پاکستان کرکٹ ٹیم کی کئی برسوں بعد پہلی کامیابی

ساجد خان کو بلاوجہ بہت عرصہ ٹیم سے باہر رکھا گیا۔ پہلے ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد بورڈ نے ان کو شامل کیا۔ انہیں خود اپنی سلیکشن پر حیرانی تھی

پاکستان اور انگلینڈکے درمیان تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز جاری ہے۔ پہلے ٹیسٹ میں انگلینڈ نے پاکستان کو بدترین شکست دی تھی۔ خیال تھا کہ پاکستان کی ناکامیوں کا سلسلہ مزید جاری رہے گا اور ہماری ٹیم انگلینڈ سے بھی ہوم سیریز میں شکست سے دوچار ہوگی۔ مگر دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان نے انگلینڈ کو شکست دے کر سیریز ایک ایک سے برابر کردی، اب تیسرا ٹیسٹ فیصلہ کرے گا کہ کون سی ٹیم سیریز کی فاتح ہے۔ اور اگر میچ ڈرا ہوگیا تو دونوں ٹیموں کے درمیان سیریز ایک ایک سے برابر رہے گی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے پہلے ٹیسٹ میں ٹیم کی شکست کے بعد ٹیم میں تین تبدیلیاں کیں۔ سابق کپتان بابراعظم، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ کو ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔ سیریز کے دوران ہی کرکٹ بورڈ نے ٹیم سلیکشن کمیٹی بھی تبدیل کردی، اور اظہرعلی، اسد شفیق، عاقب جاوید اور ٹیسٹ ایمپائر علیم ڈار کی تقرری کردی جس پر کرکٹ بورڈ پر بہت تنقید بھی ہوئی، خاص طور پر علیم ڈار کو سلیکشن کمیٹی میں شامل کرنے پر۔ اس نئی سلیکشن کمیٹی نے پہلے ٹیسٹ میں شکست کے بعد دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے ایک نئی ٹیم کا اعلان کیا اور کچھ بڑے کھلاڑیوں کو آرام کا موقع دیا گیا، اور کہا گیا کہ یہ کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر اور اپنی پرفارمنس کی بحالی پر قومی ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ جب دوسرے ٹیسٹ کے لیے ٹیم کا اعلان کیا گیا تو نئی سلیکشن کمیٹی پر پرانے اور تجربہ کار کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر نکالنے پر شدید تنقید بھی ہوئی اورکہا گیا کہ بڑے کھلاڑیوں کو باہر نکال کر ہم انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیم کو کیسے ہرا سکیں گے؟ لیکن جب پاکستان کرکٹ ٹیم نے دوسرے ٹیسٹ میچ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ایک بڑی جیت حاصل کی تو تنقید کرنے والوں کے منہ بند ہوگئے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا کچھ کھلاڑیوں کو آرام دینے کا فیصلہ درست ثابت ہوا، اور ایسا لگا کہ بورڈ کو یہ فیصلہ بہت پہلے کرلینا چاہیے تھا۔

اگر بات کی جائے دوسرے ٹیسٹ میچ کی، تو پاکستان نے اپنی گیارہ رکنی ٹیم میں تین اسپنرز کا انتخاب کیا تھا جن میں ساجد خان، زاہد محمود اور نعمان علی شامل تھے، ٹیم میں کوئی ریگولر فاسٹ بولر شامل نہیں کیا گیا، البتہ آل رائونڈر عامر جمال کا انتخاب کیا گیا۔ پاکستان نے دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے اُسی پچ کا انتخاب کیا جہاں پہلے ٹیسٹ میچ میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا تاکہ وہ اسپنرز کی مدد کرے، اور ایسا ہی ہوا۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا، اور پاکستان کے لیے ٹاس جیتنا ضروری بھی تھا کیونکہ وکٹ کو میچ کے تیسرے دن سے اسپن ہونا تھا۔ اس لیے جو بھی ٹیم پہلے بیٹنگ کرکے بڑا اسکور کرتی، وہ دوسری ٹیم کو مشکل میں ڈال سکتی تھی۔ تیسرے اور چوتھے دن اس وکٹ پر اسپن بولرز کو کھیلنا آسان نہیں تھا۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ اس میچ میں ڈیبیوکرنے والے کامران غلام تھے جو بہت عرصے سے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ٹیسٹ ٹیم کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ ان میں ٹیلنٹ بھی کمال کا ہے۔ اس کھلاڑی کا حق کئی برسوں سے مارا جارہا تھا اور وہ ٹیم میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہورہا تھا حالانکہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل رنز کررہا تھا مگر بابراعظم کی جگہ اسے ٹیم میں شامل کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ لیکن بابراعظم کی مسلسل ناکامی کے بعد کرکٹ بورڈ یا سلیکشن کمیٹی کو کامرا ن غلام کو ٹیم کا حصہ بنانا پڑا۔ اُن کی سلیکشن پر بھی بہت تنقید ہوئی کہ بابر اعظم پر ان کو کیوں ترجیح دی گئی ہے۔ لیکن کامران غلام نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں شاندار سنچری اسکور کرکے جہاں اپنا ریکارڈ قائم کیا، وہیں اُن لوگوں کو بھی جواب دیا جو ان کی سلیکشن پر تنقید کررہے تھے۔ ان کی شاندار118رنز کی اننگ نے پاکستان کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی اور پاکستان بڑا اسکور کرنے میں کامیاب ہوا۔ کامران غلام نے جب سنچری کی تو وہ اس سے قبل ڈومیسٹک کرکٹ میں پانچ ہزار سے زیادہ رنز کرچکے تھے اور کرکٹ کے ماہرین کے بقول انہیں دو برس پہلے ٹیم میں موقع ملنا چاہیے تھا، مگر بورڈ کے سابق سربراہ رمیز راجا کی وجہ سے وہ ٹیم کا حصہ نہیں بن سکے، کیونکہ رمیز راجا بابراعظم کی جگہ کسی کو بھی ٹیم میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ رمیز راجا نے پاکستان میں فلیٹ وکٹیں بنوائیں تاکہ بابراعظم زیادہ سے زیادہ رنز اسکور کرکے عالمی ریکارڈ قائم کرسکیں۔ اس میچ میں کامران غلام کے ساتھ صائم ایوب نے بھی 77رنز کی شاندار اننگ کھیلی اور پاکستان نے پہلی اننگ میں 366 رنز بنائے، جس کے جواب میں انگلینڈ کی ٹیم 291 رنز بناسکی۔ پاکستان نے اپنی دوسری اننگز کا آغاز کیا تو اسے انگلینڈ کے خلاف75رنزکی برتری حاصل تھی۔ پہلی اننگزمیں انگلینڈ کے خلاف ساجد خان نے 7 جبکہ نعمان علی نے 3 وکٹیں حاصل کیں۔ دوسری اننگز میں سلمان علی آغا نے ایک مشکل وکٹ پر 63رنز کی اننگ کھیلی جس کی وجہ سے پاکستان نے 221 رنز کرکے مجموعی طور پر انگلینڈ کو297رنز کا ہدف دیا۔ لیکن دوسری اننگزمیں انگلینڈ کرکٹ ٹیم شروع ہی سے نہیں سنبھل سکی اور پاکستان نے یہ ٹیسٹ میچ 152رنز سے جیت لیا۔ اس طرح سیریز ایک ایک سے برابر کی اور پہلے ٹیسٹ میں شکست کا بدلہ بھی لے لیا۔ پاکستان کی طرف سے ساجد خان نے دو جبکہ نعمان علی نے آٹھ وکٹیں حاصل کیں۔ انگلینڈ کی جانب سے دوسرے ٹیسٹ میں صرف بین ڈکٹ نے سنچری کی، مگر دوسری اننگز میں وہ جلدی آئوٹ ہوگئے۔ دوسری اننگز میں صرف کپتان بین اسٹوکس نے 36رنز بنائے، ان کے سوا کوئی کھلاڑی پاکستانی اسپنرز کے سامنے مزاحمت نہیں کرسکا۔ اس طرح پاکستان نے ساڑھے تین برس کے بعد اپنے ہوم گرائونڈ پر کوئی ٹیسٹ میچ جیتا ہے۔

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سیریز کا تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ راولپنڈی میں 24 سے28اکتوبر تک کھیلا جائے گا۔ پاکستان کی دوسرے ٹیسٹ میچ میں کامیابی کا کریڈٹ جہاں کامران غلام، ساجد خان، سلمان آغا اور نعمان علی کو جاتا ہے، وہیں ہمیں نئی سلیکشن کمیٹی کو بھی داد دینی ہوگی کہ ان کی منتخب کردہ ٹیم نے دوسرے ٹیسٹ میں شاندار کامیابی حاصل کرکے سیریز میں اپنی واپسی کو ممکن بنایا۔ پاکستان کو اگر تیسرے ٹیسٹ میچ میں بھی کامیابی حاصل کرنی ہے تو صرف اسپنرز کی مدد سے ہی وہ کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ ساجد خان کو بلاوجہ بہت عرصہ ٹیم سے باہر رکھا گیا۔ پہلے ٹیسٹ میں ناکامی کے بعد بورڈ نے ان کو شامل کیا۔ انہیں خود اپنی سلیکشن پر حیرانی تھی کہ اچانک بورڈ کو ان کا خیال کیسے آگیا! ان کی شاندار کارکردگی نے جہاں ان کی سلیکشن کو درست ثابت کیا وہیں یہ سوال بھی اٹھا کہ ان کو اتنے برس ٹیم سے کیوں باہر رکھا گیا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟