ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بادشاہی مسجد میں فکر انگیز خطابات

مرد نگاہیں نیچی رکھا کریں،عورتیں پردہ کریں، یہ ان کے لیے بہتر ہے

معروف اسلامی اسکالر، رواں صدی کے مجدد ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظ اللہ کا دورۂ پاکستان پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ لاہور کی تاریخی عالمگیری بادشاہی مسجد میں دو طویل لیکچرز کا انعقاد ہوا جن میں ہزاروں سامعین نے دلجمعی سے شرکت کی۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے براہِ راست مسجد آکر خطاب سنے جن میں غیر مسلم بھی شامل تھے۔ ہندو، عیسائی، پارسی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کی براہِ راست تقاریر کو سن کر داد دیے بغیر نہ رہ سکے، جب کہ انٹرنیٹ پر اُن کا بیان سننے والے افراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق کئی لاکھ تھی۔ حکومتِ پاکستان کی دعوت پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کا طویل عرصے بعد دورہ اسلام سے عشق کرنے والوں کے لیے کسی خاص تحفے سے کم نہیں۔ اس سے قبل 1991ء میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے شاگرد ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی دعوت پر آپ پاکستان آئے تھے۔

بادشاہی مسجد میں ہر شخص ڈاکٹر ذاکر نائیک کو قریب سے دیکھنے کا متمنی تھا جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اسلام کے ایک داعی سے عوام کتنی محبت کرتے ہیں۔ بادشاہی مسجد کے پروگرام کو ڈی آئی جی آپریشنز خود مانیٹر کرتے رہے۔ لاہور پولیس نے سیکورٹی کے فول پروف انتظامات کیے۔ نمازِ عشاء کے بعد شروع ہونے والے دونوں دن لیکچرز رات ڈھائی بجے تک جاری رہے جو ہزاروں فرزندانِ اسلام نے بڑی عقیدت سے سنے۔ مسجد میں متعدد بڑی اسکرین لگائی گئی تھیں تاکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا پُرنور چہرہ ہر کسی کو بآسانی نظر آسکے۔ ڈاکٹر صاحب کی محبت سے سرشار عوام کا جم غفیر اس بات کا عکاس تھا کہ ان کی فین فالوئنگ پڑوسی ملک کی طرح پاکستان میں بھی غیر معمولی ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے لیے سماعت کا علیحدہ انتظام بادشاہی مسجد میں تھا، جہاں بڑی اسکرین سے نہ صرف خواتین نے بھی براہِ راست ڈاکٹر صاحب کا خطاب سنا بلکہ سوالات میں بھی پیش پیش دکھائی دیں۔

دورۂ پاکستان کے موقع پر ڈاکٹر صاحب کو بعض حلقوں نے تنقید کا بھی نشانہ بنایا کہ انہوں نے خواتین کے بنائو سنگھار کے بارے میں اس طرح کیوں کہا۔ جب کہ بادشاہی مسجد میں خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائیک نے تمام بات کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ پردے اور حجاب کے بارے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں اُن کا اللہ تعالیٰ نے آغاز ہی مردوں سے کیا ہے کہ مرد خواتین کے سامنے اپنی نظروں کو جھکا کر رکھیں، جب کہ عورتوں کو اس کے بعد احکامات دیے۔ عورتوں کو تعلیم اور کاروبار سمیت ہر چیز کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے، ہر میدان میں خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے سوالات و جوابات کے سیشن میں کئی مرتبہ غیر مسلم کو آئی لو یو (I Love You) بھی کہا اور بڑی محبت و شفقت سے دعوت دی۔ کچھ باتوں پر تلخی بھی ہوئی، کیونکہ ڈاکٹر صاحب یہ چاہتے تھے کہ فضول بحث سے وقت کا ضیاع نہ ہو۔ آپ نے بادشاہی مسجد میں دونوں دن سوالات کے سیشن میں غیر مسلم افراد کو ترجیح دی تاکہ غیر مسلم اپنے تمام خدشات سے بآسانی ان کو آگاہ کرسکیں۔ ایک غیر مسلم نے ڈاکٹر صاحب سے تلخ سوال کیا، جب آپ نے قرآن و حدیث کے علاوہ اُن کی مذہبی کتاب سے جواب واضح کیا تو پوری مسجد تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھی، اس پر ڈاکٹر ذاکر صاحب نے منع کیا کہ کہیں غیر مسلم کو تکلیف نہ ہو، وہ ڈر نہ جائے۔ آپ کی غیر مسلموں سے بھی محبت یکساں دکھائی دی۔

خطیب بادشاہی مسجد مولانا عبدالخبیر آزاد نے جب ڈاکٹر ذاکر نائیک سے کہا ’’آپ سے لاہوری بہت محبت کرتے ہیں‘‘ تو آپ نے مسکرا کر کہا ’’آج مقابلہ ہونا چاہیے کہ کون زیادہ محبت کرتا ہے، ذاکر نائیک پاکستانیوں سے یا پاکستانی بھارتی شہریوں سے بھی زیادہ مجھے چاہتے ہیں‘‘، تو شہریوں نے آئی لو یو کہا، اور ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس کا جواب I Love You کہہ کر دیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ پاکستان آکر میں نے بہت آسودگی محسوس کی، خصوصاً بادشاہی مسجد میں خطاب کرنا میرے لیے بہت پُرمسرت لمحہ ہے۔

دورہ پاکستان میں ان کے بیٹے شیخ فاروق نائیک اور ان کی اہلیہ محترمہ فرحت نائیک بھی شامل ہیں۔ شیخ فاروق نائیک نے بھی دو روز بادشاہی مسجد میں طویل لیکچرز دیے۔ اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے فاروق نائیک بھی اپنے مخصوص انداز میں دعوت کا کام کررہے ہیں۔ ان کی گفتگو کو بھی پذیرائی ملی۔ زندہ دلانِ لاہور نے مہمان شخصیات کا جہاں دلجمعی سے استقبال کیا، وہیں حکومتِ پاکستان کے فیصلے کو بھی سراہا کہ اس نے ایک قدآور اسلامی اسکالر کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔

بادشاہی مسجد کو جہاں برقی قمقموں سے سجایا گیا وہیں اسٹیج کی لائٹنگ بھی غیر معمولی تھی۔ ملک کی معروف فلاحی جماعت کے رہنما تابش قیوم کی اگر خدمات کا تذکرہ نہ کیا جائے تو شاید زیادتی ہوگی۔ انہوں نے میڈیا کو ہر طریقے سے بھرپور تعاون فراہم کیا تاکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے دورۂ بادشاہی مسجد کی بھرپور کوریج ممکن ہوسکے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ امتِ مسلمہ تعداد میں بہت زیادہ ہے لیکن آپس میں اتفاق نہ ہونے کے باعث فٹ بال کی طرح لاتیں پڑ رہی ہیں۔ زندگی کا مقصد پیسہ کمانا نہیں ہے۔ انسان کا مقصد اللہ کی عبادت اور اطاعت کرنا ہے جس کو ہم نے بھلا دیا ہے۔ قرآن پاک کی سورہ اخلاص اللہ تعالیٰ کو جاننے کا طلسم ہے۔ انسان سے جب پوچھا جائے کہ وہ کس سے محبت کرتا ہے تو ایک لمحے سے پہلے اس کے دل و دماغ سے اللہ کا نام بلند ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت مسلمان کا طرہ امتیاز ہے۔ قرآن مجید عالمی ضرورت ہے جو دنیا کا دستور ہونے کے ساتھ ساتھ مظلوموں کی امید ہے۔ قرآن مجید انسانوں کا ہدایت نامہ ہے جو قیامت تک انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے لیکچرز میں بار بار قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھنے کی تلقین کی اور فرقہ واریت سے بچنے پر زور دیا۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کا قتل دنیا میں براہِ راست دیکھا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان فلسطینیوں کے قتلِ عام کو دیکھ رہے ہیں، روک نہیں رہے۔ عالمِ اسلام میں قبرستان جیسی خاموشی ہے۔ تقریریں کرنے سے ظلم روکا نہیں جا سکتا۔ میرے یوٹیوب چینل اور ٹوئٹر اکائونٹ فلسطین پر بات کرنے کی پاداش میں بند کردیے جاتے ہیں۔ لاکھوں لوگ سبسکرائب میرا چینل کرتے ہیں پھر اس کو بند کردیا جاتا ہے تاکہ فلسطین پر ظلم و ستم کے بارے میں اٹھنے والی میری صدا کو روکا جا سکے۔ آپ کا مزید کہنا تھا کہ تمام انسان اللہ کی رسّی کومضبوطی سے تھام لیں اور آپس میں تقسیم نہ ہوں۔ مسلمان اگر باہمی تقسیم سے بچیں تو دنیا کی طاقتور قوت بن سکتے ہیں۔