سنہری فہم القرآن‘‘ (ایک آیت، ایک کہانی)، ’’سنہری سیرت النبیﷺ‘‘، ’’سنہری معجزات النبی ﷺ‘‘ شامل ہیں۔ ان میں سے کئی کتابوں کو وزارتِ مذہبی امور حکومتِ پاکستان کی جانب سے سیرت ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
’’سنہری اینٹ‘‘ بچوں کے لیے عقیدہ ختم نبوت سے متعلق لکھی گئی سبق آموز کہانیوں پر مشتمل ہے۔ ایک مسلمان کے لیے عقیدہ ختم ِ نبوت کا جاننا اور اس پر ایمان رکھنا اتناہی ضروری ہے جتنا کہ عقیدہ توحید اور عقیدہ رسالت کا جاننا اور اس پر ایمان رکھنا۔
پیشِ نظر کتاب میں ڈاکٹر بدایونی نے بچوں کے لیے کہانیوں کی صورت میں سادہ اورعام فہم انداز میں قرآن کریم اور احادیثِ طیبہ کی روشنی میں عقیدہ ختم ِ نبوت کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ نیز اس کتاب میں تحفظِ عقیدہ ختم ِ نبوت کی تاریخ اور اس کے مختلف پہلوئوں کو بھی اختصار کے ساتھ دلنشین انداز میں بیان کردیا ہے، جس کا اندازہ کتاب میں شامل کہانیوں کے درجِ ذیل عنوانات سے بھی کیا جاسکتا ہے:
عقیدہ ختمِ نبوت اور قرآن، عقیدہ ختمِ نبوت اور احادیث، نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کا انجام، طلیحہ اسدی، مسیلمہ کذاب، فتنوں سے پروٹیکشن، اسود عنسی، مغیرہ بن اسد کا انجام، اسحاق اخرس، حسن بن صباح، جال، اجالے کا سفر، انگریز کا خود کاشتہ پودا، مسلمانوں سے علیحدگی، روشنی کی تلاش، مرزا کی گستاخیاں، انبیائے کرام کی شان میں گستاخیاں، ہیڈ کوارٹر، قادیانیت نئے مشن پر، قادیانیت کا پہلا شکار، لیڈر کون، قادیانی مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ پاکستان میں قادیانیوں کو حقوق کیوں نہیں مل رہے؟ دوست کون؟ سوال یہ ہے؟ سونے کا محل، مسجد جلادو، دشمنِ اسلام، جنت کا ویزہ، ڈائیلاگ۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر بدایونی نے بچوں میں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے آگہی فراہم کرنے کے لیے چند مفید تجاویز بھی دی ہیں جن پر اسکولوں میں عمل کرکے اس حوالے سے کام کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ:
مختلف اسکولوں کے بچوں کے درمیان ختمِ نبوت کے حوالے سے ’’ماڈلز‘‘ کا مقابلہ کروایا جائے اور بچے اپنے والدین اور اساتذہ کی مدد سے نہ صرف ماڈل بنائیں بلکہ اس کے بارے میں نمائش (Exhibition) میں دوسرے بچوں کو معلومات بھی فراہم کریں۔ مثلاً: ایک دیوار بنائی جائے جس پر مختلف انبیائے کرام کے نام لکھے ہوں اور ایک آخری نبی کی اینٹ کی جگہ خالی ہو اور اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے بچے اس آخری اینٹ کو اس میں لگادیں اور دوسرے بچوں کو بتائیں کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ محمد مصطفیٰ ﷺ ہی آخری نبی ہیں۔ اسی طرح مختلف علماء کی کتابوں کے ٹائٹل یا نام ہوں، ڈمی کتابیں ہوں اور اس میں جو انھوں نے لکھا ہے اسے آسان، عام فہم الفاظ میں اختصار کے ساتھ بتایا جائے۔ جن علماء نے ردِّ قادیانیت کے حوالے سے کام کیا ہے ان کے ناموں کو خوب صورت انداز میں لکھ کر ڈسپلے کیا جائے۔ اسی طرح نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کے بارے میں ایک پوسٹر بنایا جاسکتا ہے جس میں یہ بتایا جائے کہ کس نے کس سن میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور اس کا کیا انجام ہوا؟ اسی طرح ختم نبوت کی اہمیت و ضرورت کے حوالے سے ایک پوسٹر بنایا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں قادیانیوں کے جرائم کے حوالے سے ایک پوسٹر بنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کئی اور دیگر کام کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس ضمن میں کام کا آغاز کرنے سے پہلے، کام کے دوران اور مکمل کرنے کے بعد مستند علماء سے رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ کسی شرعی غلطی کا امکان نہ رہے۔
ممکن ہے بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو کہ بچوں میں عقیدہ ختمِ نبوت کے حوالے سے ان کاموں کی کیا ضرورت ہے؟ تو واضح رہے کہ موجودہ نسل سوشل میڈیا کے اس طوفانِ بلاخیز میں پروان چڑھنے والی نسل ہے۔ نوجوان نسل جس طرح تیزی سے الحاد کی جانب بڑھ رہی ہے اور بہت سے نوجوان مختلف وجوہات کی بنا پر فتنہ قادیانیت کا شکار ہورہے ہیں، بہت ضروری ہے کہ بچوں کی اسلامی اور نظریاتی خطوط پر پرورش کی جائے۔
ڈاکٹر بدایونی کی یہ کتاب بچوں ہی کے لیے نہیں بڑوں کے لیے بھی مفید ہے۔ عقیدہ ختمِ نبوت کی اہمیت کے پیشِ نظر والدین اور بالخصوص اسکول کے اساتذہ کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ وہ اس حوالے سے بچوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالوں کا جواب دے سکیں۔