کفر کے ساتھ اخلاق برتنے کا نہیں

اسلام کی عزت کفر اور کافروں کی خواری میں ہے۔ جس نے اہلِ کفر کو عزیز رکھا اُس نے اہلِ اسلام کو خوار کیا

جعلی تہذیب اور مصنوعی اخلاقیات کے علَم برداروں سے معذرت کے بغیر ایک خط کے اقتباسات ملاحظہ کیجیے (حوالہ شروع):

’’اسلام اور کفر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک کو ثابت و قائم کرنا دوسرے کے دُور ہوجانے کا باعث ہے، اور ان دونوں کے جمع ہوجانے کا احتمال محال ہے… (ایک آیتِ قرآنی کا ترجمہ یہ ہے) اے نبیؐ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو اور ان پر سختی کرو… معلوم ہواکہ (کافروں پر) سختی کرنا خلقِ عظیم ہے۔ پس اسلام کی عزت کفر اور کافروں کی خواری میں ہے۔ جس نے اہلِ کفر کو عزیز رکھا اُس نے اہلِ اسلام کو خوار کیا… ہندوستان میں اہلِ کفر سے جزیہ وصول کرنے کا باعث یہی ہے کہ اہلِ کفر اس ملک کے بادشاہوں کے ساتھ ہم نشیں ہیں۔ ان سے جزیہ لینے کا اصل مقصود ان کی ذلت و خواری ہے، اور یہ خواری اس حد تک ہے کہ (اہلِ کفر) جزیے کے ڈر سے اچھے کپڑے نہ پہن سکیں اور شان و شوکت سے نہ رہ سکیں… حق تعالیٰ نے جزیے کو ان کی خواری کے لیے وضع کیا ہے، اس سے مقصود ان کی رسوائی اور اہلِ اسلام کی عزت اور غلبہ ہے۔‘‘ (حوالہ ختم)

خط کے مندرجات کی نوعیت سے آپ نے کیا اندازہ قائم کیا؟ یہی نا، کہ یہ کسی مسجد کے مُلاّ یا کسی مدرسے کے مولوی کے خط کے اقتباسات ہیں۔ ایسا مُلاّ، ایسا مولوی جس کو نہ اسلام کی کچھ خبر ہے نہ دنیا کے تقاضوں کا کچھ اندازہ ہے۔ جو قدیم پر مطلع ہے، نہ جدید پر آگاہ ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے آپ کا یہ اندازہ درست نہیں ہے۔ یہ خط کسی مولوی، مُلاّ کا نہیں، عالمِ اسلام کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک کا ہے۔ دنیا اس جلیل القدر ہستی کو شیخ احمد سرہندیؒ کے اسمِ گرامی سے پہچانتی ہے اور انہیں سید مجدد الف ثانیؒ کے نام سے دائمی شہرت حاصل ہے۔ وہ ہماری ایک ہزار سال کی تاریخ کے عظیم ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا مذکورہ خط مکتوباتِ امام ربانی جلد اوّل کا 163 واں خط ہے اور صفحہ 275 پر درج ہے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ وہ ہستی جو شریعت اور طریقت کی جامع اور دین کو زندہ کرنے والی یعنی مجدد تھی، اس نے جو فرمایا ہے تو کیوں فرمایا ہے؟

اس سے پہلے کہ ہم اس سوال پر غور کریں، ایک مزاحیہ شعر پڑھ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں:

آپ کی کل میں مرا سُوت تو کَتنے کا نہیں
کفر کے ساتھ میں اخلاق برتنے کا نہیں

شعر کی زبان اور معنی و مفہوم کو ’’جدید تناظر‘‘ میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ ہم جیسے کسی علم و تہذیب سے بے نیاز شاعر کا کارنامہ ہوگا۔ اس شعر سے ظاہر ہے کہ شاعر کو شہادتِ حق کے فریضے سے کچھ آگاہی نہیں اور اس کے مزاج میں ایک ایسا عامیانہ پن ہے جس کا دین و مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔ یہ خیالات قابلِ قدر ہیں مگر ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شاعر کے تشخص کے سلسلے میں آپ کا اندازہ درست نہیں۔ یہ شعر لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کی کلیات کے صفحہ 278 سے ’’اٹھایا‘‘ گیا ہے۔ لسان العصر اور ایسا ابتذال؟ صاف کہہ رہے ہیں کہ کفر کے ساتھ اخلاق نہیں برتا جائے گا۔ تو کیا کفر کے ساتھ بداخلاقی کی جائے گی؟ آخر اکبر الٰہ آبادی کا مسئلہ کیا ہے؟

اکبر الٰہ آبادی کے مسئلے پر گفتگو سے پہلے ایک اور شعر سن لیجیے۔ لیکن یہ شعر اتنا معروف ہے کہ اس کے سلسلے میں پردہ استعمال ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ظاہر ہے کہ یہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا شعر ہے اور آپ نے اسے ہزاروں مرتبہ پڑھا، یا سنا ہوگا:

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

تجزیہ کیا جائے تو حضرت مجدد الف ثانیؒ نے جو کچھ فرمایا ہے وہی اکبر نے بھی اپنے انداز سے کہا ہے، اور اسی بات کو اقبال نے اپنے طریقے سے بیان کیا ہے۔ اپنی روایت کا شعور اسی کو کہتے ہیں۔ یہ شعور ہو تو ایک ہی حقیقت کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔

ظاہر ہے کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے سامنے کفر اور شرک کا ماڈل ہندوازم تھا، اوراکبر اور اقبال کے سامنے جدید مغربی تہذیب اور اس کے مظاہر۔ لیکن اصول ایک ہے اور اس کے اطلاقات یکساں ہیں، اور حق کی ایک سند یہ ہے کہ وہ باطل کو ہر شکل میں پہچان لیتا ہے۔ یہ اہلیت اور صلاحیت ہر ایک کو فراہم نہیں ہوتی، اس کی بہت اچھی مثال سرسید ہیں جو ہندوازم کو باطل اور جدید مغرب کو حق اور خیر سمجھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو ہندوئوں سے دور رہنے اور انگریزوں میں جذب ہوجانے کا ’’مخلصانہ مشورہ‘‘ دیا۔ اس مشورے کا ایک پہلو غالب اور مغلوب کی نفسیات سے ہے، لیکن اس کا دوسرا پہلو اصول اور خاص طور پر اس کے مظاہر کی تفہیم نہ ہونے سے متعلق ہے۔ لیکن حضرت مجدد الف ثانیؒ، اکبر اور اقبال نے جو فرمایا ہے، کیوں فرمایا ہے؟

اس کی وجہ ظاہر ہے کہ حق و باطل کی تمیز ہی اصل تہذیب ہے، یہی اصل آدمیت ہے، اور حق کا معاملہ مغرب کے وضع کردہ نام نہاد انسانی حقوق کے منشور سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ انسانی حقوق کا پورا مغربی مؤقف انسان کی خدائی کے تصور پر کھڑا ہے۔ یہاں صرف انسان ہی ہر چیز کا پیمانہ ہے اور انسان بھی صرف مغربی انسان۔ یہ کفرِ صریح اور باطلِ محض ہے اور یہیں سے حق و باطل کے ساتھ آمیز کرنے اور ان کا امتزاج وضع کرنے کا خیال ابھرتا ہے جو بجائے خود گمراہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حضرت مجددالف ثانیؒ نے یہ بات ہندوازم کے تناظر میں کہی جس میں توحید اور رسالت کا تصور موجود ہے، لیکن کلمۂ رسالتؐ پر آپ کا ایمان ایسا تھا کہ ہندوازم کی ہم نشینی بھی آپ کو گوارہ نہیں تھی۔ رہے اکبر اور اقبال، تو ان کے سامنے سیکولر مغرب تھا جو سرتاپا گمراہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان تین شخصیات کے سامنے اقوامِ متحدہ اور اس کا چارٹر موجود نہیں تھا، لیکن ہوتا تو بھی وہ وہی کہتے جو انہوں نے کہا۔ اس لیے کہ اسلام اقوامِ متحدہ سے ہم آہنگ ہونے کے لیے نہیں آیا۔

اس گفتگو سے یہ حقیقت بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ الٰہیات یا مابعد الطبعیات (Metaphysics) سے بے نیاز ہوکر اخلاقیات اپنے مقام سے گر جاتی ہے، اور صرف ’’انسانی شے‘‘ بن جاتی ہے۔ یہ ہر اعتبار سے ایک جعلی اور مصنوعی اخلاقیات ہے۔ یہ موضوعیت زدہ اور Subjective اخلاقیات ہے اور اس کا اسلام کی معروضی (Objective) اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کا شعر الٹ گیا ہے۔ اب اچھے اچھے لوگ حلقۂ یاراں میں گردنیں کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ بغض، عناد اور حسد کے جراثیم پھیلا رہے ہوتے ہیں اور رزمِ حق و باطل میں موم کی گڑیا بن کر بیٹھے ہوتے ہیں۔